ستاروں سے آگے

منفی ادبی رویوں پر ایک تحریر

ستاروں سے آگے
———————
جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی ادبی تحریکیں مغرب سے مستعار شدہ ہیں ہمیشہ کی طرح مشرق کی غلامانہ سوچ نے انہیں اپنایا اور اردو تنقید میں یہ غالب رجحانات بن گئیں۔
اردو ادب شاعری اور افسانہ نگاری میں اس کی مثالیں بھی نظر آنے لگی -مگر یہاں ان ادبی تحریکوں پر بحث میرا مقصود نہیں ہے یہاں ادیبوں اور لکھاریوں کے رویے موضوع بحث ہیں ۔
کیا ہمارے ادیب اور شاعر اپنی روش میں بھی جدت لا پاۓ یا وہی کھڑے ہیں -

آج دنیا کے تیزی سے بدلتے حالات ،عالمی وبا،اقدار کاتبدیل ہوتا معاشرتی ڈھانچہ ،نئی نسل کی باغیانہ سوچ کیا “مابعد جدیدیت “ سے آگے “بعد مابعد جدیدیت “کی طرف جانے کا اشارہ نہیں ہے؟ اور ہم کہاں کھڑے ہیں ؟
ہم ادب سے وابستہ لوگ تو وہی کھڑے ہیں جہاں تھے -وہی ادبی کانفرینسیں ،وہی مشاعرے وہی تقریبات ۔وہی انداز
سب بدستور فرسودگی کا شکار ہیں ۔
ادبی تقریبات سے خطاب کرنے والے مقررین کے وہی گھسے پٹے تنقیدی خیالات ہیں ۔سامعین میں سے اکثریت اردوادب کے طالب علموں پر مشتمل ہوتی ہے جو تنقیدی مباحث سے آشنا ہوتے ہیں ان پر اپنی لیاقت کا رعب جھاڑنا عقل مندی نہیں ہے ۔ کتاب کی تقریب رونمائی میں کتاب سے متعلق نپی تلے گفتگو کیجئے ۔
شاعرات میں متشاعرات کی اکثریت ہے - جینوئین شاعرات آج بھی کہیں بہت پیچھے ہیں -کیونکہ یہ خود تک ان نام نہاد شاعروں کو رسائی نہیں دیتیں جو لامحدود رسائی کے طلب گار ہیں ۔متاشاعرات کو شعری مجموعہ لکھ کے دینے کے بعد پھر تقریبات بھی سجائی جاتی ہیں ۔
کتاب کی تقریب رونمائی میں شامل نامور شاعر متشاعرہ کی اصلیت سے واقفیت ہونے کے باوجود تعریفوں کے پل باندھتے ہیں ۔ان پڑھ خاتون کو شاعرہ بنا کے پیش کیا جاتا ہے جو کہ ایک جملہ نثر لکھنے پر بھی قادر نہیں ہے ۔
پھر مشاعروں میں ان متشاعرات کے نام شامل کیے جاتے ہیں ۔ایسی متشاعرات کی مثال سمندری جھاگ کی ہے -
سفارش کا ناسور ادب کی جڑوں میں بیٹھا ہے ۔دنیا مابعد جدیدیت سے آگے دیکھ رہی ہے اور ہمارے شاعر ابھی تک عورت کے نشیب فراز میں الجھے ہیں ۔صنم کی دراز زلفوں میں جکڑے ہیں ۔
فرسودہ معاشرہ فرسودہ سوچ صرف یہاں تک محدود نہیں ہے جامعات بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں ہیں اور حکومتی ادارے بھی جو کہ ادب کے نام پر بناۓ گئے ۔
بھٹو صاحب نے شاعروں اور ادیبوں کے لیے مختص کیے ۔وہاں بھی یہ ہی صورت حال ہے ۔صدر نشین کے بدلنے سے حالات نہیں بدلتے ۔صدر نشین تو لسٹ پر دستخط کرتے ہیں ۔جو مشاعرے کے لیے متعلقہ سرکاری ملازم ان کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ لسٹ بنانے والے بدلیں تو حالات بدلیں ۔تعلق ،سفارش ،دوستی نبھانے کی روایت لسٹ بنانے والوں کی سرشت میں ہے ۔ادب سے زیادہ انہیں ادیب محبوب ہیں ۔محبوب سب کے محبوب ہوں تو بات بنے لیکن یہ صرف اپنے مفادات کے محبوب ہیں ۔
اس پر اکتفا نہیں ہے اب ایوارڈ بھی سفارشی لوگوں کو دیے جائیں گے ۔
ہمیشہ سے اردو ادب کا یہ چلن رہا اور انشااللہ رہے گا ۔دنیا کہیں سے کہیں پہنچ جاۓ -گروہ بندی کا شکار یہ ادیب اپنے پسندیدہ اور قریبی دوستوں کی نگارشات کو
ادب نمبر، معاصر ادب ،جدید ادب ، جدید افسانہ ، معاصر افسانہ ، جدید نظم کے نام سے چھاپیں گے ۔ انہیں ان جینوئین شاعروں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے جو کہ غربت کے باعث اپنا دیوان نہیں چھاپ سکتے ۔
ان ادب کے جانثاروں میں سے زیادہ تر کے پاس کوئی ادب کی ڈگری نہیں ہے ۔نام نہاد نقادوں کے پاس ایم اے اردو تک کی ڈگری نہیں ہے اور تنقید کرنے چلے ہیں یہ شاعر نہیں ہیں اور شاعری کی کتابوں پر تنقید کرتے ہیں ۔شاعروں کی کتابوں میں ان کے تعارفی مضامین بھی شامل ہیں ۔
ہر لکھاری کتھارسس کے لیے لکھتا ہے لیکن ایسی صورت حال اسے ڈیپریشن میں مبتلا کرتی ہے ۔
آج دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے ۔ہر آنیوالا لمحہ جدت کی طرف ایک اور قدم ہے ۔معاشرے کی سوچ میں تبدیلی کے ساتھ لکھاری کا چلنا بے حد ضروری ہے ۔
اپنے مفادات سے بالاتر ہو کے مثبت سوچ کو فروغ دینا ایک لکھاری کا فرض ہے ۔
سماجی ،مذہبی، معاشرتی ، سیاسی اور طبقاتی کشمکش اور بے روزگاری کے مسائل ہمارے معاشرے کو گھیرے ہوۓ ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں بیان کیا جاۓ۔
لکھنا بغاوت ہے لیکن باغی بننے کے لیے لکھاری ہونا بھی لازمی ہے ۔جس معاشرے میں لہو لگا کے شہیدوں میں شامل ہونے کی روایت ہو وہاں ایسی امید کہاں ۔
نیا ادب تو وجود میں آرہا ہے لیکن ادبی رویوں میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔
ستاروں سے آگے کے جہان ڈھونڈنے کے لیے اردو ادب کو ابھی بہت سفر کرنا ہے ۔

Nadia  Umber Lodhi
About the Author: Nadia Umber Lodhi Read More Articles by Nadia Umber Lodhi: 51 Articles with 89135 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.