عوام مصیبت میں ․․․عمران کو اقتدار کی فکر․․!

دنیا بھر میں جمہوریت سے بہتر سیاسی نظام آج تک دریافت نہیں ہو سکا۔یہ بات درست ہے کہ جمہوری نظام میں کمزوریاں ہیں،لیکن اس نظام میں بھرپور صلاحیت ہے کہ اپنی کمزوریوں کی اصلاح کرسکے۔یہ بھی درست ہے کہ جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ آئی،اسی لئے اس میں سرمائے کا کردار واضح ہے اور جمہوری نظام نہ صرف پاکستان بلکہ امریکہ،برطانیہ ،جاپان اور دیگر ممالک جہاں رائج ہے،وہاں مختلف مفاداتی گروہ انتخابات کے موقع پر متحرک ہو جاتے ہیں ۔سیاسی لیڈران کو بھاری فنڈنگ کی جاتی ہے اور یہ سوچ کر وسیع سرمایہ لگایا جاتا ہے کہ الیکشن جیت کر ملک کا اقتدار سنبھالنے والا ان کے گھنونے مفادات پورے کرے۔انتخابات کے ذریعہ عوام اپنی پسند کی حکومت کو منتخب اور دوسروں کو مسترد کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ،لیکن راحت اس وقت ہو گی جب تبدیلی سے فائدہ ہو ،تبدیلی کے باوجود حالات میں کوئی فرق نہ آئے اور مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھنے لگیں تو عوام کا جمہوری نظام اور الیکشن پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔

ہمارے ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا،ہمیشہ جمہوری نظام کے سامنے نا ہنوار راستوں پر کانٹے ڈالے گیے۔یہ فارن فنڈنگ جس کا کیس پاکستان تحریک انصاف پر عرصے سے چل رہا ہے ،لیکن اس کا فیصلہ نہیں ہو پا رہا،اس کے پیچھے وہ قوتیں ہی ہیں،جو جمہوریت پر بار بار شب خون مارتی رہی ہیں،لیکن اقتدار پر قابض ہونے کے باوجود انہیں کسی نہ کسی طرح کے جمہوری سسٹم کی ضرورت پڑتی ہے،جس کے لئییہ طاقتیں پہلے اہل سیاست کو آغوش میں لیتی ہیں ،ان کی بھر پور مدد اور پرورش کرتے ہوئے،انہیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا جاتا ہے اور جب وہ سیاستدان عوام میں مقبول اورمضبوط ہونے لگتے ہیں تو انہیں عوام کے سامنے ذلیل کر کے سیاسی میدان سے ’’آؤٹ‘‘کرنے کے در پر ہو جاتے ہیں اور ایک نیا کمزور کھلاڑی میدان میں اتارا جاتا ہے،مختلف طریقوں سے ملک میں انتشار کی فضا کو پھلایا جاتا ہے،عوام میں مختلف طریقوں سے بھوک ،افلاس،غربت اور بیروزگاری بڑھا دی جاتی ہے،اس طرح عوام اس قابل نہیں رہتی کہ کسی رائے پر متفق ہو سکے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کو اقتدار کے سنگاسن پر بیٹھایا گیا،انہوں نے یہ مقام مخالفین کے خلاف کرپشن کی جگالی کرتے ہوئے حاصل کیا اور پاکستان کے تمام سیاسی طبقے کو ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا۔انہیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے علاوہ کوئی دوسرا طبقہ نظر نہیں آتا جو کرپشن کر رہا ہو۔اس حکومت کا وطیرہ رہا ہے کہ جن سنگین معاملات کے بارے میں حریفوں پر تنقید کرتے ہیں،انہیں معاملات میں خود اور ساتھیوں سمیت ملوث پائے جاتے ہیں ۔اس کی مثال پنجاب اور خیبر پختون خوا میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے چار حلقوں کے ضمنی انتخابات میں سامنے آئے ہیں۔2013کے الیکشن میں دھاندلی اور چار حلقے کھولنے کے ڈرامے سے آج تک انتخابات کو درست ہونے کی رٹ لگانے والوں نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 ڈسکہ میں جس انداز میں دھاندلی کی گئی ہے،ا سے دیکھ کر ہر محبّ وطن ششدر رہ گیا ہے۔نہ صرف بے گناہ دو افراد کی جانیں گئیں،بلکہ بیس پولنگ اسٹیشنوں کے پریزائیڈنگ افسران غائب کر لئے گئے۔پی ٹی آئی نے اس الیکشن میں وہی ہتھ کنڈے اور غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا جو ماضی میں کراچی میں ایم کیو ایم کیا کرتی تھی،لیکن الیکشن کمیشن نے اتنی کھلی دھاندلی کی کوشش کے جواب میں صاف الفاظ میں کہا ہے کہ این اے 75 کے ضمنی الیکشن کے 20پولنگ اسٹیشنز کے نتائج میں رد و بدل کا شبہ ہے ۔

الیکشن کمیشن مکمل طور پر خود مختار ادارہ ہے ۔پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ اس کا الیکشن کمیشن کا ادارہ کمزور رہا،کیوں کہ وہ اپنے فیصلوں میں خود مختار نہیں رہا،حالاں کہ آئین نے جتنی طاقت اس ادارے کو دے رکھی ہے،اس حوالے سے اختیارات کا عشر عشیر بھی استعمال نہیں کیا جاتا،کیوں کہ الیکشن کمیشن نے احکامات کا نفاذ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے کروانا ہے،جو کہ یقینی طور پر الیکشن کمیشن کا ساتھ نہیں دیتے ۔ڈسکہ کے انتخابات کے بعد جاری کردہ بیان الیکشن کمیشن کی اسی بے بسی کا عکاس ہے۔جہاں الیکشن کمیشن کے پریذائیڈنگ افسران کو اغوا کر لیا جائے،انہی سے تمام رات نتائج تیار کروائے جائیں اور الیکشن کمیشن اپنے پریذائیڈنگ افسران کو تلاش کرتا رہے ،الیکشن کمیشن کی چیخ و پکار کے بعد صبح 6بجے پریذائیڈنگ آفیسر بمعہ پولنگ بیگز حاضر ہوں اور وفاقی وزراء شبلی فراز اور فواد چوہدری اپنے ٹوئٹر کے ذریعے سب کو خبر دے رہے ہوں کہ این اے 75ڈسکہ سے 7ہزار ووٹوں کی لیڈ سے جیت گئے ہیں اور علی اسجد ملہی کو ڈسکہ کا معرکہ سر کرنے پر مبارک بادیں دی جا رہی ہوں ۔الیکشن کمیشن کو ان کے من پسند نتیجے کا اعلان کرنے پر زور دیا جا رہا ہوں،دھمکیاں دی جا رہی ہوں۔اگر پی ٹی آئی کا ایک ضمنی الیکشن میں اس طرح کا حال ہے تو جنرل الیکشن کی صورت حال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ویسے تو پی ٹی آئی نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے،انہوں نے ووٹ کو چوری کیا ہے ۔جس کا کھلا ثبوت ڈسکہ کے الیکشن میں سامنے آ چکا ہے ۔

جمہوری نظام رائج ممالک میں الیکشن کمیشن مکمل طور پر خود مختار ہوتے ہیں ،وہ کسی دباؤ میں آ ئے بغیر فیصلے کرنے کی بدولت اپنی ساکھ بناتے ہیں اور ان کی یہی ساکھ ان ممالک کی جمہوریت کو مستند بناتی ہے ۔ ہمارے حکمران اخلاقی اور ذہنی اعتبار سے پست ہیں،یہ لوگ مبینہ کرپشن کو سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کرنے والے عوام کی ہمدردیاں اکھٹی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،یہ دراصل لوگوں کا جمہوریت سے اعتماد ختم اور متنفر کروا کر غیر جمہوری قوتوں کے لئے فضا ہموار کررہے ہیں،لیکن یاد رہے اگر اس طرح کسی نے سوچا،تو عوام ایسے نظام اقتدار کو کبھی قبول نہیں کرے گی،حکمرانوں کو اپنے اقتدار کے علاوہ عوام کے مصیبتوں کے حل کے لئے بھی سوچنا ہو گا۔اس سیاسی صورت حال کو بنانے والوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے ،پھر بعد میں معافیاں اور منہ چھپانے کی بجائے سیاسی طبقے کوچاہیے کہ مناسب سیاسی ماحول بنائے، جس میں مکالمہ ہو،کیوں کہ اختلافات تقسیم اور ڈائیلاگ سیاسی استحکام کا باعث بنتے ہیں،اور سیاسی استحکام ہی ترقی کی بنیاد ہے ۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109500 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.