ایبٹ آبادمیں امریکی فورسز کے
آپریشن اور مہران بیس پروطن دشمن طاقتوں کے حملے کے بعد پاکستان کی مسلح
افواج اور آئی ایس آئی مسلسل الزامات کی زد میں ہیں ۔ نیو یارک ٹائمز نے
پاک فوج کے خلاف اپنی غلیظ پروپیگنڈہ مہم میں تیزی لاتے ہوئے کہا ہے کہ
جنرل کیا نی صرف اپنا عہدہ بچانے کے لیے ساری تگ و دو کر رہے ہیں، تمام کور
کمانڈرز امریکہ کے مخالف ہیں، خدشہ ہے کہ جنرل کیا نی کے بعد امریکہ کو کسی
سخت موقف اختیار کرنے والے جرنیل سے سابقہ پڑ سکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے
اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی پاکستانی فوج کو مغربی ٹکڑوں پر پلنے
والے نام نہاد دانش ور اور عاصمہ جہانگیر ٹائپ لوگ مسلسل آڑے ہاتھوں لیے
ہوئے ہیں ۔اب اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ پاکستان میں اپنے مفادات کے حصول
، ایٹمی تنصیبات تک رسائی کے لیے امریکہ اپنے ڈالرز پانی کی طرح بہا رہا ہے
جس کی زد میں آکر بڑے بڑے قد آور سیاستدان ، صحافی اور دانش ور بہتے چلے جا
رہے ہیں اور انہیں ایک لمحے کو بھی یہ خیال نہیں گزرتا کہ وہ پاکستان آرمی
کے خلاف زہر اگل کر اس مملکت کو سراسر کمزور اور ناکام ریاست بنانے پر تلے
ہوئے ہیں۔امریکہ نے ہر محاذ پر ناکامی کے بعد اب نئی حکمت عملی کے تحت
پاکستانی عوام اور دانش وروں ، این جی اوز کے ہاتھوں پاکستان کی سیکیورٹی
فورسز کو آڑے ہاتھوں لینے کا منصوبہ بنا لیا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی فوج
محض عوام کے اعتماد کے بل بوتے پر ہی مضبوط ہوا کرتی ہے اور جب عوامی
اعتماد ہی اٹھنے لگے تو ملک کی سرحدوں کے محافظوں کے عزائم لڑ کھڑا نے لگتے
ہیں اور ان کے پایہ استقلال میں لغز ش آنے لگتی ہے۔ امریکہ اور دیگر طاغوتی
طاقتیں ایک لمبے عرصے سے پاکستان کے خلاف جس جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں اب
انہیں بالکل صاف اندازہ ہو رہا ہے کہ ان کے ان گھناﺅ نے عزائم کے آگے سب سے
بڑی رکاوٹ صرف اور صرف پاکستان کی مسلح افواج ہیں،سیاستدانوں کو تو انہوں
نے دیوار کے ساتھ لگا دیا، عوا می حلقوں کا اعتماد اب ان سیاستدانوں سے
یکسر اٹھ چکا ، کرپشن اور اقربا پروری کے طوفان میں گھرکر پا کستان کا ہر
قومی ادارہ زوال اور ناکامی کی دہلیز کو چھونے لگا ،اسی طرح پاکستان کی
مسلح افواج کو بھی ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے انہوں نے کوئی کسر نہیں
چھوڑی اور سیکیورٹی فورسز پر پے درپے حملے کرواکر عوام کو یہ باور کرانے کی
کوشش کی گئی کہ اب پاک فوج میں وہ سکت اور ہمت نہیں رہی کہ یہ ملک کی حفاظت
کے قابل ہو۔یہ ایک انتہائی نازک اور پیچیدہ صورتحال ہے جس کا وقت پر تدارک
کیا جانا از حد ضروری ہے اور پاکستان کے کروڑوں عوام باہمی اتحاد اور
یگانگت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ان اسلام اور ملک دشمن طاقتوں کو یہ باور
کرائیں کہ انہیں بہر صورت اپنی مسلح افواج پر پورا اعتماد ہے اور انشاءاللہ
پاکستانی سیکیورٹی فورسز اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی پوری پوری صلاحیت
رکھتی ہیں، پوری قوم کو متحد ہو کر اس طرح کی غلیظ مہم کو مسترد کرنا
ہوگااسی میں ہی ہم سب کی بقا ءکا راز مضمر ہے ۔
ہمارے سیاستدانوں کی کوتاہ فہمی اور ژولیدہ فکری کا اندازہ اس بات سے
لگائیے کہ وہ بھی تمام تر ناکامیوں کی جڑ پاک فوج کو قرار دیتے ہیں اور ان
کی ساری تان بالآخر فوج پر ہی آکر ٹوٹتی ہے حالانکہ پاکستان کو امریکی
کالونی بنانے میں جتنا حصہ پاکستانی سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ڈالا ہے اس
کا عشر عشیر بھی پاکستانی فوج کے حصے میں نہیں آتا۔ تیزی سے بدلتے اس
منظرنامے سے صاف اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چونکہ پاکستان میں صرف آرمی ہی
ایک ایسا شعبہ بچا ہے جونہ صرف یہ کہ ایک طاقتور ترین ادارہ ہے بلکہ اپنی
دھرتی کے دفاع کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہے ، امریکہ اور عالمی طاغوتی
طاقتیں اب اس نئے مشن پر عمل پیرا ہیں کہ فوج کو اپنے ہی گھر میں رسوائے
زمانہ قرار دے دیا جائے اور سیکیورٹی فورسز کی صفوں میں انتشار کی سی فضا
پیدا کر کے اپنے مقاصد حاصل کیے جائیں اور پاکستانی عوام سے امید کی یہ
آخری کرن بھی چھین لی جائے ۔یہی وجہ ہے کہ اس نازک اور کڑے وقت میں عاصمہ
جہانگیر قماش کے لوگوں کی طرف سے پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی
محافظ پاک فوج کو اس دھرتی پر خوب رگیدا جا رہا ہے اور آرمی کو تمام
برائیوں کی جڑ قرار دیا جا رہا ہے ۔آج دیکھیں کہ امریکی وظیفہ خوار جرنلسٹ
، کالمسٹ ، دانش ور اور سیاستدان کس بھونڈے انداز میں آرمی کو بر ا بھلا
کہے جا رہے ہیں او ر نہایت غلط انداز میں فوج کے امیج کو متاثر کیا جا رہا
ہے ۔
یہ نام نہاد سیاسی دانش ور اور پاکستان کے سیاہ و سفید کی مالک یہ پولیٹیکل
پارٹیاں اپنی نااہلی چھپانے کے لیے ہر دور میں فوج کے خلاف ”دریدہ دہنی“ کا
مظاہرہ کرتی رہتی ہیں ،فوج کو صرف اور صرف اقتدار کا طعنہ دے کر آج اس کا
چہرہ مسخ کر کے عالمی طاقتوں کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی سعی کی جا
رہی ہے ، حالانکہ میرے خیال کے مطابق فوج کا اقتدار میں آنا بذات خود ان
پولیٹیکل جماعتوں اور لیڈروں کی ” ناقص کارکردگی “سے پردہ اٹھاتا ہے اور
حقیقت یہ ہے کہ فوج کا بار بار اقتدار میں آنا دراصل ان جماعتوں کی عوامی
اور ملی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان ہے کہ آخر یہ سیاسی جماعتیں کیوں ایسے
حالات بنادیتی ہیں کہ فوج کو مجبور ا ً اقتدار میں آنا پڑتا ہے ۔سیاسی
جماعتوں کو یہ بات بہرحال تسلیم کرنا ہو گی کہ انہوں نے ہی اپنی کوتاہیوں
کے بل بوتے پر فوج کو اقتدار کی راہیں دکھائی ہیں۔اب تو یہ رواج زور پکڑ
چکا ہے کہ ہر سیاسی جماعت اور سیاسی لیڈر ”فوجی آمریت “کا راگ الاپ کر اپنا
قد کاٹھ بڑھانے کی کوشش کرتاہے حتیٰ کہ ایک عام سیاسی کارکن بھی جب تک
”آمریت “کی آڑ لے کر فوج کو برا بھلا نہ کہہ ڈالے اسے چین نہیں آتا ۔ فوج
کو برا بھلا کہنے کا یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے ، ذرا تمام سیاسی
جماعتیں اور رہنما ءایک لمحے کو کم ظرفی کا لبادہ ہٹا کر حقیقت پسندی پر
اترا ٓئیں کہ کیا واقعی پاک فوج کا مشن اقتدار کے مزے لوٹنے تک رہ گیا ہے ؟
کیا فوج اپنی اہم ترین ذمہ داریوں سے غافل ہو کر ہر دم اقتدار میں ”گھسنے
“کی منصوبہ کر تی نظر آتی ہے ؟ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ جمہوری ٹھیکیدار
صحیح معنوں میں حقیقت کا سامنا کر نا چاہیں تو بہت جلد انہیں معلوم ہو جائے
گا کہ آج ملک جن بحرانوں سے دوچار ہے اس کا سارا کریڈٹ خود انہیں جاتا ہے ،
یہ لوگ تو محض خود کو مظلوم کہلوانے کی خاطر اور اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ
کے لیے فوج کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے رہتے ہیں اور سیدھے سادے عوام کو یہ
باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دیکھیں جی ! ہم کتنی عظیم جہد و جہد کر
رہے ہیں کہ ہمارا مقابلہ براہ راست مسلح افواج سے ہے ، ہمارے خاتمے کے لیے
پاک فوج دن رات اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہے اور ملک کے جرنیل کا کام صرف
اور صرف سیاستدانوں کی راہیں مسدود کرنے تک رہ گیا ہے ۔ دکھ سا ہوتا ہے جب
اس ملک کے سیاسی حلقے فوج کے خلاف بیانات کا طومار کھڑا دیتے ہیں اور
نوجوان نسل کے ذہن میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان میں دگر
گوں حالات ، کسمپرسی ، غربت ، بم بلاسٹ اور افراتفری کی ذمہ دار یہی فوج ہے
۔ چند روز قبل ایک ”امن سیمینار “پروگرام میں شرکت کا موقع ملا ،یہ جان کر
دل پسیج گیا کہ بیشتر مقررین و سیاسی کارکنوں نے دہشت گردی اور دیگر
معاشرتی ناہمواریوں کا ذمہ دار پاک فوج اور علمائے کرام کو ٹھہرایا ، میں
نے اپنی باری آنے پر حاضرین کو بتایا کہ کس قدر ناانصافی کی بات ہے کہ آج
اس پروگرام میں یہ امن کے دعوے دار جن دو گروہوں پر حالات کی خرابی کا
الزام لگا رہے ہیں ان کا کوئی بھی نمائندہ اس پروگرام میں شریک نہیں ۔کیا
یہ سراسر ظلم اور زیادتی نہیں ؟حالانکہ اس پروگرام کی منتظم جماعت کا کہنا
ہے کہ اس امن سیمینار میں تمام طبقات کی نمائندگی ہے مگر میں دیکھ رہا ہوں
کہ یہاں معاشرے کے دو انتہائی اہم طبقے فوج اور علمائے کرام کا کوئی بھی
نمائندہ شریک نہیں۔قارئین ! پھر مجھے کہنے دیجیے کہ امن کی ٹھیکیدار یہ نام
نہاد این جی اوز مغرب کے مفادا ت کو پیش نظر رکھ کر ہی اپنے پروگرامز ترتیب
دیتی ہیں جن کامقصد بس یہی ہوتا ہے کہ علمائے کرام اور اس ملک کی فوج کو
راندہ درگاہ قرار دیکر اپنے اس مملکت کو ناکامی سے دوچار کر دیا جائے لیکن
آج ہمیں کم ازکم اتنا تو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کا ناقابل تسخیر دفاع
، ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کی عظیم تر ذمہ داری محض پاک فوج کے مرہون منت ہے
اور اس کی بڑ ی وجہ یہ ہے کہ الحمد اللہ اس دھرتی کی مسلح افواج نے کبھی
بھی اپنے فرض میں سستی یا کاہلی کا ہر گزمظاہرہ نہیں کیا اور ”خاکی وردی“
زیب تن کرنے والوں نے گزشتہ تریسٹھ سالوںمیں کبھی بھی اصولوں پر سودے بازی
نہیں کی، جب بھی اس دھرتی پر مشکل گھڑی آئی خاکی وردی کے متوالوںنے تن من
دھن قربان کر کے رکھ دیا ۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ ”خاکی وردی“ اور ”لال
لہو “کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے ، دنیا نے بار ہا دیکھا کہ ”خاکی وردی“
جب بھی ”لال لہو“ میں بھیگی اس کی شان و شوکت میں مزید نکھار آیا اور اس
ملک کے محافظ اپنی خوبصورت جوانیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کٹتے مرتے چلے
گئے اورکبھی بھی اس کے دفاع سے غافل نہیں رہے ۔
آزادی کے صرف ایک سال بعد ہی جب پڑوسی ملک نے ہماری بے سرو سامانی کو
دیکھتے ہوئے ہم پر جنگ مسلط کی تو دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح
اخلاص اور جزبہ حب الوطنی کا مظاہر ہ کرکے ہماری یہ سپاہ دشمن سے ٹکرا گئی
اور اس کے ارادوں کو مٹی میں ملا دیا ۔ پھر 1965ءمیں پاک فوج نے جس جرات
اور دلیری کا ثبوت دیا اس کی مثال بھلا کون پیش کر سکتا ہے ؟ میجر عزیز
بھٹی ، حوالدار نور محمد اور سپاہی سوار حسین شہید کا نام نامی آج بھی مکار
ہندو بنیئے کی نیندیں اڑائے رکھتا ہے ، 1971ءکی جنگ بھی ہمارے سامنے ہے کہ
ان خاکی وردی والوں نے جانیں بھی قربان کیں ، قید و بند کی صعوبتیں بھی
جھیلیں مگر یہ فوج اس بدلے میں ہمدردی کے دوبول کے لیے بھی ترس گئی ،یہاں
پر مجھے اپنے وقت کے بہت بڑے محدث امام ذہبیؒ کا وہ سنہری قول یاد آجاتا ہے
کہ سب سے مظلوم شخص وہ ہے جس کے مرنے کے بعد اس کے خلاف تبصرہ کیا جائے
کیونکہ وہ اپنا دفاع کرنے سے عاجز ہوتا ہے آج جب بھی سقوط ڈھاکہ کا وہ دن
آتا ہے تو ملک بھر کے اخبارات جنرل اے کے نیازی کو رگید رہے ہوتے ہیں تو
مجھے دکھ سا ہونے لگتا ہے کہ اس وقت کے امریکی نمک خواروں نے تو ایک سازش
کے تحت جنرل نیازی کے جوانوں کو غیر مسلح کر کے ایک جنگ میں جھونک دیا تھا
تاکہ اس کی ناکامی کاسارا سہرا جنرل نیازی کے سر پر سجے ، جنرل نیازی
مرحومؒ آخری ایام زیست میں میانوالی کے بازاروں میں جب بھی لوگوں سے ملتے
تو ان کی آنکھوں سے آنسوﺅں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا، ان کی
کہانی بہت طویل ہے جسے میں پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں ۔ اسی جنگ
میں سپاہی مقبول حسین جیسے غازیوں کی لازوال قربانیاں بھلا کہاں بھلانے کے
قابل ہیں؟پھرچلتے چلتے 1998ءکا سال آجاتا ہے جب کارگل کے محاذ جنگ پر پاک
فوج کے جوانوں نے دشمن کے خلاف چومکھی جنگ لڑی اور میدان کارزار میں اپنی
استقامت ، بہادری اور جرات کے انمٹ نقوش چھوڑے ، کرنل شیر خان شہید ، کیپٹن
اصغر بلوچ شہید اور حوالدار لالک جان جیسے سپوت روز روز پیدا نہیں ہوا کرتے
۔ پاک فوج کی کامیابیوں ، کامرانیوں کا احاطہ کرنا آسان کام نہیں ،2005ءکے
زلزلے اور حالیہ تباہ کن سیلاب میں ہماری آرمی نے حالات کو سدھارنے میں جو
رول ادا کیا وہ بھی ہمارے سامنے ہے ۔ جہاں تک ڈرونز حملو ں کا ایشو ہے تو
یہ سارا کیا دھرا بھی انہی جمہوریت پسندوں کا ہے ، پاک فوج کے ایر ڈیفنس
سسٹم اور پاک فضائیہ تو بار ہا وضاحت کر چکے ہیں کہ حکمرانوں کی اجازت کی
دیر ہے پھر دیکھیں ڈرونز طیارے کیسے زمین پر آتے ہیں۔
میرے مطابق ہمیں اس بات پر بھی فوج کا شکر یہ ادا کرنا چاہیے کہ پاک فوج کو
جب سرحدوں نے پکارا تو اس نے جانوں کے نذرانے پیش کر کے دشمن کے عزائم خاک
میں ملائے اور جب اندرونی طو ر پر ملک کو خطرات لاحق ہوئے اور سیاسی
جماعتوں اور ان کے لیڈروں نے آپس کی کھینچا تانی میں ملت کا شیرازہ بکھیرنے
کی کوشش کی تو بھی پاک فوج حالات کی نزاکت کے پیش نظر میدا ن عمل میں اتری
اور اقتدار کی زمام کار سنبھال کر ملک و ملت کو ڈوبنے سے بچایا ۔
بہرحال ہمیں اور ہمارے لیڈروں کو اپنے اس انتہائی اہم اور قومی ادارے کی
عزت کرنا ہوگی ، محض کسی ایک فوجی آمر کی مخالفت کی رومیں بہہ کر اور وطن
دشمنوں قوتوں کے پروپیگنڈہ میں آکر یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایک پورے ادارے
کو ہی بدنام کر دیا جائے اور ادارہ بھی ایسا کہ جس کی مضبوطی اور استحکام
سے ہی اس ملک کا استحکام وابستہ ہے ، اس ملک کی فوج اندرو نی و بیرونی طور
پر اس دھرتی کی حفاظت اپنے خون پسینے سے کر رہی ہے ، فوج نے اس ملک کی
بقاءکی خاطر بڑی بھاری قیمت چکائی ہے ، زمانہ امن ہو یا جنگ ہمیں ہر حال
میں اپنے اس ادارے کو عزت بخشنا ہوگی کیونکہ جب پوری قوم خواب خرگوش کے مزے
لے رہی ہوتی ہے تو دھرتی کے یہ بیٹے سر حدو ں پر جاگ رہے ہوتے ہیں ، گر ہم
نے یہی روش اپنائے رکھی اور ہر خرابی کا موجب فوج کو گردانتے رہے تو اس وطن
کی بنیادیں ہل کر رہ جائیں گی اور اس کی سلامتی خطرے میں پڑجائے گی۔ |