ہاتھرس کی ناکامی پر پی ایف آئی کی چادر

یوگی سرکار کا تازہ کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ہاتھرس کے بدنام زمانہ ایس پی وکرانت ویر کی ملازمت بحال کردی۔ اس مذموم کارروائی کی پردہ پوشی کے لیے پاپولر فرنٹ کے شاہین باغ میں واقع دفتر پر چھاپہ ماردیا گیا تاکہ سارا میڈیا پی ایف آئی کے پیچھے لگا ہے اور یوگی کے منظور نظر کی جانب کسی کی نظر ِبد نہ جانے پائے۔ یہ دونوں کام صرف ایک دن کے فرق سے ہوئے بلکہ پی ایف آئی کی طلباتنظیم سی ایف آئی کے جنرل سکریٹری رؤف شیخ کا نام نہاد اقبالی بیان تو عین اسی دن سامنے آیا۔ اس کے بعد ان سے تفتیش کا بہانہ بناکر اترپردیش ایس ٹی ایف کی ٹیم نے شاہین باغ میں واقع پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے دفتر سمیت کئی مزید ٹھکانوں پر چھاپے مارے۔ رؤف شریف پر ہاتھرس میں مبینہ طور پر فساد بھڑکانے اور اتر پردیش میں سی اے اے، این آر سی مخالف احتجاج کے لئے مالی اعانت اور تشدد کی سازش رچنے کا بے بنیاد الزام لگایا گیا ہے۔اتر پردیش فساد کے معاملے میں خود کفیل ہے۔ وہاں غنڈے دن دہاڑے پولس کی پٹائی کردیتے ہیں اس لیے دنگا فساد برپا کرنے کی خاطر کسی کو کیرالہ سے آنے کی مطلق حاجت نہیں لیکن اپنی بد معاشی کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ یوگی کی ضرورت ہے ۔

سابق سپرنٹنڈنٹ آف پولس وکرانت ویر کو بحال کرنا اس لیے لازمی تھا کہ اس نے ہاتھرس کے معاملے میں یوگی سرکار کی وکالت میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے تھے ۔ ایسے فرمانبردار سپاہی کو معطل رکھ کر دوسرےو فاداروں افسران کو ناراض کرنے کا خطرہ یوگی جی ہر گز مول نہیں لے سکتے ۔ ان کا تو سارا کاروبار ہی ایسے لوگوں کی مدد سے چل رہا ہے ورنہ عوام کے فلاح و بہبود سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ہاتھر س سانحہ کے بعد اس کذب گو افسر نے کہا تھاکہ متوفیہ پر جنسی تشدد کا شکار ہی نہیں ہوئی ۔ اس کے اعضائے مخصوصہ پر چوٹ کا الزام غلط ہے۔ اس نے زبان کاٹنے کے بھی اس نے سرِ عام تردید کردی اور ریڑھ کی ہڈی کے ٹوٹنے کا بھی انکار کردیا حالانکہ سی بی آئی نے اپنی چارج شیٹ میںبیشتر الزامات کی تصدیق کردی ہے۔ اس لیے وکرانت ویر کو ثبوت چھپانے کے الزام میں جیل بھیج دیا جانا چاہیے لیکن اگر اس ولن کو بچانا ہے تو کسی ہیرو کو ولن بناکر پیش کرنا ہوگا اور اس کام کے لیے یوگی پی ایف آئی کو بلی کا بکرا بنا دیا ۔ اس کارروائی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔
ہاتھرس کے شرمناک سانحہ کو پانچ ماہ سے زیادہ کاعرصہ گزر ہوچکا ہے لیکن ابھی تک کسی کو سزا تو دور مقدمہ بھی ٹھیک سے شروع نہیں ہواہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی نے پہلے تو اسے رفع دفع کرنے کی کوشش کی لیکن پھر عوام کے دباو میں آکر پانچ پولس والوں کو معطل کرکے عوامی غصے کو کم کرنے کی کوشش کی ۔ اب ان میں سے ایک کی بحالی ہوچکی ہے اور باقی لوگ بھی بہت جلد ڈیوٹی پر آجائیں گے ۔ کسی کو کوئی سزا تو نہیں ملے گی بعید نہیں کہ ترقی ہوجائے ۔ یوگی نے مہلوک کے پسماندگان کو 25 لاکھ روپیہ ہرجانے کے ساتھ گھر بناکر دینے اور اہل خانہ میں سے ایک فرد کو سرکاری ملازمت کا وعدہ کیا تھا ۔ ان میں سے ایک پورا ہوا مگر پانچ ماہ بعد بھی دو پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ فاسٹ ٹریک کورٹ کی بات کی گئی تھی مگر پانچ مہینوں میں یہ کیس کچھوے کی رفتار سے چلتا نظر آرہا ہے ۔اس بیچ ملزمین کا حوصلہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ان کا وکیلمنا سنگھ پندیر اسے آنر کلنگ کا نام دے کر الٹا مقتول کے گھر والوں کو قاتل بتا رہا ہے۔

اس سنگین معاملے میں ملزمین کو سزا تو دور 4 میں سے 3نے ضمانت کی درخواست داخل کردی ہے ۔ ایف آئی آر کے مطابق ان میں ایک لو کش کی عمر 21 سال ہے مگر اس کے وکیل کا اصرار ہے وہ 18 سال سے بھی کم عمر ہے۔ باقی دونوں آپس میں چچا بھتیجا ہیں اس لیے وکیل کی دلیل یہ ہے کہ ہندوستانی تہذیب میں کوئی بھتیجا اپنے چچا کے سامنے دن دہاڑے عصمت دری نہیں کرسکتا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر چچا اپنے بھتیجے کے سامنے ایسی گھناونی حرکت کرنے لگے تو بھتیجا کیسے رک سکتا ہے؟ ویسے وکیل کی تہذیب والی بات پر بے ساختہ مہابھارت کی یاد آتی ہے۔ اس میں جس وقت دروپدی کاوستر ہرن ہورہا تھا پورا خاندان وہاں موجود تھا۔ گرو درونا چاریہ نے بھی دشاسن کو منع نہیں کرنے کی زحمت نہیں کی ۔ تو کیا وہ لوگ ہندوستان کی قدیم تہذیب سے واقف نہیں تھے ۔

مہابھارت کی پرانی پرمپرا پر عمل کرتےہوئےمقتول کی خاتون وکیل سیما کشواہا کو ڈرایا دھمکایا جارہاہے اس لیے انہوں نے وزارت داخلہ کو خط لکھ کر تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ جموں میں آصفہ کی وکیل کے ساتھ بھی دیش بھکتوں نے یہی سلوک کیا تھا ۔ یہی اس ملک کی روایت بن گئی ہے کہ یہاں پر ظالم زعفرانی گروہ مظلوم کے بجائے ظالم کی پشت پناہی کرنے لیے میدان میں آجاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کنگنا رناوت کو وائی پلس سیکیورٹی دینے والے دیش بھکت اس معاملے میں کیا کرتے ہیں ؟ حد تو یہ ہے کہ الہ باد ہائی کورٹ میں زبردستی چتا جلانے کی سماعت اس لیے نہیں ہوسکی کہ چند نامعلوم وجوہات کی بناء پر خود جج صاحب ہی غیر حاضر ہوگئے۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے دباو کتنا ہے اور کون لگا رہا ہے؟

ہاتھرس معاملے میں ایک جانب تو یہ مجرمانہ ٹال مٹول ہے اور دوسری طرف کیرالہ میں جاکر غیر متعلق لوگوں کو گرفتار کرکے پریشان کیا جارہا ہے۔ اس پہلے کہ صدیق کپن کے معاملے کوئی راحت ملتی رؤف شیخ کو گھیرا جانے لگا ہے اور چھاپے مارے جارہے ہیں ۔ پی ایف آئی کی آڑ میں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی حکمت عملی اب بہت گھس پٹ چکی ہے۔ دسمبر 2019 میں جب شہریت (ترمیمی) قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے شباب پر تھے تو اس وقت بھی تشدد بھڑکانے کے الزام میں اترپردیش حکومت نے مرکز سے پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر فوری پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا ۔ اس مقصد کی خاطر ریاست کے ڈی جی پی او پی سنگھ نےایک سفارشی خط مرکز کو بھیجا تھا ۔ اس کے علاوہ اترپردیش کے نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ نےاخباری نمائندوں کے سامنے بلا ثبوت پی ایف آئی کے اراکین پرتشدد کا بے بنیاد الزام لگا دیا تھامگر پابندی لگوانے کی گیدڑ بھپکی ہوا ہوگئی ۔

مرکزی حکومت نے اتر پردیش سرکار کےاحمقانہ مطالبے کوتو ٹھکرا دیا مگر ایک ماہ بعد انفورسمنٹ ڈائرکٹریٹ کے ذریعہ کیرالہ میں قائم پاپولر فرنٹ آف انڈیااور اُس سے وابستہ ایک غیر سرکاری تنظیم ری ہیب انڈیا کے سات عہدیداروں پرمالی بدعنوانی کا الزام لگا کر طلب کیا حالانکہ یہ 2018 کا ایک پرانا معاملہ تھا جسے میڈیا میں از سرِ نو اچھالا گیا ۔ اس کے دس ماہ بعد پھر سے دسمبر 2020 میں پی ایف آئی سے وابستہ اراکین کے 9؍ ریاستوں میں واقع29 ٹھکانوں پر ای ڈی کی کارروائی کرکے خوفزدہ کرنے کی سعی کی گئی۔ شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کے بعدپی ایف آئی پر اترپردیش اور دہلی میں ہونے والے فسادات اور ہاتھرس معاملے کی ’سازش‘ میں ملوث ہونے کے الزامات میں منی لانڈرنگ کو جوڑ دیا گیا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پی ایف آئی کا بہت زیادہ کام کیرالہ ، کرناٹک ، تمل ناڈو اور راجستھان میں ہے جبکہ سب سے زیادہ چھاپے اترپرد یش میں مارے گئے ۔

اتر پردیش کی حکومت نے معروف صحافی صدیق کپن کےخلاف جو حلف نامہ داخل کیا ہے اس میں پی ایف آئی کو دہلی فساد سے لے کر داعش تک سبھی سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ اتر پردیش کی یوگی سرکار اس طرح کے بے بنیاد الزامات لگا کر کئی مرتبہ عدالت عظمیٰ میں ہزیمت اٹھا چکی ہے ۔ ڈاکٹر کفیل خان کے معاملے میں تو اسے نہ صرف متھرا کورٹ بلکہ سپریم کورٹ میں بھی جوتے پڑے لیکن شرم نہیں آئی ۔ حالیہ کارروائی بھی ہاتھرس کے اصل معاملے میں مجرموں کو سزا دینے میں ناکامی پر پردہ پوشی کی ایک ناکام کوشش ہے۔فی الحال جو سزا کے مستحق ہیں انہیں بحال کیا جارہا ہے اور عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے بے قصور لوگوں کو پھنسایا جارہا ہے۔ ان چھاپوں کے پس پشت انتقامی سیاست صاف نظر آرہی ہے ۔ اس کا مقصد اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کرکے عوام کو ایک غیر موجود خوف میں مبتلا کرنا ہے ۔اپنے پالتومیڈیا کی مدد سے سرکاراس میں کا میابی مل سکتی ہے لیکن اگر وہ خیال کرتی ہے کہ اس قسم کی کارروائی سے پی ایف آئی کے حوصلے پست ہوں گے تو یہ اس کی خوش فہمی ہے اس لیے کہ بقول علامہ اقبال ؎
آئین جوانمراداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449263 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.