زمانہِ طالب علمی میں پڑھا تھا کہ، جمہوریت وہ نظامِ
حکومت ہے جو عوام پر، عوام کے لیے،عوام کے ذریعے تشکیل پاتا ہے،مگر جمہوریت
کے نام پرپاکستان میں جو نظام چل رہا ہے وہ جمہوریت کم او ر’’مجبوریت‘‘
زیادہ لگتا ہے۔اس نام نہاد جمہوریت میں غریب اور امیر کے لیے الگ الگ
پیمانے مقرر ہیں۔ معمولی نوعیت کے چوری کے واقعات و مقدمات میں ملوث چور تو
جیل میں جاتا ہے مگر وطنِ عزیز کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے بڑے بڑے
ڈاکو، اژدھا کی طرح پھنکارتے اور دندناتے پھر تے ہیں۔ ان پر ہاتھ ڈالنے
والا کوئی نہیں ہے۔ ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ان پر قانونی گرفت کرنے
والا کوئی نہیں ہے۔ جس کی لاٹھی،اس کی بھینس والا فارمولہ چل رہا ہے۔ نیب
جیسا ادارہ بھی ان کے سامنے بے بس ہے کیوں کہ ان کوقانون کو موم بنانے اور
پاؤں تلے روندنے کا فن آتا ہے۔ کھربوں کی کر پشن کر کے بھی بڑی’’مہارت‘‘ سے
ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں، ہر طرف لا قانونیت کا رقص جاری ہے۔طاقتور کمزور
کو دبائے ہوئے ہے،حاکم محکوم کی گردن کے گرد شکنجہ کسے ہوئے
ہے۔جاگیردار،سرمایہ دار،وڈیرا اپنے مزارعوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ظلم و بربریت
کی ایک بھیانک تاریخ انتہائی ڈھٹائی سے رقم کی جا رہی ہے ۔قیام پاکستان کے
بعد جب وطنِ عزیز مخلص قیادت سے محروم ہو گیا تو اس خلا سے فائدہ اٹھاتے
ہوئے مفاد پرست ٹولہ ملک پر غالب آگیا، جو مختلف نام و اشکال کی صورت میں
آج تک مسلط ہے۔چند خاندانوں پر مشتمل اشرافیہ اس ملک کے وسائل پر مکمل طور
پر قابض ہے،جب کہ بائیس کروڑ مجبور ومحکوم عوام کے لیے کو ئی معیشت ہے نہ
کاروبار،مال و جان کا تحفظ ہے نہ حقوق کی پاسداری۔ جینے کا حق ہے نہ کسی کی
عزت و آبرو محفوظ۔یہ ملک صرف اورصرف چندگنے چنے لوگوں کی جاگیر بن کر رہ
گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کا قیام کروڑوں افراد کے لیے تھا یا چند
ہزار لوگوں کے لیے؟؟؟ کیا مہنگائی،بے روزگاری اور کرپشن کے خلاف کڑھناہی
عوام کا مقدر بن کر رہ گیا ہے؟۔درحقیقت یہ سارا نظام دجالی نظام ہے جسے ان
افراد نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بنایا ہے جو عوام کو اپنے استحصالی
نظام میں جکڑکررکھناچاہتے ہیں اور حق حکمرانی اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔یہ
سمجھتے ہیں کہ عوام صرف ہماری محکومی کے لیے جنم لے رہی ہے۔جس میں شریف اور
کمزور کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اسمبلی میں بیٹھا ہر شخص جھوٹ بولتا،مکرو فریب
سے کام لیتا، اپنے اقتدار کے دوام کے لیے ملک وقوم سے سیاست کرتا ہے۔ توجہ
دلانے پر بجائے شرمندگی محسوس کرے، ہٹ دھرمی اورڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے پر
فخر محسوس کرتا ہے۔ غریب عوام کی زندگی مشکلات سے دو چارہے، پٹرول پر بے
شمار ٹیکس لگا کرعوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ سی این جی ویسے ہی
غائب رہتی ہے۔ اس وقت پاکستانی عوام مجبوری و مقہوری کی تصویر بنی نظر آتی
ہے۔موجودہ حالات میں پاکستانی قوم کا حال یہ ہے کہ غریب کو اپنی جان اور
روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور وہ اسی پریشانی میں ہی گھومتے پھر رہے ہیں۔
حکمرانو ں نے اس قوم کو روٹی روزی کے حصول کی جدوجہد میں اس حد تک پھانس کر
رکھ دیا ہے کہ عوام کو کوئی دوسرا خیال آنے ہی نہیں دے رہے۔فیکٹریوں،
کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور 12سے 18گھنٹے کام کے بعد بھی معاشی
تنگدستی کا شکار ہیں۔ ان کو اپنے گھروالوں کے لیے روٹی روزی کے حصول کی
کوششیں اور بھوک اور افلاس میں گھری صورتحال ہی سر اٹھانے نہیں دیتی۔بھوک
وافلاس کی ماری قوم ذہنی غلام بن چکی ہے۔جس میں غلامی سے آزادی کی حس ہی
نہیں رہی۔یہی وجہ ہے اور اسی چیز کو دیکھتے ہوئے حکمران طبقہ تمام تر عوامی
احتجاج اور سنگین صورتحال کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چین کی بانسری بجا
رہاہے اور حلوہ کھانے میں مگن ہے۔انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ،
ہماری ذمہ داری کیا ہے اور رعایا ہم سے کیا چاہتی ہے؟۔وہ تبدیلی کے نام پر
اپنی ناقص کارکردگی گزشتہ حکومتوں پر ڈالنے میں مصروف ہے ۔ وزراء کی فوج
طفر موج عوام کے دکھ درد جاننے کی بجائے صرف مخالفین پر نفرت کے تیر و نشتر
چلاتے دکھائی دیتے ہیں ۔آج پاکستان میں را، موساد، سی آئی اے اور بلیک واٹر
مختلف شکلوں اورصورتوں میں ملک کی بقاء اور سا لمیت سے کھیل رہی ہے۔
پاکستان میں ملک دشمن عناصراس ارض وطن کونقصان پہنچانے کی سازشوں میں مصروف
ہیں جن سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کے ادارے پوری جانفشانی اور جرات سے کام کر
رہے ہیں۔یہ ہے وہ جمہوریت جس کو بچانے کے لیے اپوزیشن لیڈرمیاں نواز شہباز
شریف صاحب دن رات ہلکان ہوتے رہے ہیں مگر مبینہ کرپشن کی وجہ سے انہیں نیب
کا مہمان بننا پڑا۔اسی جمہوریت کا تحفظ کرتے کرتے پاکستان کی سب سے منظم
جماعت۔۔۔ جماعت اسلامی کھڈے لائن لگ کر چار دیوری کے اندرمحدود ہو گئی
ہے۔جی ہاں!یہ ہی وہ جمہوریت ہے جس میں محمود اچکزئی جیسے لوگ مراعات بھی
وطنِ عزیز سے حاصل کر رہے ہیں اور ہرزہ سرائی بھی پاکستان کے خلاف کر رہے
ہیں۔اس جمہوریت کا حُسن ملاحظہ فرمائیں کہ دھرتی ماں کو ناسور کہا جاتا
ہے۔دہشت گردی کی آماجگاہ قرار دیا جاتا ہے، پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے
جاتے ہیں او ر پھر اخبارات میں تین سطور کا عاق نامہ یا اعلانِ لاتعلقی کا
بیان دے کر محبِ وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لیا جاتا ہے۔اسی جمہوریت کی
بدولت اسفند یار جیسے سیاستدان، پہچان پاکستان سے حاصل کرتے ہیں مگر
پاکستان کے خلاف بولنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔آیئے آئین کے تناظر میں
جمہوریت جمہوریت کی رٹ لگانے والے مولانا ٖفضل الرحمن کو دیکھیے، جو آج بھی
کشمیر ی عوام پر ہونے والے مظالم یا پاکستان و بھارت کی موجودہ جنگی کشیدگی
کے موقع پر وطن عزیز کے مفاد کی بجائے صرف جمہوریت بچاؤ مہم پر کام کر رہے
ہیں یہ ہے وہ جمہوریت جس کی بقاء کی جنگ لڑنے کے لیے مریم اورنگ زیب، بلاول
بھٹو، احسن اقبال، خواجہ آصف ہمہ وقت قوم کو جمہوریت کے ثمرات سے آگاہ کر
نے میں مصروف ہیں۔مگر ان ثمرات سے کون کون مستفید ہو رہا ہے؟ یہ کوئی نہیں
بتاتا، بلکہ سوال کرنے والے کو جمہوریت کا دشمن قرار دے دیا جاتاہے۔ احتساب
کی بات کرنے والے کو معیشت کا قاتل کہا جاتا ہے۔اس طرز حکومت پر بات کرنے
اور حق و صداقت کی آواز بلند کرنے والوں کے سرپرسائبر کرائم ایکٹ کی تلوار
لٹکا دی جاتی ہے جمہوریت کے پجاریوں سے میرا ایک سوال ہے،کہ اگر یہ جمہوریت
کا حُسن ہے اگر یہ جمہوریت کی
خوبصورت تصویر ہے تو پھر جمہوریت کا بھیانک چہرہ کیسا ہو گا؟ مگر ایک تلخ
سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس صورت حال کے تمام تر ذمہ دار صرف حکمران و
سیاستدان ہی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بھی اس جرم میں برابر کے شریک
ہیں؟ ان کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے کندھے کون فراہم کرتا ہے؟ کیوں کہ
تاریخ گواہ ہے کہ جب قوم بنی اسرائیل جیسی بن جائے تو حکمران فرعون بن جاتے
ہیں۔اس قوم کے مقدر کے لیے اس وقت تک انقلاب نہیں آسکتا، جب تک عوام خود
فرعونوں کے ٖخلاف کھڑی نہ ہوگی، مگرمعلوم نہیں ہم بے حس ہو گئے ہیں یا
سوچنے سمجھنے کی صلا حیت سے محروم۔آئیے ایک سبق آموز واقعہ پڑھیے اور فیصلہ
کیجیے کہ کیا بندر جیسے جانورکی فہم و فراست ہم سے زیادہ نہیں؟کیا بندر ہم
سے زیادہ عقل مند نہیں؟ ایک شخص جنگل کے درمیان سے گزر رہا تھا کہ اس نے
جھاڑیوں کے درمیان ایک سانپ پھنسا ہوا دیکھا۔ سانپ نے اس سے مدد کی اپیل کی
تو اس نے ایک لکڑی کی مدد سے سانپ کو وہاں سے نکالا۔ باہر آتے ہی سانپ نے
کہا کہ’’میں تمہیں ڈسوں گا‘‘۔ اس شخص نے کہا کہ’’میں نے تمہارے ساتھ نیکی
کی ہے تم میرے ساتھ بدی کرنا چاہتے ہو؟؟؟‘‘۔َ سانپ نے کہا کہ’’ہاں نیکی کا
جواب بدی ہی ہے‘‘۔اس آدمی نے کہا کہ’’چلو کسی سے فیصلہ کرالیتے ہیں‘‘۔چلتے
چلتے ایک گائے کے پاس پہنچے، اس کو سارا واقعہ بیان کرکے فیصلہ پوچھا تو اس
نے کہا کہ’’واقعی نیکی کا جواب بدی ہے کیوں کہ جب میں جوان تھی اور دودھ
دیتی تھی تو میرا مالک میرا خیال رکھتا تھا اور چارہ پانی وقت پہ دیتا تھا،
لیکن اب میں بوڑھی ہوگئی ہوں تو اس نے بھی خیال رکھنا چھوڑ دیا ہے‘‘۔یہ سن
کرسانپ نے کہا کہ’’اب تو میں ڈسوں گا‘‘اس آدمی نے کہا کہ’’ایک اور فیصلہ لے
لیتے ہیں‘‘۔ سانپ مان گیا اور انہوں نے ایک گدھے سے فیصلہ کروایا۔ گدھے نے
بھی یہی کہا کہ’’نیکی کا جواب بدی ہے،کیوں کہ جب تک میرے اندر دم تھا، میں
اپنے مالک کے کام آتا رہا جونہی میں بوڑھا ہوا اس نے مجھے بھگا دیا‘‘۔سانپ
اس شخص کو ڈسنے ہی لگا تھاکہ اس نے منت کرکے کہاکہ’’ایک آخری موقع اور
دو‘‘، سانپ کے حق میں دو فیصلے ہوچکے تھے اس لیے وہ
آخری فیصلہ لینے پہ مان گیا، اب کی بار وہ دونوں ایک بندر کے پاس گئے اور
اسے سارا واقعہ سناکرکہا کہ فیصلہ کرو۔اس نے آدمی سے کہا کہ’’مجھے ان
جھاڑیوں کے پاس لے چلو۔ سانپ کو اندر پھینکو اور پھر میرے سامنے باہر
نکالو۔ اس کے بعد میں فیصلہ کروں گا‘‘۔وہ تینوں واپس اسی جگہ گئے۔ آدمی نے
سانپ کو جھاڑیوں کے اندر پھینک دیا اور پھر باہر نکالنے ہی لگا تھا کہ بندر
نے منع کردیا اور کہا کہ’’اس کے ساتھ نیکی مت کر، یہ نیکی کے قابل ہی
نہیں‘‘۔خدا کی قسم وہ بندر پاکستانی عوام سے زیادہ عقل مند تھا، پاکستانیوں
کو بار بار ایک ہی طرح کے سانپ مختلف ناموں اور طریقوں سے ڈستے ہیں لیکن
ہمیں یہ خیال نہیں آتا کہ یہ سانپ ہیں، ان کے ساتھ نیکی کرنا اپنے آپ کو
مشکل میں ڈالنے کے برابر ہے۔۔۔!!!
|