میڈم مارگریٹ نامی ایک انگریز خاتون جس کا شوہر برطانوی
دور میں پاک و ہند میں سول سروس کا ُبڑا آفیسر تھا۔ خاتون نے زندگی کے کئی
سال ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گزارے۔ واپسی پر اپنی یاداشتوں پر مبنی
بہت ہی خوبصورت کتاب لکھی۔ جس میں اس نے آزادی اور غلامی کا بہترین موازنہ
پیش کیاہے خاتون نے لکھا ہے کہ میرا شوہر جب ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا اْس
وقت میرا بیٹا تقریبا چار سال کا اور بیٹی ایک سال کی تھی۔ ڈپٹی کمشنر کو
ملنے والی کئی ایکڑ پر محیط رہائش گاہ میں ہم رہتے تھے۔ ڈی سی صاحب کے گھر
اور خاندان کی خدمت گزاری پر کئی سو افراد معمور تھے۔ روز پارٹیاں ہوتیں،
شکار کے پرواگرام بنتے ضلع کے بڑے بڑے زمین دار ہمیں اپنے ہاں مدعو کرنا
باعث فخر سمجھتے، اور جس کے ہاں ہم چلے جاتے وہ اسے اپنی عزت افزائی سمجھتا۔
ہمارے ٹھاٹھ ایسے تھے کہ برطانیہ میں ملکہ اور شاہی خاندان کو بھی مشکل سے
ہی میسر تھے۔ ٹرین کے سفر کے دوران نوابی ٹھاٹھ سے آراستہ ایک عالیشان ڈبہ
ڈپٹی کمشنر صاحب کی فیملی کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔ جب ہم ٹرین میں سوار ہوتے
تو سفید لباس میں ملبوس ڈرائیور ہمارے سامنے آخر دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا
ہو جاتا۔ اور سفر کے آغاز کی اجازت طلب کرتا۔ اجازت ملنے پر ہی ٹرین چلنا
شروع ہوتی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ہم سفر کے لیے ٹرین میں بیٹھے تو روایت کے
مطابق ڈرائیور نے حاضر ہو کر اجازت طلب کی۔ اس سے پہلے کہ میں بولتی میرا
5سالہ بیٹا بول اٹھا جس کا موڈ کسی وجہ سے خراب تھا۔ اْس نے ڈرائیور سے کہا
کہ ابھی ٹرین نہیں چلانی۔ ڈرائیور نے حکم بجا لاتے ہوئے کہا کہ جو حکم
چھوٹے صاحب۔ کچھ دیر بعد صورتحال یہ تھی کہ اسٹیشن ماسٹر سمیت پورا عملہ
جمع ہو کر میرے5 سالہ بیٹے سے درخواست کر رہا تھا، لیکن بیٹا ٹرین چلانے کی
اجازت دینے کو تیار نہیں ہوا۔ بالآخر بڑی مشکل سے میں نے کئی چاکلیٹس دینے
کے وعدے پر بیٹے سے ٹرین چلوانے کی اجازت دلائی تو سفر کا آغاز ہوا۔ چند
ماہ بعد میں دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے واپس برطانیہ گئی۔ ہم بذریعہ
بحری جہاز لندن پہنچے، ہماری منزل ویلز کی ایک کاونٹی تھی جس کے لیے ہم نے
ٹرین کا سفر کرنا تھا۔ بیٹی اور بیٹے کو اسٹیشن کے ایک بینچ پر بٹھا کر میں
ٹکٹ لینے چلی گئی، قطار طویل ہونے کی وجہ سے خاصی دیر ہو گئی، جس پر بیٹے
کا موڈ بہت خراب ہو گیا۔ جب ہم ٹرین میں بیٹھے تو عالیشان کمپاونڈ کے بجائے
فرسٹ کلاس کی سیٹیں دیکھ کر بیٹا ایک بار پھر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے
چیخنے چلانے لگا۔ وقت پر ٹرین نے وسل دے کر سفر شروع کیا تو بیٹے نے
باقاعدہ رونا اورچیخنا شروع کر دیا۔ ’’ وہ زور زور سے کہہ رہا تھا، یہ کیسا
الو کا پٹھہ ڈرائیور ہے۔ ہم سے اجازت لئے بغیر ہی اس نے ٹرین چلانا شروع کر
دی ہے۔ میں پاپا سے کہہ کر اسے جوتے لگواؤں گا۔‘‘ میرے لئے اْسے سمجھانا
مشکل ہو گیا کہ ’’یہ اْس کے باپ کا ضلع نہیں بلکہ ا یک آزاد ملک برطانیہ ہے۔
یہاں ڈپٹی کمشنر جیسے تیسرے درجہ کے سرکاری ملازم ہوتے ہیں ان کوتو کیا
وزیر اعظم اور بادشاہ کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ اپنی انا کی تسکین
کے لئے عوام کو خوار کر سکے‘‘۔ جبکہ برصغیر انگریزوں کی غلامی سے آزاد تو
ہوا ہے ج یہ واضح ہے کہ ہم نے انگریز کو ضرور نکالا ہے۔ البتہ غلامی کو دیس
نکالا نہیں دے سکے۔ یہاں آج بھی کئی ڈپٹی کمشنرز، ایس پیز، وزرا مشیران اور
سیاست دان اور جرنیل صرف اپنی انا کی تسکین کے لئے عوام کو گھنٹوں سٹرکوں
پر ذلیل و خوار کرتے ہیں ہر سرکاری و غیرسرکار افسر اور ان کے اہلکار جتنی
چاہیں عوام کی تذلیل کریں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ اس غلامی سے نجات کی
واحد صورت یہی ہے کہ قانون کی حکمرانی کو یقین بنایا جائے ہر طرح کے تعصبات
اور عقیدتوں کو بالا طاق رکھ کر ہر پروٹوکول لینے والے کی مخالفت کرنی
چاہئے۔ اس ا ستحصالی نظام سے نجات ضروری ہے ورنہ صرف جشن آزادی مناکر کو
جھنڈے لگا کر اور موم بتیاں سلگا کر خود کو دھوکہ دینے کا کیا فائدہ کہ ہم
آزاد ہیں- |