بھارتی حکومت ایک طرف مقبوضہ جموں و کشمیر میں لاکھوں
ہندو پناہ گزینوں کوڈومیسائل و ریاستی شہریت دے رہی ہے اور دوسری طرف بنگلہ
دیش اور میانمار کے مسلم پناہ گزینوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع
کر دیا گیا ہے۔70سال قبل دو قومی نظریہ کے مطابق تقسیم برصغیر کے دوران
مشرقی اور مغربی پاکستان کے لاکھوں ہندو پناہ گزینوں کو بھارت میں پناہ
دینے کے بجائے غیر قانونی طور پر متنازعہ ریاست کے جموں ، کٹھوعہ، سانبہ،
ریاسی، سچیت گڑھ، آر ایس پورہ سمیت دیگر قصبہ جات میں پناہ دی گئی۔ جموں
شہر کے بخشی نگر علاقے میں لاکھوں ہندؤں کو لا کر بسایا گیا۔اب انہیں ریاست
کے ڈومیسائل جاری کر دیئے ہیں۔بنگالی ہندوؤں سمیت تین ہزار کے قریب والمیکی
، تین سو گورکھا اور دیگر ہندو خاندانوں کومقبوضہ ریاستی کی ڈومیسائل اسناد
جاری کی گئی ہیں۔ والمیکی ہندوؤں کا ایک فرقہ ہے جس کی نسبت رامائن کے
لکھاری مہاریشی والمیکی سے جوڑی گئی ہے۔ رامائین اور مہا بھارت ہندوؤں کی
سنسکرت میں دو جنگی دیومالیائی داستانیں ہیں۔ والمیکیوں کو جموں میں لا کر
بسانا ہندو نظریات کو فروغ دینا ہے۔ بنگالی ہندؤں کو کشمیر کا شہری بنانا
بھی ایسا ہی ہے مگر دوسری طرف بنگلہ دیش اور میانمار کے مسلمانوں کے خلاف
احتجاج منظم کئے گئے ہیں۔ انہیں ریاست بد ر کرنے اور واپس بنگلہ دیش اور
میانمار ڈی پورٹ کرنے کے لئے کریک ڈاؤن جاری ہے۔ سیکڑوں مسلمانوں کو گرفتار
کر لیا گیا ہے۔ درجنوں افراد کو گرفتاری کے بعد لاپتہ کیا گیا ہے۔
مقبوضہ ریاست جس کا ریاستی سٹیٹس ختم کرتے ہوئے اب غیر قانونی طور پر اسے
بھارت کی یونین ٹریٹری کا درجہ دیا گیا ہے، میں مسلمانوں کو امتیازی سلوک
کا شکار بنا دیا گیا ہے۔قابض حکام نے تصدیق کی ہے کہ 168 روہنگیا پناہ
گزینوں کو حراست میں لے کر حراستی مرکز میں منتقل کردیاگیا ہے۔ پولیس کے
مطابق متنازع خطے میں مقیم ہزاروں مہاجرین کی ملک بدری کا عمل شروع کردیا
گیا۔پولیس انسپکٹر جنرل جموں مکیش سنگھ کا کہنا ہے کہ متنازع خطے کے محکمہ
داخلہ کی ہدایت کے بعد جموں کے جنوبی شہر میں رہنے والے روہنگیا پناہ
گزینوں کی شناخت کا عمل شروع ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں میں
تقریباً 5 ہزار روہنگیا مسلمانوں نے مقبوضہ کشمیر میں پناہ لی ہے۔مکیش سنگھ
نے کہا کہ یہ سب غیر قانونی طور پر یہاں رہ رہے ہیں اور ہم نے ان کی شناخت
کا عمل شروع کردیا ہے اور انہیں آخرکار اپنے ملک بھیج دیا جائے گا۔ہفتے کے
روز سے ہی حکام نے سیکڑوں روہنگیا پناہ گزینوں کو جموں کے ایک اسٹیڈیم میں
طلب کیا جہاں ان کی ذاتی تفصیلات اور بائیو میٹرکس لے کر کورونا وائرس کا
ٹیسٹ کیا گیا۔بھارتی افسر نے بتایا کہ جموں شہر کے نواح ہیرا نگرمیں ایک
جیل کو حراستی مرکز میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں کم از کم 168 روہنگیا
مسلمانوں کو منتقل کیا گیا ہے۔ان میں بچے، خواتین اور عمر رسیدہ افراد بھی
شامل ہیں۔ تاہم مہاجرین کو آگاہ نہیں کیا گیا کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے ۔جموں
سمیت کٹھوعہ ضلع میں بھی حراستی مراکز میں روہنگیا مسلمانوں کو پابند سلاسل
کیا گیا ہے۔ان پر غیر ملکیوں کے لئے بنائے گئے قانون فارنرز ایکٹ کو لاگو
کیا گیا ہے۔ فارنرز ایکٹ کی سیکشنe 3(2)اگر روہنگیا کے خلاف لاگو ہو سکتی
ہے ۔ تو پھر ہندوؤں پناہ گزین اس کی زد میں کیوں نہیں آتے۔ روہنگیا کے پاس
کوئی پاسپورٹ بھی نہیں۔ پاسپورٹ ایکٹ بنگالی ہندوؤں کے خلاف حرکت میں کیوں
نہیں لایا جاتا۔ بنگلہ دیش اور بھارت کے دیگر حصوں سے جموں میں غیر قانونی
طور پر لا کر آباد کئے گئے لاکھوں ہندوؤں کو نہ تو غیر ملکی قرار دیا گیا
ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی قانون حرکت میں لایا جا تا ہے۔ انسانی حقوق
کے ادارے خاص طور پر ریاستی ہیومن رائٹس کمیشن بھی اس پر خاموش ہے۔
مسلم اکثریتی مقبوضہ خطے میں جموں ایک ہندو اکثریتی علاقہ بن چکا ہے۔جموں
1947سے قبل مسلم اکثریتی خطہ تھا۔ مگر یہاں مسلمانوں کو پاکستان منتقل کرنے
کی آڑ میں قتل عام کیا گیا۔ تین لاکھ سے زیادہ مسلمان قتل کئے گئے۔ اس کے
بعد لاکھوں ہندوؤں کو لا کر یہاں بسایا گیا۔ اب جموں ہندو اکثریتی خطہ بن
چکا ہے۔ کوئی بھی غیر ریاستی ہندوؤں کے خلاف احتجاج نہیں کرتا ۔ بلکہ انہیں
شہری قرار دیا گیا ہے۔ 70سال کے بعد پہلی بار ان پناہ گزین ہندوؤں نے
بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالے ہیں۔مگرروہنگیا مسلمان عتاب کا شکار بنے
ہیں۔ایک روہنگیا خاتون نے میڈیا کو بتایا کہ ہفتہ کے روز بھارتی حکام اس کے
بیٹے کو لے گئے اور انہیں نہیں معلوم کہ اسے کہاں رکھا ہے۔ایک اندازے کے
مطابق 40 ہزار روہنگیا افراد بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے کچھ حصوں میں پناہ
لے چکے ہیں۔ڈی سی آفس جموں کی سرکاری دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ صرف
جموں میں ڈیڑھ ہزار روہنگیا مسلمان کنبوں کے ساڑھے 6ہزار افراد رہائش پذیر
ہیں ۔ جن کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے پاس 15 ہزار سے کم رجسٹرڈ
ہیں۔بہت سے لوگوں نے جنوبی شہر حیدرآباد اور نئی دہلی سمیت مسلمان آبادی
والے بڑے علاقوں میں رہائش اختیار کی ہے۔کچھ بنگلہ دیش اور میانمار سے متصل
شمال مشرقی بھارت میں پناہ لے چکے ہیں۔بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان کے
پاس ثبوت موجود ہیں کہ روہنگیا میں ایسے انتہا پسند بھی موجود ہیں جو ان کی
سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔یہ سب انتہا پسندی کی آڑ لے کر مسلمانوں کے خلاف
آپریشن کے لئے راہیں ہموار کرنے کی کڑی ہے۔اقوام متحدہ کا انسانی حقوق
کمیشن اور انسانی حقوق کے آزاد ادارے متنازعہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارت
کا مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ کریک ڈاؤن اور سیکڑوں مسلمانوں کو انٹروگیشن
سنٹرز میں قید کرنے کا نوٹس لے اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک بند
کرانے کے لئے اقدامات کرے۔ اگر مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے
کے بھارتی جابرانہ اقدامات کا نوٹس نہ لیا گیا تو یہمودی کے مزید مسلم کش
فسادات کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
|