کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ چھوٹی جماعتوں
کو بھی یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اﷲ کے بندوں کے شب و روز کے مسائل کو آسانی
سے حل کروا سکتے ہیں ۔ہمارے پیارے نبی ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا
افضل الاشغال خدمت الناس۔۔۔بہترین کام عوام کی خدمت ہے ایک دوسری جگہ آپ ﷺ
نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ کہتا ہے کہ جو بندہ میرے بندوں کے مسائل ومشکلات کو
حل کرنے میں لگا رہتا ہے میں اس کے مسائل و مشکلات کو حل کرنے میں لگا رہتا
ہوں ۔ اگر سیرت نبوی کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں نبوت کی ذمہ داریوں
سے پہلے آپ غار حرا میں اﷲ سے لو لگانے کے لئے جاتے تھے تو دوسری طرف جب
مکہ میں ہوتے تو عام لوگوں سے رابطے میں رہتے ان کی مشکلات اور مسائل کو حل
کرنے کی کوششوں میں رہتے مکہ کے لوگ آپ کے پاس اپنی امانتیں رکھواتے تھے
اسی لئے آپ کو امین اور صادق کا خطاب ملا ہوا تھا ۔حضرت بلال آپ ﷺ کے
دوستوں میں سے تھے اس آپ ﷺ اکثر ان کے پاس چلے جاتے حضرت بلال غلام تھے اور
ان کا مالک ان سے بہت زیادہ مشقت لیتا تھا آپ ﷺ جب بلال رضی اﷲ تعالی کے
پاس جاتے تو ان کے کام میں ان کی مدد کرتے ان کے کام کے بوجھ کو ہلکا کرتے
یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی نبوت پر جو چار لوگ سب سے پہلے ایمان لائے ان میں
حضرت بلال رضی اﷲ تعالی بھی شامل تھے ان کے علاوہ حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی
اﷲ تعالی عنہ،حضرت ابو بکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ تھے۔ نبوت ملنے کے بعد بھی آپ دعوت و تبلیغ کے ساتھ سماجی کام بڑھ چڑھ
کر کرتے تھے ۔
ہمارے ملک کی تمام دینی و سیاسی جماعتیں سیاست کے ساتھ سماجی و فلاحی کام
بھی کرتی ہیں جماعت اسلامی کا تو شعبہ خدمت خلق ،الخدمت فاؤنڈیشن اور
الخدمت ویلفیئر سوسائیٹی سماجی خدمات کے کام انجام دیتا ہے ان اداروں کا
کروڑوں روپوں کا بجٹ ہوتا ہے ،جماعت اسلامی کے قیام کا مقصد اعلائے کلمۃ
الحق ہے یعنی پوری دنیا میں حق کے کلمے کو غالب کیا جائے اس کے لئے جماعت
کو منظم کیا جائے اور جس خطے میں مواقع میسر ہوں وہاں اسلامی انقلاب کی
جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔پاکستان کے قیام کا مقصد ہی یہ تھا کہ یہاں پر
اسلامی نظام جاری و ساری کیا جائے اس مقصد کے حصول کے لئے عوامی تائید کی
ضرورت ہے اور عوام کو اپنے قریب لانے کے لئے جماعت مختلف دعوتی پروگرا م کے
علاوہ عوام کی مشکلات و مسائل حل کرنے کے لئے خدمت خلق کا کام بھی کرتی ہے
۔
اور سیاسی جماعتوں کے حوالے سے بھی بات ہو سکتی ہے لیکن یہاں پر ایم کیو
ایم کے حوالے سے بات کریں گے کہ اس تنظیم کے وجود کا مقصد ہی سندھ کے شہری
علاقوں کے نوجوانوں کے داخلوں اور ملازمتوں کے مسائل حل کیے جائیں ۔پی پی
پی کی طرف سے نافذ کردہ کوٹہ سسٹم نے کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہری علاقوں
کے نوجوانوں میں شدید قسم کی احساس محرومی پیدا ہے جس کی وجہ سندھ کے شہری
علاقوں کا نوجوان اپنے مستقبل سے مایوس ہورہا ہے ۔ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا
پڑرہا ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں کے ووٹرز نے ایم کیو ایم کو دل کھول کر
ووٹ بھی دیے اور نوٹ بھی دیے لیکن کراچی شہر میں ایم کیو ایم کی پچھلی تیس
برس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے ۔جس والہانہ انداز میں لوگوں نے ایم
کیو ایم کو اپنے سر پر بٹھایا اور دیگرتمام سیاسی جماعتوں کو ایم کیو ایم
کے مقابلے میں مسترد کردیا ۔لیکن ایم کیو ایم شہری نوجوانون کے سلگتے مسائل
کو حل نہ کر سکی ایم کیو ایم تعلیم اور ملازمت جیسے سنجیدہ مسائل میں
دلچسپی لینے کے بجائے اپنے گروہی مفاداتی سیاست کا شکار ہو گئی جو نوجوان
اس طرز عمل کے خلاف احتجاج کرتا اسے موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا پھر اسی طرح
کبھی کراچی کے نوجوانوں کو سندھیوں سے لڑایا گیا کبھی پنجابیوں سے لڑایا
گیا تو کبھی پٹھانوں سے لڑا کر اپنی ہی قوت کو کمزور کرلیا جب سب قومیتوں
سے لڑائی ہو چکی تو پھر مہاجر سے مہاجر کو لڑایا گیا ایم کیوایم الطاف گروپ
اور ایم کیو ایم حقیقی کے لوگ ایک دوسرے کے کارکنان کو اغوا کرتے انھیں
ہولناک قسم کی اذیتیں دے کر ہلاک کردیا جاتا ۔اس مرحلے پر ہم یہ نہیں کہتے
کہ ایم کیو ایم نے کچھ کام نہیں کئے یہ ضرور کہیں گے جتنا کام کرنا چاہیے
تھا وہ اتنا کام نہ کر سکی ۔اب جو سینٹ کے الیکشن ہونے جارہے ہیں اس میں
ایم کیو ایم کی پوزیشن یہ ہو گئی ہے وہ جس طرف جائے گی وہ جیت جائے گا ،
یوسف رضا گیلانی جو اتحاد کے متفقہ امیدوار ہیں وہ دن بدن اپنی انتخابی
پوزیشن مضبوط بناتے جارہے ہیں اس وقت بظاہر جو صورتحال نظر آرہی ہے وہ یہ
ہے کہ ایم کیو ایم کے ووٹ جس امیدوار کو چلے جائیں وہی جیت جائے گا اب
دیکھنا یہ ہے کہ ایم کیو ایم کس طرح سے یہ گیم کھیلتی ہے کہ وہ کراچی کے
نوجوانوں کے وفاقی اور صوبائی حکومت سے کیا کچھ حاصل کرپاتی ہے حفیظ شیخ
صاحب جو تحریک انصاف کی طرف سے سینٹ کے امیدوار ہیں جس کی مرکز میں حکومت
ہے اور یوسف رضا گیلانی جو پیپلز پارٹی کی طرف سے امیدوار ہیں ان کی جماعت
کی سندھ میں حکومت ہے ۔یوں تو پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سندھ کے شہری علاقوں کے
ساتھ زیادتی کی ہے ملک میں جتنی دفعہ بھی مردم شماری ہوئی ہے اس میں دیہی
علاقوں کی آبادی میں اضافہ چار سو سے پانچ سو فیصد زیادہ دکھایا گیا اور
شہری علاقوں میں یہ اضافہ انتہائی کم دکھایا گیا پی پی پی کو خوف ہے کہ اگر
سندھ کہ شہری علاقوں کی مردم شمار ی کی حقیقی تعداد ریکارڈ پر آگئی تو سندھ
سے اس کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا ۔صوبہ سندھ کا ایک اندازے کے
مطابق80%ریونیو کراچی سے ملتا ہے اس کے جواب میں کراچی گندگی کا شہر بنادیا
گیا کراچی کے پڑھے لکھے نوجوانو ں کے لئے کراچی میں سرکاری اداروں میں
ملازمت کے دروازے بند ہیں اندرون سندھ کا ہر ایم این اے اور ایم پی اے اپنے
حلقہ انتخاب کے سندھی نوجوانوں کو کراچی میں سرکاری ملازمتیں دلا رہا ہے
چاہے وہ اس آسامی کے لئے اہل ہو یا نہ ہو ایم کیو ایم کو تو اس سے زیادہ
بہت کچھ معلوم ہوگا ،تو پھر کس منہ سے پیپلز پارٹی کے لوگ ایم کیو ایم سے
سینٹ کے لئے ووٹ مانگنے آرہے ہیں ،شکایات تو پی ٹی آئی سے بھی ہے کہ پی ٹی
آئی نے پی پی پی سے مل کر کوٹہ سسٹم کو ہمیشہ کے لیے نافذ کردیا جب پی ٹی
آئی کے لوگ سینٹ کے لئے ایم کیو ایم کے پاس آئیں تو ایم کیو ایم کو یہ سوال
ضرور اٹھانا چاہیے بہر حال اس وقت ایم کیو ایم کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ گئی
ہے بلوچستان کے اختر مینگل نے اپنے چار ووٹ کے لئے یوسف رضا گیلانی سے وعدہ
کرلیا اسی لئے بیشتر صحافی اور دانشوروں کی رائے ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے
سینیٹر بننے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا ۔ایم کیو ایم کے لئے یہ
سنہری موقع ہے کہ وہ کراچی کے مسائل کے حل کے وفاقی حکومت سے اچھی شرائط پر
معاہدہ کر لیں ۔
|