وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے اپنی
غیرجانبداری ثابت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو دکھی
نہیں شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے،ادارے اپنی غیر جانبداری اپنے اقدامات سے
ظاہر کرتے ہیں پریس ریلیز سے نہیں، الیکشن کمیشن کی وزیراعظم کے خلاف پریس
ریلیز اچھی نہیں لگی،وزیراعظم کے بیان پر آئینی ادارے کی جانب سے پریس
ریلیز جاری کرنا غیرمناسب ہے،پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے ہمارے کلچر کو پیسے
کا کلچر بنا دیا، کرپشن کا اور پیسے کا استعمال پوری سوسائٹی میں
پھیلایاگیاپی ٹی آئی کی خاتون امیدوار کو پارٹی سیٹوں کے مطابق ووٹ ملے مگر
حفیظ شیخ کو نہیں ملے کرپشن کے لیے یہی ثبوت کافی ہیں مگر کیا کیا جائے
یہاں پر تو کروڑوں روپے کے لین دین کی ویڈیو بھی سامنے آئی مگر کچھ نہیں
ہوا سینٹ الیکشن سے قبل حکومت کی مکمل تیاری تھی نہ کہ انتخابات کے حوالے
سے کوئی زبانی جمع خرچ کیا تھا حکومت نے ایک آئینی مسئلہ اٹھایا تھا اور
صاف شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ انتخاب جمہوریت کی بنیاد ہوتی
ہے اور جب بنیاد ٹھیک ہو گی تو عمارت بھی ٹھیک ہو گی، جمہوریت اپنی جڑیں
بھی پکڑیں، ایوان اور پارلیمنٹیرینز کا تقدس بھی بحال ہو گا پیپلز پارٹی
اورمسلم لیگ ن نے الیکشن میں پیسے کا استعمال شروع کیا اور دھاندلی کی
بنیاد رکھی کونسلر سے لیکر سینٹ کے الیکشن تک پیسے کا کلچر بنا دیا گیا،
اخلاقیات کی جگہ لوٹ مار اور کرپشن نے لے لی اور اسی لیے وہ لوگ ایوانوں
میں آئے جنہوں نے عوامی مفاد کی بجائے پیسوں کو زیادہ ترجیح دی اور کرپشن
کو پورے معاشرے میں پھیلا دیا اور یہ اعزاز دو خاص پارٹیاں پیپلز پارٹی
اورن لیگ کو جاتا ہے جنہوں نے ملک کی اخلاقیات کو ایسا نقصان پہنچایا کہ
جمہوری اقدار معیشت اور اداروں کو مفلوج بنادیاگیا۔ 2015اور2018میں عمران
خان نے ایسا اقدام اٹھایا کہ اپنے لوگوں کو پارٹی سے نکالا، لیکن بدقسمتی
سے ابھی تک عمران خان کے اس اقدام پر کسی اور پارٹی نے پہلے عمل کیا اور نہ
اب تک کررہے ہیں، اور یہ سب کچھ دوسری پارٹیوں نے اس لئے نہیں کیا کیونکہ
انہیں معلوم ہے کہ سیاست کی بنیادہی پیسہ ہے اور پیسہ ان کے پاس وافر ہے
یہی وجہ تھی کہ عمران خان انتخابات میں شفافیت کیلئے صدارتی آرڈیننس لائے،
سپریم کورٹ سے رائے طلب کی لیکن یہ شفافیت اپوزیشن جماعتوں کے مفاد میں
نہیں تھی کیونکہ وہ سبھی تو پیسے کی سیاست جاری رکھنا چاہتے تھے ، اگر
عمران خان کی رائے سے اتفاق کیا جاتا توسینٹ کے حالیہ انتخابات صاف شفاف
ہوتے مگر کیا کیا جائے یہاں پر تو اپوزیشن کی ترجیحات مفادات اور اقتدار کا
حصول ہے، اقتدار سے یہ کاروبار کو عروج دیتے ہیں پی ڈی ایم میں شامل
11جماعتوں اور عمران خان کے درمیان جنگ اس بات کی ہے کہ ایک طرف ذاتی
مفادات ہیں اور دوسری طرف عوام و ملک کے مفادات ہیں اگر غور کیا جائے تو
واضح نظر آجاتا ہے کہ سینیٹ الیکشن کے حوالے سے حکومت کاجو بیانیہ تھا وہ
سینیٹ الیکشن کے بعد کافی واضح ہو گیا ہے، سب کو پتہ چل گیا ہے کہ کون کدھر
کھڑا ہے گذشتہ روز وزیراعظم نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ سینیٹ الیکشن کو
شفاف بنانے کی ذمہ داری پوری نہیں کی گئی، ہارس ٹریڈنگ نہیں رک سکی اور اس
بات پر الیکشن کمیشن سمیت کسی کو بھی دکھی ہونے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ اس
حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے الیکشن کمیشن اور حکومت کو ایسا میکنزم
بنانے کی ضرورت ہے کہ دھاندلی رک سکے وفاقی وزیر سائنس اینڈٹیکنالوجی فواد
چوہدری کا ایک جملہ بہت اہم ہے جو انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران
کہاالیکشن کمیشن کے ریٹرننگ آفیسر جب قائد حزب اختلاف آئے تو کھڑے ہو کر
استقبال کریں چلیں کوئی بات نہیں اس میں حیرانگی کی لیکن حیرانگی کی بات تو
یہ ہے کہ جب الیکشن کمیشن کے پاس یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی خرہدوفروخت کی
ویڈیو موجود ہو جس میں پیسے دینے کی باتیں ہو رہی ہیں سارے شواہد سامنے ہوں
ہو اوریہی تو دھاندلی کا ثبوت ہے مگر الیکشن کمیشن نے خاموشی اختیار کیے
رکھی اور خاموشی نیم رضا مندی ہوتی ہے الیکشن کمیشن طاقتور ادارہ ہے بظاہر
تو سپریم کورٹ کے ڈائریکشن کی بھی پرواہ نہیں کی، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے
میں کہا تھا کہ سیاسی پارٹیوں کے پاس اختیار نہیں ہے کہ وہ دیکھے لیکن
الیکشن کمیشن کو اختیار ہے کہ وہ دیکھ سکے۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہی
کرپشن کو بند کرنے کا راستہ ہے -چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے پہلے الیکشن
کمیشن اس بارے فیصلہ کرے کہ الیکشن کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے اراکین کی
خریدوفروخت سمیت بیلٹ پیپر پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ الیکشن کمیشن
پر مزید اعتراضات نہ لگ سکیں وزیراعظم سمیت وفاقی وزراء کا کچھ اسی طرح کا
شکوہ تھا جسکے بعد الیکشن کمیشن نے جواب شکوہ جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ
ہم کسی کی خوشنودی کی خاطر آئین اورقانون کونظر انداز کر سکتے ہیں اور نہ
ہی ترمیم کر سکتے ہیں۔اگر کسی کوالیکشن کمیشن کے احکامات، فیصلوں پر اعتراض
ہے تو وہ آئینی راستہ اختیار کریں اور ہمیں آزادانہ طور پر کام کرنے دیں ہر
سیاسی جماعت اور شخص میں شکست تسلیم کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے اگر کہیں
اختلاف ہے تو شواہد کے ساتھ آ کر بات کریں اور ہمیں کام کرنے دیں ملکی
اداروں پر کیچڑ نہ اچھالیں ۔یہ تھا جواب شکوہ جس کے بعد اپوزیشن بھی میدان
میں کود پڑی ہے جنکی کوشش ہوگی کہ جب وزیراعظم ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں
تو جو انکے خریدے ہوئے اراکین ہیں وہ کھل کر سامنے آجائیں وزیراعظم ناکام
ہوں اسمبلیاں تحلیل ہوں اور پھر پی ڈی ایم نے جن منافقین سے جو ڈیل کی ہوئی
ہے وہ مکمل ہوسکے کسی کو ن لیگ ٹکٹ دیگی تو کسی کو پیپلز پارٹی اپنا
امیدوار بنا لے گی پارٹی ٹکٹوں کے علاوہ کروڑوں روپے الگ سے ملیں گے یہ
فیصلہ اب آنے والے وقت میں ہوجائیگا۔
|