میری نظر میں اپنے مفادات کی خاطر اپنے ضمیر کو بیچنا مک
مکاؤ کہلاتا ہے۔ مک مکاؤ کرنے میں ہمارے ملک کے زیادہ تر سیاستدان کافی
تجربہ رکھتے ہیں بلکہ ان سے بہتر اپنے ضمیر کا سودا کوئی بھی نہیں کر سکتا۔
پہلے تو یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیئے کہ ان سیاستدانوں کے ضمیر ہیں ہی نہیں
جو یہ بیچتے ہیں کیوں کہ اگر ان کا ضمیر ہوتا تو انھیں ملامت ضرور کرتا۔
ضمیر رکھنا بھی کوئی آسان نہیں ، یہ سیاستدان جو اپنا ضمیر بیچتے ہیں کیا
ہم ان سے یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ ان کے دل میں ہمارے ملک کے لئے تھوڑا سا
بھی پیار محبت کا جذبہ ہوگا۔ بات در اصل یہ ہے یہ مفاد پرستوں کا ٹولہ ہے
جہاں سے کچھ ملے وہیں کا رخ کر لیتا ہے۔ جنھوں نے چند پیسوں کے عوض اپنا آپ
بیچ دیا وہ اس ملک کا کیا کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ اپنا ضمیر بیچنے والے
اپنے ملک کے ساتھ کس طر ح حب الوطنی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ؟ اور ہم عوام
کس آسانی کے ساتھ بے وقوف بن جاتے ہیں اور ان کی حب الوطنی کے جھوٹے بیانات
پر یقین کر لیتے ہیں۔ ہمیں بھی یہ بات سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں اپنے
نمائندے چنتے وقت سوچ سمجھ کر ووٹ ڈالنا چاہیئے آیا کہ ہماراامید وار اس
قابل بھی ہے کہ وہ ہماری نمائندگی کر بھی سکتا ہے یا نہیں۔ میں اپنے حلقے
کی بات کرتا ہوں ہمارے ہاں ایک پروفیسر صاحب امیدوار ہوتے ہیں ، موٹرسائیکل
پر اپنی سیاسی کمپین کے لئے نکلتے ہیں لیکن کوئی ان کی بات سننے کو بھی
تیار نہیں ہوتا بلکہ انھیں آتا دیکھ کر لوگ اپنے گھروں میں داخل ہوتے ہیں
اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ چھوڑو ہمیں پاگل کی باتیں نہیں سننی اگر وہی
پروفیسر صاحب نئی پراڈو پر کمپین کے لئے نکلیں ساتھ ان کے ایک ویگو ڈالہ ہو
، حفاظت کے لئے چار بندے بغیر لائسنس کے بندوقیں اٹھا کر کھڑے ہوں تو وہی
لوگ جو پروفیسر صاحب کو پاگل کہتے ہیں اپنا ہیرو ماننا شروع کر دیں اور ان
کے اپنے گھر آنے کو باعث برکت سمجھنے لگیں۔لیکن مسئلہ پھر اسی پیسے کا
آجاتا ہے جو حرام طریقے سے کمایا گیا ہوتا ہے۔
سینیٹ انتخابات کی آوزیں زور و شور کے ساتھ سنائی دے رہی ہیں۔ میں پہلے بھی
سینیٹ انتخابات پر لکھ چکا ہوں۔ جناب یہی تو موقع ہے جہاں ہمارے نمائندگان
کی بولیاں لگنی ہیں۔ بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ ضمیر کی منڈی لگے گی پورے
ملک کے سیاسی وڈیرے اپنا ضمیر یا تو فروخت کریں گے یا اپنی اہلیت ثابت کرنے
کے لئے دوسرے پیٹی بھائیوں کے ضمیر خریدیں گے ان کے ضمیر کی قیمت کروڑوں
میں لگائیں گے ۔ پھر جب رشوت کے زریعے منتخب ہوجائیں گے تو وہی سیاسی وڈیرے
ہمارے ملک کے آئین اور قانون پر باتیں کریں گے۔ جس میں صاف لکھا ہے کرپشن
کرنا جرم ہے۔ سینیٹ میں تقریر شروع کرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ اور حضرت محمد ﷺ
کا نام لیں گے اور اس نبی کا نام لیں گے جس نے کہا ہے رشوت لینے اور دینے
والا دونوں جہنمی ہیں۔ کرپشن پر بات کریں گے کہیں گے کرپشن کرنا جرم ہے۔ہم
ملک میں کرپشن کا خاطمہ کرنے لے لئے قانون لا رہے ہیں جس سے کرپشن میں کمی
آجائے گی، کوئی ان نااہلوں کو سمجھائے کے جناب آپ صرف یہ ہارس ٹریڈنگ نہ
کریں آدھے سے زیادہ کرپشن اسی سے ہی ختم ہوجائے گی۔ بلکہ انہیں سمجھانے کی
کیا ضرورت ہے انھیں سب پتہ ہے کس جگہ کیا ہونا ہے یا کہاں خرابی ہے۔ انھیں
یہ بھی پتہ ہے کہ اس ملک کی ترقی کس بات میں ہے لیکن نہیں اگر وہ اس ملک کی
ترقی کا سوچیں تو اپنا کاروبار کیسے چلائیں گے، اپنے بچوں کو لندن کیسے
بھیجیں گے، اپنے بچوں کے لئے امریکہ میں کیسے کاروبار کروائیں گے یا سات
سمندر پار کینیڈا میں پراپرٹی کیسے خریدیں گے۔ یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب
وہ اپنے ضمیر کا سودا کریں گے اپنے ملک کو بیچیں گے۔
میں زیادہ دور نہیں جاتا اپنے قریب کی ہی مثال دیتا ہوں ہمارے قریبی جاننے
والے ایم این اے سے میں نے سوال کیا کہ جناب آپ ایم این اے ہیں، ہم آپ کو
ایوان میں بیٹھا دیکھتے ہیں لیکن آپ وہاں بولتے کچھ نہیں یہ کیا ماجرا ہے
تو کہتے ہیں یار ہم کیا بولیں ہماری مجبوریاں ہیں، ہم عام لوگ وہاں نہیں
بول سکتے ہم ایوان میں جاتے ہیں تو ہمارے خریدار آجاتے ہیں اور ہم چند کروڑ
روپوں میں بک جاتے ہیں ہماری بھی مجبوریاں ہوتی ہیں آپ اسی بات سے اندازہ
لگا لیں کہ ہمارا ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا۔ ہمارے ملک کی ترقی نہ کرنے کی
بڑی وجہ کرپشن ہے جب تک یہ لوگ کرپشن کرنا نہیں چھوڑیں گے ہمارا ملک اسی
طرح ترقی پذیر ہی رہے گا۔ ایم این اے صاحب کو جب یہ بتایا کہ جناب پہلی بار
جو ہمارے ایم پی اے منتخب ہوئے ہیں خیر سے وہ ایم پی اے صاحب بھی قریبی
تعلق والے ہیں انھوں نے بھی کرپشن کرنا شروع کر دی ہے اور اپنے ساتھ ایک دو
پٹواری ملا کر حلقہ میں کرپشن کا بازار سرگرم کئے ہوئے ہیں تو اس بات کا
بھی جواب ایم این اے صاحب کی طرف سے یہی ملتا ہے کہ یار ہماری مجبوری ہے ہم
یہ کام نہیں چھوڑ سکتے اگر ہم یہ کام چھوڑ دیں تو ہمارے ڈیروں کے اخراجات
کیسے پورے ہونگے ۔ اس لئے ہمیں کرپشن کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ جناب ذی
وقار یہی بات آپ کو سمجھانی تھی کہ ہمارا ملک نیچے سے لے کر اوپر تک کرپشن
میں ڈوبا ہوا ہے اور مک مکاؤ پر چل رہا ہے جب تک یہ مک مکاؤ کا عمل بند
نہیں ہوگا ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکے گا۔ اﷲ ہمارا اور ہمارے ملک کا حامی
و ناصر ہو، آمین۔
|