جنگل کی رانی چترا واگھ نے جنگل کے وزیر سنجئے راٹھوڑ کو پھاڑ کھایا

سرکار دربار میں پہلے بادشاہ اور ان کے درباری ہواکرتے تھے آج کل وزراء اور ارکان ایوان ہوتے ہیں۔ سنجئے راٹھوڑ اگرمہاراشٹر میں جنگل کے راجہ تھے تو چترا واگھ جنگل کی رانی نکلیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ راجہ رانی کی اس کہانی میں پوجا چوہان کون ہے؟ پوجا بیچاری تو جنگل کی وہ ہرن ہے جس کا شکار شیرنی کرتی ہے اور شیر کے ساتھ شیئر کرکے دونوں اس کو چٹ کرجاتے ہیں۔یہی وجہ ہے پوجا کے پسماندگان دہائی دے رہے ہیں کہ خدارا ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دو ۔ ہم پر سیاست نہ کروورنہ ہم سب خودکشی کرلیں گے۔ سنجئے راٹھوڑ پر پوجا چوہان کے قتل یا کم ازکم اسے خودکشی پر مجبور کرنے کا الزام ہے یہی وجہ ہے کہ انہیں بعد از خرابیٔ بسیار استعفیٰ دینا پڑا ۔

یہ کام اگر پوجا کی موت کے فوراً بعد ہوجاتا توادھو ٹھاسرکار کی اس قدر بے عزتی نہیں ہوتی بلکہ لوگ اس کی غیرجانبداری کو سراہتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ تو جب بی جے پی کی رکن اسمبلی چترا واگھ نے شور شرابہ شروع کیا تو دوہفتوں تک یہ وزیر روپوش ہوگیا ۔ کسی سیاستداں کا اس طرح چھپ کر بیٹھ جانا خود چور کی داڑھی میں تنکہ کے مترادف ہے۔ اس کے بعد ۱۶ گاڑیوں کے قافلہ میں اپنے دس ہزار سے زیادہ حامیوں کے ساتھ پوہرادیوی کے مندر میں درشن لینے کہ بعد یہ اعلان کرنا کہ ان کا سیاسی کیرئیر برباد کرنے کے لیے سازش کی جارہی ہے بذات خود ایک سیاسی چال تھی ۔ اس معاملے میں مہا وکاس اگھاڑی کی سرکار سے یکے بعد دیگرے کئی غلطیاں سرزد ہوئیں ۔ اول تو فوراً تفتیش کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا چاہیے تھا اور اگر سنجئے راٹھوڑ کے خلاف شواہد تھے تو انہیں برخواست کردینا چاہیے تھا ۔ ایسا کرنے سے ادھو ٹھاکرے کی عزت کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ۔
ادھو سرکار کے پس و پیش میں گرفتار رہنے کے سبب حزب اختلاف کو اسے بدنام کرنے کا نادر موقع ہاتھ آگیا اور اس نے خوب فائدہ اٹھا یا ۔ اس بدنامی کے لیے صوبائی حکومت خود قصوروار ہے۔ سنجئے راٹھوڑ کو اپنی روپوشی سے نکلتے وقت مندر میں طاقت کے مظاہرے سے روکنے کی کئی معقول وجوہات ہیں مثلاً وہ ایک خالص سیاسی تماشہ تھا دوسرے ایک ایسے علاقہ میں کھیلا جارہا تھا جہاں کورونا کےباعث سرکارنے عوام کے جمع ہونے پر سخت پابندیاں عائد کررکھی ہیں ۔ ایسے میں راٹھوڑ کا اتنے بڑے مجمع کے ساتھ وہاں جانا اور اس کے قافلے میں شیوسینا کے دیگر رہنماوں کی شمولیت قابل مذمت تھی ۔ اس حرکت کے لیے نامعلوم لوگوں کے بجائے سنجئے راٹھوڑ کے خلاف مقدمہ درج کرکےاور اس کے بہانے انہیں برخواست کردیا جاتا تو حکومت کو راہِ فرار مل جاتی ۔ ایسا کرکے حکومت اپنی ساکھ بچا سکتی تھی لیکن اسے گنوا دیاگیاجبکہ مندر کے پجاری سمیت ۱۸ لوگ کورونا سے متاثر بھی پائے گئے تھے ۔

اس دوران سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فردنویس اور مہاراشٹر بی جے پی کے صدر چندرکانٹ پاٹل نے اعلان کردیا کہ جب تک راٹھوڑ کو کابینی وزارت کے عہدے سے نہیں ہٹایا جاتا تب تک اسمبلی کے بجٹ سیشن کی کاروائی نہیں چلنے دیں گے۔ یہ جائز مطالبہ تھا لیکن اس کے ساتھ بی جے پی نےپوجا چوہان خودکشی معاملے میں سڑک پر اتر کر احتجاج شروع کردیا اور اپنی رکن اسمبلی چترا واگھ کو راٹھوڑ کے پیچھے لگا دیا۔ وہ پونے شہر کے الگ الگ پولس تھانوں کے باہر مظاہرے کرنے لگیں تاکہ وزیر موصوف کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاسکے ۔ بی جے پی کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی اور محکمہ جنگلات کے کابینی وزیر سنجے راٹھوڑ کو آخر کار اسمبلی اجلاس سے قبل اپنا استعفیٰ دینا ہی پڑا۔ آگاڑھی سرکار کے خلاف یہ بی جے پی کی پہلی کامیابی ہے۔

پوجا چوہان سے متعلق یہ بات ذرائع ابلاغ میں آچکی ہے کہ 8 فروری کو چھت سے کود کر خود کشی سے ایک روز قبل راٹھوڑ کے حلقۂ انتخاب ایوت محل کے ایک سرکاری اسپتال میں اس کا اسقاط حمل کیا گیا تھا۔ اس کی گواہ آڈیو کلپس سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہیں۔ ایک کلپ میں کیس کو ختم کرنے کی بات کر نے والے کا نام سنجئے راٹھوڑبتایا جارہا ہے۔ اس کے باوجود یہدلیل پیش کرنا قابلِ مذمت ہےکہ اگر این سی پی کے کابینی وزیر دھننجئے منڈے کا عصمت دری کے الزام میں بال بیکا نہیں ہوتا تو راٹھوڑ کو بھی بچالینا چاہیے ۔ سچ تو یہ منڈے کو بھی قرار واقعی سزا ملنی چاہیے اور راٹھوڑ کا معاملہ چونکہ موت کے سبب زیادہ سنگین ہے اس لیے انہیں بھی بخشا نہیں جانا چاہیے۔ اگر وہ مجرم ہیں تو انہیں بھی قرار واقعی سزا ہونی چاہیے،استعفیٰ کافی نہیں ہے ۔

اس معاملے میں اگر ادھوسرکار مظلوم متوفیہ کی حمایت میں اپنے وزیر پر سخت کارروائی کرتی تو اس کی عزت میں اضافہ ہوتا ۔اس کے برعکس وہ اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوئی ذلت و رسوائی سے دوچار ہے ۔ عام طور پر جمہوریت کو عدل و انصاف کی ضمانت سمجھا جاتا ہے لیکن اس نظام میں کسی کے خلاف کارروائی کرنے سے قبل اس کا سماجی رتبہ اور متوقع سیاسی نقصان کا دیکھا جاتا ہے اور یہی شئے فوری اور سخت کارروائی کے لیے سدِ راہ بن جاتی ہے۔ اس بار بنجارہ سماج کی ناراضگی کا خوف حکومت کے پیروں کی زنجیر بن گیا ۔ فی زمانہ مختلف طبقات میں پائی جانے والی عصبیت کا یہ عالم ہے کہ ہر گروہ اپنے مجرم کو سزا دلانے کے بجائے بچانا چاہتا ہے اسی لیے عدل و قسط کا خون بہہ جاتا ہے۔ سنجے راٹھوڑ اپنے سماج کے قدآور رہنما ہیں اور چار مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوئےہیں۔ 2019 میں انہیں محکمہ جنگلات کا کابینی وزیر مقرر کیا گیا اور اب ووٹ کے کھسک جانے کےاندیشے نے شیوسینا کو ان کی حمایت پر مجبور کردیاہے۔ یہ بیماری تمام ہی سیاسی جماعتوں میں عام ہوچکی ہے کہ وہ ظالم و مظلوم کی تفریق بھلا کر اپنے آدمی کی حمایت کرتے ہیں ۔

فی زمانہ خواتین میں تعلیمی بیداری کے باوجودیہ منفی رحجان ان پر ہونے والے مظالم کی تعدادمیں اضافہ کی ایک اہم وجہ بنا ہوا ہے۔ سیاسی رہنما اپنی طاقت کے نشے میں خواتین کا استحصال کرتے ہیں۔ ان کے سرپرست انہیں سزا دلوانے کے بجائے بچانے کی سعی کرتے ہیں ۔ ان کے حواری عصبیت کی عینک لگا کر حمایت کرتے ہیں ۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ استعفیٰ وغیرہ لے کرمعاملہ رفع دفع کردیا جاتا ہے ۔ کلدیپ سینگر کی مانند کسی سزا ہوتی بھی ہے تو پھانسی کے بجائے عمرقید دے دی جاتی اور جیل کو ان کے لیے عیش گاہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس کو دیکھ کر سیاسی کارکنان بھی اپنے پیشواوں سے حمایت کی امید میں اسی طرح کے مظالم کر گزرتے ہیں۔ اس طرح جب کوئی برائی معاشرے میں عام ہوجاتی ہے تو عوام کے دل سے اس کی کراہت و ڈر نکل جاتا ہے۔ آج کل یہی ہورہا ہے اور اس کے سبب نام نہاد ترقی یافتہ معاشرہ خواتین کے لیے جہنم زار بنتا جارہا ہے۔ علامہ اقبال کی پیشنگوئی سچ ثابت ہورہی ہے؎
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449617 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.