جب کسی کی زندگی سکون سے گزر رہی ہو تو اس کے لیے کہا
جاتا ہے کہ راوی چین لکھتا ہے( اس محاورے میں اگر مردوں کا ذکر ہو تو یہاں
صرف غیر شادی شدہ مردوں سے ہی مراد لی جائے کیونکہ بیوی شدہ حضرات کے لیئے
تو اس کا حصول جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ ناممکن ہے) ۔۔۔ ویسے ہم تو جب
بھی راوی کی طرف گئے تو ہم نے وہاں بھینسوں اور انسانوں کو صرف گندگی ہی
"لکھتے" دیکھا ہے۔۔۔
بات ہو رہی تھی چین اور سکون کی تو ہم بھی ایک عدد د بیوی کے شوہر ہونے کے
باوجود کسی حد تک سکون والی زندگی گزار رہے تھے کہ فیس بک پر پر ہمارے ہم
عصر عہد قدیم کے دوست مشہور ادیب خلیل جبار سے رابطہ ہوگیا جب ان کے فیس بک
کی احباب کی فہرست دیکھی تو اس میں قبلہ نوشاد عادل کا نام نظر آیا۔۔ نوشاد
عادل کی کہانیاں نونہال۔۔ سرگزشت اور جاسوسی ڈائجسٹ میں پڑھتے رہے ہیں اور
ان کے گرویدہ بھی تھے۔۔۔فیس بک کے ذریعےان سے بھی دوستی ہوگئی۔۔ ایک دو
دفعہ بات چیت ہوئی ایک بہت لاجواب ملاقات بھی ہوئی ان سے باتوں باتوں میں
ہم سے غلطی یہ ہوگئی کہ ہم نے انہیں بتا دیا کہ ہم بھی زمانہ قدیم میں یعنی
آج سے پینتیس سال پہلے تک بچے اور بڑوں کے لیے لکھتے رہے رہے ہیں( ویسے
لکھنا تو مسلسل جاری ہے لیکن اب وہ صرف بیگم صاحبہ کے لیئے چیک تک محدود
ہے)۔۔۔۔
کچھ لوگوں کو گڑے مردے اکھاڑنے کی بڑی عادت ہوتی ہے اور یہ شریر نوشاد عادل
تو لگتا ہے کہ اس معاملے میں پی ایچ ڈی کر بیٹھے ہیں۔۔۔۔اللہ جانے کتنی
شرارتوں میں انہوں نے پی ایچ ڈی کی ہے ۔۔۔ہمارے گڑے ہوئے اور منوں مٹی میں
دبے ہوئے لکھاری کو زمین سے دوبارہ نکالنے کی کوشش کرتے رہے اور کسی حد تک
ہمیں نکالنے میں کامیاب ہو گئے یہی کیا کم تھا کہ محترمہ نسیم جعفری صاحبہ
انہوں نے بھی اس کار شر ( ہمارے حاسدین کے مطابق) میں برابر کا ہاتھ بٹایا
جو رہی سہی کثر باقی تھی وہ اکمل معورف بھائ نے پوری کردی اور ہماری قلمی
بلیلہ کو دھکا لگانے لگے جس کے بعد ہم دوبارہ قلم کو ریگ مال لگانے پر
مجبور کردیئے گئے (اب ہمارا لکھا برداشت کریں اور تمام شکایت مذکورہ بالا
شخصیات سی ہی کریں کہ کمپنی ہی ذمہ دار ہوتی ہے۔۔
پھر یوں ہوا کہ محترمہ تسنیم جعفری اور بھائ حسن اختر کی مہربانی سے سے
ہمارا بھی بحیثیت ادیب انٹرویو ادیب نگر میں پوسٹ کر دیا گیا اب ہم یہ سوچ
رہے ہیں کہ اب وطن عزیز کے دیگر شعبہ جات کی طرح ادب کی بھی اتنی بری حالت
ہوگئی ہے کہ ہم جیسے گرے پڑے ریٹائرڈ خود ساختہ ادیبوں کے بھی انٹرویو پوسٹ
ہو رہے ہیں۔۔۔یہی کیا کم تھا کہ محترمہ تسنیم جعفری نے نہ جانے کیوں
"رائزنگ اسٹار "کا مرتبہ بھی عطا فرمادیا۔۔۔۔
یہ انٹرویو دیگر اہل خانہ کی طرح ہماری چھوٹی دس برس کی صاحبزادی آمنہ عارف
نے بھی پڑھا۔۔۔یہ یاد رہے کہ موصوفہ کی دو عدد کہانیاں شائع ہو چکی
ہیں۔۔مصوری بھی عمدہ کرتی ہیں اور دل بھر کر ہماری طرح منہ پھٹ بھی ہیں۔۔
بقول ہماری اہلیہ کے" آپ پر گئی ہے" ایک تو یہ عقدہ ہمیں کوئ کھول کر
سمجھادے کہ یہ کونسی مورثی سائنس ہے کہ اولاد میں تمام بری عادات باپ اور
اسکے خاندان سے آتی ہیں جبکہ تمام اچھی عادات ماں اور اسکے خاندان کے طفیل
ہوتی ہیں۔۔۔بہر حال ہماری صاحب زادی نے انٹرویو پڑھتے ہوئے جب ہمارے نام کے
ساتھ "رائزنگ اسٹار" کا دم چھلا دیکھا تو بے اختیار ہنستے ہوئے فرمانے لگیں
" رائزنگ اسٹار"۔۔۔اور پاپا آپ۔۔۔۔؟۔۔۔شاید آنٹی(تسنیم جعفری صاحبہ) آپ کو
جانتی وانتی نہیں ہیں۔۔آپ کوئ لڑکے تھوڑی ہیں جو رائزنگ اسٹار
کہلائیں۔۔۔۔ہم بھی سوچ میں پڑ گئے کہ واقعی ایسا کیوں ہے ۔۔ہمارا تو کوئ
ایسا کارنامہ نہیں ہے کہ جس پر کچھ ناز کرسکیں ۔۔۔۔پھر خیال آیا کہ بہنوں
کی تو سرشت میں شامل ہے کہ بھائیوں پر واری جائیں۔۔سب بہنیں اپنے بھائیوں
کو شہزادہ ہی سمجھتی ہیں چاہے بھائ صاحب اپنی رنگت شکل وصورت اور ڈیل ڈول
کے مطابق "زولو قبیلے" کے شہزادے ہی کیوں نہ ہوں۔۔آخر وہ بھی تو شہزادہ ہی
ہوتا ہے نا۔۔( ویسے ہمارے مشاہدے کے مطابق ایسے زولو قبیلے کے شہزادے
محلے،خاندان اور یونیورسٹی کی سب سے حسین پری کو لے اڑتے ہیں)۔۔
اب جب ہم زبردستی یہاں تک گھسیٹ کر لائے گئے ہیں تو کلمہ حق بھی ادا کردیں
کہ پہلے ہمارا فیس بک پر زیادہ وقت کرکٹ اور پاکستانی موسیقی کے گروپ میں
گزرتا تھا اب ہم صرف ادبی گروپوں کے ہی ہوگئے ہیں ۔۔یوں سمجھیئے کہ مجسم
بدتمیز ہوتے ہوئے بھی "با ادب " ہو چکے ہیں بلکہ اس پیرانہ سالی میں بھی
خاصی تعداد میں عدد کہانیاں تخلیق کر چکے ہیں (خبردار کوئ بھی پیرانہ سالی
اور تخلیق کو کسی اور پیراہے میں نہ سوچے )۔۔۔ہماری پرانی بلیلہ کو تیل
پانی دینے میں عزیزم ذوالفقار بخاری کا بھی ہاتھ جو ہماری ہر فضول تحریر
کہیں نہ کہیں لگوادیتے ہیں۔ بہرحال اب ہم ادبی سنگت میں بہت خوش ہیں۔۔یعنی
پہنچی وہیں پہ خاک ۔۔۔والا معاملہ ہے ۔۔یا دوست چاہیں تو پنجابی میں۔۔"جتھے
دی۔۔۔۔۔والا حال سمجھ لیں۔۔۔
|