تنقید کرنے والا اگر اصلاح کا طالب ہو تو وہ تنقید اس کے
لئے ایک نعمت سے کم نہیں ہوتی۔ہمارے شاعر اور ادیبوں کو اگر اچھا نقاد مل
جائے تو سمجھا جاتا ہے کہ وہ شخص اب حقیقی معنوں میں شاعری اور ادب میں
اپنی منزل پا جائے گا۔ نقاد کی تھوڑی سی کاوش سے وہ اپنی خامیوں پر قابو
پاتا اور بہتر سے بہترین کا سفر تیز رفتاری سے طے کرنے لگتا ہے اوراس کے
بعد بہت تھوڑے عرصے میں اسے وہ مقام ملنے لگتا ہے کہ جسے پانے کا وہ تمنائی
ہوتا ہے۔مگر یہ ادب کی روایات ہیں۔ سیاست میں کسی پر تنقید ایک جرم سمجھی
جاتی ہے۔ہر سیاستدان لوگوں سے تعریف اپنا حق جانتا ہے اور صاف گوئی کو اپنے
لئے گالی سے کم نہیں جانتا۔ حادثہ اس ملک میں یہ ہوا ہے کہ مالی قدروں نے
اخلاقی قدروں کو پوری طرح پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہر اخلاقی طور پرایک بڑا آدمی
جو اس ملک کے ساتھ مخلص ہے وہ پوری طرح مفلس ہے۔ انتظامی امور میں اس کی
کوئی رسائی نہیں اور نہ کوئی اس کی سنتا ہے،اس معاشرے میں لوگ اسے معمولی
جانتے ہیں۔ جب کہ حقیقت میں جو معمولی آدمی ہے جو اخلاقی طور پر چھوٹا آدمی
ہے،وہ اپنے مالی وسائل کی بنا پر ایک بڑا آدمی نظر آتا ہے۔ لوگ اس کی
حماقتوں پر بھی واہ واہ کرتے ہیں اور وہ خود کو مفکر خیال کرتا ہے۔
تانگ خاندان نے چین پر 618 عیسوی سے 906 عیسوی تک کل 288 سال حکمرانی کی۔اس
شہنشاہیت کا بانی اور پہلا حکمران گاؤ زو تھا جو 618 سے 626 تک حکمران رہا
۔ گاؤ زو کے دور میں اس کا بیٹا تائی زونگ فوج کا کمانڈر تھا ۔ اپنی بہترین
جنگجو حکمت عملی کے سبب اس نے اپنے باپ کو حکمران بننے میں مدد کی۔جب اسے
پتہ چلا کہ اس کا باپ اس کے بڑے بھائی کو اپنا جانشین مقرر کر رہا ہے تو اس
نے بغاوت کر دی ۔626 میں اس نے اپنے بڑے اور چھوٹے دو بھائیوں کو قتل کرنے
کے بعد ایسے حالات پیدا کئے کہ گاؤزو اس کے حق میں دستبردار ہو گیا اور
تائی زونگ اس خاندان کے دوسرے بادشاہ کے طور پرسامنے آیا۔ اپنے والد کے دور
میں تائی زونگ نیباپ کے دست راست اور ایک جنرل کے طور پرجس مہارت ، دانش
مندی اور جرات کا مظاہرہ کیا اس کے نتیجے میں کسی نے اس کی بغاوت پر اعتراض
نہیں کیا۔ تائی زونگ 626 سے 649 تک 24 سال تک چین پر حکمران رہا۔ اسے تانگ
خاندان کا شریک بانی بھی کہا جاتا ہے ۔ تائی زونگ کا دور چین کی تاریخ کا
اہم ترین دور ہے جسے قدیم چین کا سنہری دور مانا جاتا ہے ۔سماجی اور سیاسی
طور پر چین میں اس دور میں جس قدر ترقی کی اس کی مثال نہیں ملتی۔تائی زونگ
نے حکومتی طریق کار، بیوروکریسی، چین کے سماجی ڈھانچے ، افواج کے کرداراور
مذہبی آزادی کے بارے جو قوانین اور ضابطے بنائے وہ آج بھی چین میں نافد عمل
ہیں ۔ مذہبی آزادی اور رواداری کے لحاظ سے یہ دور چین کا شاندار دور سمجھا
جاتا ہے۔ جس میں عیسائیت، بدھ مت ، تاؤ ازم اور کنفیوشس ازم کو پوری آزادی
سے پھلنے پھولنے کی اجازت تھی۔ اس دور میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی یلغار کا
مقابلہ کرنے کی لوگوں کی استدعا کو اس نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ میں
کسی مذہبی لڑائی میں فریق نہیں بن سکتا۔اس کا دور انسانی خوشحالی کے لحاظ
سے بہترین دور شمار ہوتا ہے۔اس کا دربار ادیبوں ، شاعروں اوردنیا بھر کے
ذہین فطین لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے دور میں حکمرانی کے بارے دو مشہور
کتابیں لکھی گئیں ، Di Fan یعنی مملکت کا خاکہ اور Zhen Guan Zheng Yao
یعنی حکمرانی کا طرز عمل۔ ان کتابوں میں لکھا گیا ہر لفظ آج بھی چین کی
حکومتوں کے لئے رہنمائی کے اصول طے کرتا ہے اور ان پر پوری طرح عمل کیا
جاتا ہے۔
تائی زونگ کا جانشین اور ولی عہد اس کا بیٹا لی چنکوئین تھا ۔ ولی عہد نے
محسوس کیا کہ اس کا باپ اس کی بجائے کسی دوسرے بیٹے کو ولی عہد بنانا چاہتا
ہے۔ وہ بغاوت پر آمادہ تھا مگر بادشاہ کو بر وقت حالات کی خبر ہو گئی۔
شہزادہ قید کر دیا گیا اور 645 میں فقط26 سال کی عمر میں جیل میں اس
کوغداری کے الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔وے ژینگ مرنے والے ولی عہد
کا مشیر اور چیف آف سٹاف تھا۔بادشاہ نے وے ژینگ کو طلب کیا اور اس کا
انٹرویو کیا۔دوران گفتگو وے ژینگ نے بادشاہ سے کہا ’’اگر شہزادے نے آپ کو
ہٹانے کی میری بات جو بہت عرصہ پہلے میں نے کی تھی ، مان لی ہوتی ، تو وہ
اپنے اس انجام سے بچ گیا ہوتا‘‘۔بادشاہ اس کی اس بات سے خوش ہوا اور اسے
فوری طور پر اپنی ملازمت میں لے لیا۔ کیونکہ بادشاہ کے بقول اسے ایسے صاف
گو لوگوں کی ضرورت تھی۔
اس دور کے کسی دانشور نے کہا ہے’’ A thousand yes-men cannot equal one
honest advisor". یعنی ایک ہزار جی حضوریے بھی ایک ایماندار مشیر کا بدل
نہیں ہو سکتے۔ہماری بد قسمتی ہے کہ نہ تو حکمران کو ایمانداری کی جستجو ہے
اور نہ ہی ہمارے ہاں جی حضوریوں کی کمی ہے ایسے جی حضوریے جو بڑھ بڑھ کر
اپنی احمقانہ وفاداریوں کی یقین دہانی کراتے ہیں۔عقلمند اور با ہوش لیڈر
بحث مباحثے اور تنقید کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن اس کے لئے پہلی شرط
عقلمند اور باہوش ہونا ہے۔خوشامد اور چاپلوسی تو وفاداری اور دیانتداری
دونوں کی دشمن ہے۔ اچھے سیاسی لیڈر اپنے گرد مختلف افکار اور آراء رکھنے
والے لوگ جمع کرتے ہیں تا کہ انہیں مختلف خیالات اور افکار تک رسائی ہو اور
وہ اس میں سے بہترین فکر کا انتخاب کر کے اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ افسوس صد
افسوس، ہمارا تہتر سالہ سفررائیگاں ہے ۔ ابھی تک نہ تو کوئی کام کا لیڈر اس
قوم کو ملا ہے اور نہ ہی کسی لیڈر کو وفادار مشیر۔ وفاداری اشخاص سے نہ بھی
ہو کسی مقصد سے تو ضرور ہونا چائیے۔ مگر سوائے مایوسی کے کچھ نظر نہیں
آتا۔آج کے سار ے مشیر خوشامدیوں اورجی حضوریوں سے بڑھ کر چھچھورے ہیں۔ ان
سے بھلائی کی کوئی امید نہیں اس لئے کہ یہ اپنے لیڈر سے بھی ایماندار نہیں۔
|