ملکی تاریخ کا اگر بغور مطالعہ کیا جاۓ تو فقط 1970 کے
عام انتخابات کے علاوہ تمام انتخابات کے نتائج کو اپوزیشن نے مسترد کیا،
اکثر و بیشتر جیتنے والی جماعت خود بھی دھاندلی کا الزام لگاتی رہی ہے۔ اگر
گزشتہ دہائی کی بات کی جاۓ تو 2002 کے عام انتخابات میں جیتنے والی جماعت
کے علاوہ ن لیگ و پیپلزپارٹی نے دھاندلی کا الزام لگایا مگر پھر ہم نے
دیکھا کہ کیسے ن لیگ کے عہدیداران نے مختلف وزارتوں کے مزے بھی لیے۔ اسی
طرح 2008 کے انتخابات کا اگر جائزہ لیا جاۓ تو میدان اس قدر صاف تھا کہ
تحریک انصاف نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور دوسری طرف ن لیگ کو پاکستان
پیپلزپارٹی حکومت راس نہ آئ اور یوسف رضا گیلانی سے لیکر راجہ پرویز اشرف
کے خلاف تحریکیں چلاائیں گئیں اور آج یہی سب اکھٹے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح
2013 کے انتخابات کی بات کی جاۓ تو ان انتخابات جیتنے والی جماعت سے لے کر
ہارنے والی جماعت بھی دھاندلی کے الزامات لگا رہی تھی۔2013 کے انتخابات کے
نتائج کے بعد چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اس وقت کی حکومت کو چار
حلقے کھولنے کے لیے کہا مگر حکومتی ضد کی وجہ سے بات اس حد تک بڑھی کہ 2014
میں عمران خان صاحب کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنا پڑا اور 126 دن
کے دھرنے کے بعد جوڈیشل کمیشن بنادیا گیا۔ بہر حال پانامہ لیکس کے بعد
عمران خان صاحب سپریم کورٹ میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف کیس
لے گئے۔ سماعتوں اور جے۔آئ۔ٹی رپورٹ کے بعد نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا
فیصلہ ملک میں ایک نیا سیاسی رخ لے کر آیا۔ پھر نوازشریف کو لاہور مارچ و
مجھے کیوں نکالا کے راگ الاپتے ہوے دیکھا گیا اور آج یہ نواز شریف ملکی
سالمیت کے اہم اداروں کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں اور ملک دشمنوں کے خوش
کرنے کے ایجنڈے پر ہیں۔ تحریک انصاف و عمران خان یہ جدوجہد چند گھنٹوں،
ہفتوں، مہینوں پر نہیں 25 سال پر محیط ہے جو کہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
ایک ایسا رہنما جو ملک کے نظام سیاست و انتخاب کو بدلنے کے لیے مسلسل میدان
عمل میں ہے اور آج تک کسی کے آگے جھکا ہی نہیں ہے۔
گویا پاکستانی سیاست و سیاستی نظام میں غریب، متوسط طبقہ و پڑھے لکھے
نوجوانوں کا منتخب ہوکر اسمبلیوں میں آنا نا ممکن ہے اور عمران خان صاحب
اسی نظام کو رائج کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ایک طرف اکیلا عمران خان اس نظام
کے خلاف لڑرہا ہے تو دوسری جانب اپنی کرپشن بچانے اور این۔آر۔اؤ لینے کے
لیے پی۔ڈی۔ایم کی قیادت میدان میں ہے۔ نواز شریف کی حکومت میں سانحہ ماڈل
ٹاؤن رونما ہوا جس میں 14 شہری شہید جبکہ 100 سے زائد زخمی ہوے مگر تب
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے لے کر وزیراعظم نواز شریف تک مستعفی نہیں
ہوے تھے اور نا ہی فری ٹرائل ہونے دیا گیا تھا حتی کہ آج تک مظلومین انصاف
کے منتظر ہیں۔ یہاں تک کہ شہدا کے وارثان قاتلوں کے خلاف مقدمہ تک درج نہیں
کروا پارہے تھی۔ پھر افق نے دیکھا کہ مظلومین نے اسلام آباد لانگ مارچ کیا
اور طویل دھرنے کے بعد ایف۔آئ۔آر کاٹی گئی۔ موجودہ سیاسی صورت حال کے پیش
نظر مجھے حلقہ احباب نے رابطہ کر کہ اپنا تجزیہ دینے کا کہا تھا مگر کچھ
بین الاقوامی کانٹینٹ رائٹنگ و دیگر مصروفیات کی وجہ سے مکمل کالم لکھ نہیں
پارہا تھا تو سوشل میڈیا و دیگر ذرائع پر جڑے حلقہ احباب میرے مختصر تجزیات
پرھتے رہے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی صاحب کا سینیٹر بننا کوئی نئی بات نہیں ہے
اور ایسا ہونا ہی تھا کیونکہ تاریخ پاک میں سینیٹ انتخابات میں ہمیشہ پیسہ
ہی جیتا ہے، جس کے بانی بھی چھانگا مانگا منڈی کے خالق نواز شریف ہیں۔
چھانگا مانگا سینیٹرز منڈی سے شروع ہونے والا خریدوفروخت کا کلچر آج تک
قائم ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت قومی اسمبلی میں اکثریت رکھتے ھوے اپنی
سینیٹ کی سیٹ ہار گئی۔ علی حیدر گیلانی کی ویڈیو لیک ہونا اور پھر یوسف رضا
گیلانی کو زائد ووٹ مل جانا یوسف رضا گیلانی صاحب کو نااہل بھی کرواسکتا
ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان آج قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں گے
اور اگر عمران خان صاحب اعتماد کا ووٹ نا لے سکے تو حکومت آج شام ہی ختم
ھوجاۓ گی۔ پی۔ڈی۔ایم کی اگلی منزل تحریک عدم اعتماد تھی جو وزیراعظم
پاکستان نے خود سیاسی چال بھی چل دی۔ قوم سے خطاب میں وزیراعظم پاکستان کا
یہ کہنا کہ "میں حکومت میں رہوں یا اپوزیشن میں، پارلیمنٹ کا حصہ رہوں یا
نہیں میں انکو این۔آر۔اؤ نہیں دونگا" اور ڈٹ جانا ایک منزل کی جانب تسلسل
نظر آتا ہے۔ سابق صدر۔پرویز مشرف بھی 300 افراد کے آگے جھکے اور انھیں این۔
آر۔اؤ دے بیٹھے مگر دوسری جانب پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں عمران خان
صاحب ایسے لیڈر ہیں جو حکومت کی خاطر اپنے نظریے کو نہیں بیچ رہے۔ آخر کوئی
تو ایسا ہے جو ان سے ٹکر لے رہا ہے اور میدان عمل میں ہے اور مسلسل نظام
میں تبدیلی کے لیے جدوجہد کررہا ہے۔ قوم کو چاہئیے کہ باشعور ھو اور اپنے
حق کی خاطر میدان عمل میں اترے۔ میرے ذاتی تجزیہ کے مطابق وزیراعظم پاکستان
عمران خان صاحب اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ھوجائیں گے اور آئندہ 6 ماہ
تک انکے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا دروازہ بند ھوجاۓ گا۔ اعتماد کا ووٹ
لینے کے بعد حکومت اعتماد کے ووٹ اور سینٹ انتخابات کے نتائج کو بنیاد بنا
کر سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوح کرے گی اور دوسری جانب ویڈیو سکینڈل یوسف
رضا گیلانی صاحب کو نااہل بھی کروا سکتی ہے۔ اسی طرح عمران خان صاحب کی
حکومت ختم ہونے کی صورت میں ملک ایک مرتبہ پھر سیاسی انتشار، لانگ مارچ،
دھرنا و نظام کی تبدیلی کی ایک بڑی تحریک کا شکار ہوگا۔ پی۔ڈی۔ایم کے 26
مارچ لانگ مارچ سے قبل دو ہفتے انتہائی اہم ہیں اور ملکی سیاست کا رخ بھی
بدل سکتا ہے۔ میرے ذاتی تجزیہ کے مطابق عمران خان صاحب کو اپنی ٹرم پوری
کرنی چاہئیے اور اپوزیشن کو ماضی سے سیکھنا چاہئیے ورنہ سیاسی چالیں و پیسہ
ہمیشہ چلتا رہے گا اور ملک کبھی آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ جس حد تک عمران خان
صاحب نے اعتماد کا ووٹ لینے کا دلیرانہ فیصلہ لیا ہے ایسا پاکستانی تاریخ
میں پہلی مرتبہ ہورہا ہے اور جمہوریت کا ایک نیا باب رکھا جارہا ہے۔
صبر کیجیے! انتظار کیجیے!!! اور دیکھیے کیا واقعی ہی تبدیلی آنے والی ہے؟
یا پھر حکومت اپنا سفر جاری رکھے گی۔
|