مرحوم بیوروکریٹ شہاب الدین نے
مشرقی یورپ کے سفیر کے حوالے سے اپنی خود نوشت شہاب نامے میں ایک واقعہ
قلمبند کیا ہے جس کے ایک ایک حرف سے افواج پاکستان کے متعلق مغرب اور
امریکہ کے ابلیسی جذبات لغویات اور تعصبات کا لاوہ پھوٹ رہا ہے۔ شہاب الدین
uno میں پاکستانی سفارت کار تھے کہ مشرقی یورپ سے تعلق رکھنے والے ہم منصب
سفیر نے انہیں آگاہ کیا کہ دور حاضرہ کی دونوں سپرپاورز سوویت یونین اور
امریکہ کے مابین عالمی سطح پر جن چند معاملات پر اتفاق رائے تھا ان میں پاک
فوج بھی شامل ہے۔سپرپاورز کا مشترکہ پلان ہے کہ پاک فورس کو سویلین حکومتی
اور سیاسی دلدل میں مصروف رکھا جائے تاکہ وہ دنیا کی بہترین منظم اور
ڈسپلنڈ فوج بنکر ہماری لنکا نہ ڈھا دے۔ شہاب نامے کا یہ قصہ راقم کے ذہن
میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں جاری افواج پاکستان کے خلاف میڈیاوار
سے جڑی ہوئی خبریں پڑھنے کے بعد مچلنے لگا۔نیویارک ٹائمز نے cia کی شہہ پر
نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ تمام کور کمانڈرز امریکہ مخالف ہیں اور جنرل کیانی
اپنی سیٹ بچانے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔کیانی کی چھٹی ہوئی تو کوئی سخت
گیر جرنیل آجائے گا جو امریکہ کے لئے مضر صحت ہوگا۔دوسری طرف کیانی نے شیر
مشتاق کی گھن گرج کے ساتھ کہا کہ پاک فورس ہر وقت تیار ہے اور ملکی سالمیت
پر کوئی آنچ نہیں آسکتی۔امریکی میڈیا میں فریب و فسوں کاری میں گندھی ہوئی
کہانیوں کا زور ہے۔ امریکہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پاکستان سے جب اپنے
سارے مطالبات منوانے میں شکست کھائی تو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف
پاک فوج کے خلاف پروپگنڈہ وار شروع کروا دی۔پاک فوج جو دشمنوں کے مکروہ
عزائم کو تہہ خاک کرنے کا ملکہ رکھتی ہے اور یہی ادائے بے نیازی امریکہ کو
راس نہیں۔ صہیونی زرائع ابلاغ چند واقعات کو ایشو بنا کر دنیا میں پاک فوج
کا تشخص پامال کرنا چاہتے ہیں اور ہماری سیکیورٹی فورسز کو ناکام فوج ثابت
کرنے کی بھونڈی سازشیں زوروں پر ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ میڈیا نے آرمی چیف
کیانی پر بھی کیچڑ اچھالا۔ آرمی چیف کو ہدف تنقید بنانے کا واحد مقصد یہ ہے
کہ پاکستان کے خلاف یہود و ہنود کی ریشہ دوانیوں اور بداعمالیوں اور چالوں
کی راہ میں رکاوٹ بننے والا بڑا پتھر بھی ہٹ جائے۔ ماضی کے چاروں ڈکٹیٹر
امریکہ کی مدح سرائی فرماتے اور انکے ایک اشارے پر قومی مفادات کا تیاپانچہ
کردیتے۔ امریکہ نے پاکستان میں ہمیشہ ڈکٹیٹروں کے اقتدار کو بیساکھیاں
فراہم شپس کا سرپرست رہا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ موجودہ فورس کیانی کی
سالاری میں ماضی کا کردار ادا کرنے سے انکاری ہے۔پاک فورس کے خلاف سازش
دراصل ملک و قوم کے لئے زہر قاتل اور وبال جان ہے۔گزشتہ دنوں دو اہم شخصیات
کی آمد پر ملکی ماحول خاصا ہیجان خیز تھا۔افغان صدر حامد کرزئی اورcia کے
گرو اور امریکہ کے نامزد وزیردفاع لیوپینٹا تھے۔دونوں شخصیات ایک ایسے وقت
پر پاکستان پہنچے جب امریکہ افغانستان سے انخلا کا پروگرام مرتب کردہ
ہے۔کرزئی کی آمد شیڈول کے مطابق تھی تاہم سی آئی اے کے سرخیل لیوپینتٹا
اچانک وارد ہوئے۔ امریکی رزیل کا مطالبہ تھا کہ پاک امریکہ ریلیشن کو ایبٹ
آباد سے پہلے والی پوزیشن پر لایا جائے مگر ہماری عسکری قیادت نے کورا جواب
دیا اور آئندہ امریکہ سے فوجی سازوسامان کی امداد لینے سے انکار کردیا
کیانی کے اعلان پر لیوپینٹا چیں بچیں ہوگئے۔امریکی وزیردفاع نے انکار پر
پرانی روش پر عمل کرتے ہوئے افواج پر الزامات تراشی کی بھرمار کردی۔امریکی
وزیردفاع دراصل پاکستان سے واپس بھیجے جانیوالے امریکی فوجیوں کی گو شمالی
رکوانے آئے تھے۔cia کے ایجنٹوں کو امریکہ سے پاکستان کے لئے ویزے نہیں مل
رہے۔عسکری قائدین نے سی آئی اے کے سربراہ کے سامنے کورنش بجالانے کی بجائے
چٹا گورا جواب (نہیں) دیا۔کیانی نے امریکی وزیردفاع پر یہ حقیقت راسخ کردی
کہ اب امریکیوں کو غیر نصابی سرگرمیوں کے لئے ایک انچ نہیں دیا
جاسکتا۔لیوپینٹا بے نیل و مرام واپس پلٹ گئے۔عسکری قیادت کے روئیے پالیسی
اور اقدام کو قوم نے داد تحسین سے نوازا۔اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ
امریکی طاقت کی زبان سمجھتے ہیں۔امریکیوں کی تاریخ گواہ ہے جب کبھی کسی نے
اسکے ساتھ برابری کی بنیاد پر بات کی تو وہ ہاتھ باندھنے پر راضی ہوجاتے
ہیں۔ہماری عسکری قیادت نے امریکہ سے اپنی خود مختیاری کے بدلے امداد لینے
سے انکار کردیا ہے۔cia کے لیوپینٹا اور کیانی کے مابین حالیہ کشا کش میں
حکومت کو ایک طرف پاک فوج کی پشت پر کھڑا ہونا چاہیے تو دوسری طرف سیاسی
حکمران امداد کے نام پر ملنے والی خیرات سے چھٹکارا حاصل کریں۔ درویش کا
قول ہے کہ کشکول چاہے لوہے کا ہو یا اس میں ہیرے جڑ دئیے جائیں تو وہ کشکول
ہی رہتا ہے۔ امداد چاہے ڈالروں کی شکل میں ہو یا فوجی سازوسامان کے روپ میں
وہ خیرات ہی ہوتی ہے۔امریکی خیرات کے ڈالر پھینک کر قوموں کی آزادی اور خود
حمیتی کو سلب کرلیتے ہیں۔امریکہ کابل سے بھاگنے جسے انخلا کا نام دیا جارہا
ہے کا پروگرام مرتب کررہا ہے۔ ہمیں محتاط ہوجانا چاہیے کہ وہ جاتے جاتے
ہمارے ساتھ دو دو ہاتھ کرجائے۔ وقت آچکا ہے کہ ہمیں امریکہ کی نام نہاد
اینٹی ٹیررازم وار سے جان چھڑوا لینی چاہیے آخر35 ہزار پاکستانی مروانے کے
بعد یہ سلسلہ فوری طور پر ختم ہونا چاہیے؟ جہاں تک پاک فوج کے خلاف ہونے
والی میڈیاوار کا تعلق ہے تو اسکا بروقت تدارک ہونا چاہیے اور یہ تدارک تب
ہی ہوسکتا ہے جب پوری قوم متحد ہوکر یہ ثابت نہ کرے کہ ہم یک جان اور کسی
بھی زیادتی کا دانت شکن جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔اس پر طرہ یہ کہ ہمارا
اتحاد اس سچائی کو بھی دنیا بھر پر منکشف کرسکتا ہے کہ پاک فوج کے خلاف
بیہودہ بیانات دینے سے قوم کو بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔نیویارک ٹائمز سمیت
امریکہ اور مغرب کے دیگر الیکٹرانک اور اخباری ادارے یہودیوں کی ملکیت ہیں
جو cia کے ڈالروں پر پلتے اور چلتے ہیں۔پاکستان کی ہر حکومت نے غلطیاں کی
ہیں اس نازک ترین سنیاریو میں سیاسی رہنماؤں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ
اچھل اچھل کر بیانات دینے میں وقت برباد کردیں۔ عالمی طاقتیں ہمارے ایٹمی
اثاثوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ پاکستان کی سالمیت کا تقاضا ہے کہ سیاسی و
دینی رہنما قوم پاکستان حکومت اور عسکری اداروں کو یکجہتی اتفاق اور اتحاد
کا دامن تھام لینا چاہیے ورنہ کئی بلائیں ہمیں نگلنے کے لئے منہ کھولے کھڑی
ہیں۔ |