عمران خان کی تقریر اور اعتماد کا حصول

 دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔۔۔۔
پَر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
(شاعرِ مشرق علامہ اقبال )
پاکستان میں سیاست ایک ایسا گندہ کھیل بن چکا ہے کہ اس پر لکھنا یا مغز خوری کرنے کی طرف طبیعت راغب نہیں ہو تی ۔مگر موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی تقریر سن کر قلم میں جنبش پیدا ہو ئی اور قرطاسِ ابیض پر رینگنے کی فرمائش کی۔ کیونکہ مجھے اپنی ارضِ پاک سے ایسی محبت ہے کہ جو کوئی بھی اس وطن سے محبت کی گیت گانے لگتا ہے تو میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ یہی کچھ کل شام ہوا، عمران خان نے تقریر کی ، یوں تو تقریر سبھی سیا ستادان کرتے ہیں مگر عمران خان کے لہجہ میں جو دردِ دل چھپا ہوا تھا وہ ان کے اندازِ بیاں سے عیاں تھا ۔ بھلا اس میں کیا شک ہے کہ 1985کے بعد جو بھی حکمران آیا ، اس کا جتنا بس چلا ،وہ اس ملک کی دولت چوری چھپے بیرونِ ملک لے گیا۔ انہوں نے کرپشن جیسے موذی اور شرمناک فعل کو اتنا بار دہرایا کہ ملک میں ہر چھوٹے بڑے کو اب کرپشن کرتے ہو ئے شرم بھی محسوس نہیں ہو تی ۔ گزشتہ پینتیس سالوں میں ملکی خزانے بری طرح لو ٹا گیا ،یہاں تک کہ دوسرے ممالک سے جو قرضۃ لیتے رہے ،یہ بے غیرت اور عوام دشمن سیست دان وہ بھی لوٹ کر لے گئے۔ اداروں میں نالائق اور نکمے لوگوں کو اندر گھسیڑا اور آج اداروں کا یہ حال ہے کہ نہ کام کے نہ اکج کے دشمن اناج کے، صرف تنخواہیں لینے ، روشوت لینے اور مال بنانے کے لئے کرسیوں پر براجماں ہیں۔ اور تو اور عدلیہ کا بھی بیڑا غرق کر دیا ۔ انتظامیہ کو بھی شل کر دیا اور مقنّنہ یعنی پارلیمنٹ، اسے صرف اور صرف گورنمنٹ کے خزانے پر گدھ کی طرح مردار کھانے پر لگا دیا اور بقولِ علامہ اقبال،،
’’ جھپٹنا، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا ۔۔۔۔ لہو گرم رکھنے کا ہے ہے ایک بہانہ ‘‘

ذرا سو چئے ! ارکانِ پارلیمنٹ کرتے کیا ہیں ،؟ ہر ماہ ملکی خزانے سے اربوں روپے نکالنے کے علاوہ ان کا کام کیا ہے؟ قومی اسمبلی کے اجلاس میں جو کچھ ہوتا ہے ،اسے دیکھ کر تو سبزی منڈی کے دلال بھی شرما جاتے ہیں ۔ پورے ملک کی حالت ایک ایسے کینسر زدہ مریض جیسی بنا دی گیا ہے ، جس کے پورے بدن میں کینسر پھیل چکا ہو۔ اندریں حالات اکیلا عمران خان کیا کرے۔ اس کے ارد گرد لوگ بھی اس کینسر زدّہ مریض کے اعضاء ہی تو ہیں ، جو لا علاج ہیں ،کوئی نا تجربہ کار ہے تو کوئی پرانا پاپی ،، عمران خان کہاں سے فرشتے لے آئے ؟ اس وقت گیارہ کوے ایک باز کے ارد گرد جمع ہو کر گرانے میں مصروف ہیں ، اندازہ لگائیے ! کیا ایک باز گیارہ کووں کا مقابلہ کر سکے گا ْ ؟شاید نہ کر سکے مگر عمران خان کے تقریر سے ایک بات جو اظہر من الشمش ہے کہ اس کے دم میں جب تک دم ہے وہ کاں کاں کرنے والے ان کووں کا مقابلہ کر نے کا عزم کیا ہوا ہے ۔ یہ سطورجب شائع ہو ں گے تو وہ انشا اﷲ ارکانِ پالیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر چکے ہو نگے کیونکہ سینیٹ انٹکابات میں جن سولہ ممبران نے ان کے نمائیندے کو ووٹ نہیں دیا اور بِ ک گئے ہیں ۔ایسے لوگوں میں جرائت نام کی کو ئی چیز نہیں ہو تی ۔لہذا وہ شو آف ہینڈ میں عمران خان کو ہی ووٹ دینگے مگر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد بھی عمران خان کے لئے اس کینسر زدہ ملک کو ٹھیک کرنا شاید ممکن نہ ہو ، تاآنکہ وہ اہ ایک ایسا قانون بنانے میں کا میاب نہ ہو جائے جس کے ذریعے کرپشن کرنے والوں کو مثالی سزا دی جا سکے۔ اگر چہ مایوسی گناہ ہے اور میں مایوس نہیں ہوں مگر مطمئن بھی نہیں ہو ں ۔ موجودہ قانون اور عدلیہ ان لٹیروں کو سزا دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔عمران خان کا اپنی تحریر میں یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اکیلا قانوں ان لٹیروں اور غاصبوں کو سزا نہیں دے سکتا، اس کے لئے معاشرے کو آ گے آنا ہو گا ۔ یقینا ایسا ہی ہے ۔بے شک تبدیلی کے راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارا فرسودہ قانون ہے ، اس قانون کے ہوتے ہو ئے کرپٹ لوگ اپنے انجام کو کبھی نہیں پہنچ سکتے بلکہ یہ قانون تو کرپٹ لوگوں کو چھتری مہیا کرتی ہے ۔اس وقت جن لو گوں کے خلاف کرپشن کے کیسز چل رہے ہیں،یہ پانچ سال تک چلتے ہی رہینگے ، پھر نئی حکومت آئیگی تو ان کو بے ْقصور ہونے کا سر ٹیفیکیٹ مل جائے گا اور یہ دھلے دھلائے پھر عوام کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو جائینگے ۔ اﷲ جانے ، اس ملک میں یہ سلسلہ کب تک قائم رہے گا ۔ اگر عوام اس سلسہ کو بند کرنا چاہتے ہیں تو ان کو بھی کرپشن کے خلاف اپنا ردِعمل نہیں دکھا نا ہو گا ۔ مگر ہمیں یہ بھی قوی امید ہے کہ ان سطور کے چھاپنے تک وزیر اعظم عمران خان اعتماد کا ووٹ حاصل کر چکے ہو نگے اور وہ آج کے مقابلہ میں کل زیادہ مضبوط اور با اختیار وزیراعظم ہو ں گے۔ان کی تقریر بے شک ان کے دل کی آئینہ دار تھی مگر عوام نے ان کو ووٹ اسی امید پر دیا ہے کہ وہ ملک میں کرپشن کا خاتمہ کریں گے ، اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دیں اگر قانون اس سلسلہ میں ان کی مدد نہیں کرتا تو وہ اس قانون کو بدل ڈالیں ۔اب یہ بوجھ عوام کے کندھوں پر نہیں ڈالا جا سکتا ۔ تاریخ اس سلسہ میں ان کی کسی مجبوری کو جواز اورقابل ِقبول سرٹیفیکیٹ عطا نہیں کرے گی باایں وجہ ان کو قول کے ساتھ ساتھ عمل کی پالیسی پر بھی سختی سے عمل پیرا ہو نے کی ضرورت ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315781 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More