حکومت کو سینٹ الیکشن میں ہارنے کے بعد جو پریشانی لاحق
تھی ،عمران خان کے اعتماد کا ووٹ لینے سے وقتی طور وہ دور ہو گئی ہے۔مگر اب
بہت غور وفکر کی ضرورت ہے کہ ایسی صورت حال پیش کیوں آئی۔ مگر عمران خان کے
ارد گرد جو ٹیم اس وقت موجود ہے اس میں ایسے لوگ نظر نہیں آتے جو فہم
وفراست پر یقین رکھتے ہوں، جو سوچ سکتے ہوں۔ جو اس بات کی کھوج لگا سکتے
ہوں کہ اس ابتلا کے اصل محرکات کیا ہیں۔ تاریخ پر غور کریں تو ماضی کی ہر
اچھی حکومت میں، سفید بالوں کے حامل ، فہم و فراست سے مالا مال اور عقل اور
شعور کے سر چشمے جیسے لوگ بادشاہ وقت کے دائیں بائیں نظر آتے اور موجود
ہوتے تھے۔ایسے بادشاہوں نے نہ صرف لمبے عرصے تک حکومت کی بلکہ وہ تاریخ میں
ہمیشہ کے لئے امر ہو گئے۔ ویسے لوگ اس حکومت میں دور دور تک نظر نہیں
آتے۔یہاں توایک طرح سے وزیروں اور مشیروں کے نام پر چھچھوروں کی فوج ظفر
موج ہے۔ جو اپنے مفاد میں عمران کو صحیح حالات کی خبر بھی ہونے نہیں
دیتے۔کس کس کی بات کریں، فردوس عاشق اعوان، زلفی بخاری، ندیم بابر، شہزاد
اکبر ،عثمان ڈار،شہباز گوئبلز اور بہت سے دوسرے ا مپورٹڈ اور غیر منتخب
مشیر، سارے کے سارے کسی گوئبلز جیسے ایک ہی استاد کے شاگرد ہیں۔ جو سنجیدگی
اور متانت ان کا خاصہ ہونا چائیے وہ ان میں کہیں نظر نہیں آتی ہے۔ عمران
خان کے بارے سب کہتے ہیں کہ وہ انتہائی ایماندار ہے ۔ اگر یہ واقعی سچ ہے
تو میرے خیال میں کسی وقت چرچل نے ایک تاریخی فقرہ شاید عمران کے بارے ہی
کہا تھا کہ سچائی اتنی قیمتی ہوتی ہے کہ اسے ہر دم جھوٹوں کے باڈی گارڈز کے
پہرے میں رہنا پڑتا ہے۔ مگر میں ایسی ایمانداری پر حیران ہوں کہ جسے وزیر
اعظم ہاؤس کی بھینسیں تو کرپشن کی علامت نظر آتی ہیں مگر اپنے پالے ہوئے یہ
بھینسے نظر نہیں آتے جن کی بے پناہ مراعات اور بے حساب اخراجات سراسر خزانے
پر بھاری بوجھ ہیں۔
جناب خان صاحب غور کریں،جمہوریت میں حکومت کسی ایک فرد کا نام نہیں ہوتی۔
حکومت منتخب افراد کے ایک ایسے گروہ کا نام ہے جن کی جڑیں عوام میں ہوتی
ہیں جو اپنے لیڈر کی سرپرستی میں مل کر عوامی مفاد اور لوگوں کی بھلائی کے
لئے کام کرتے ہیں۔میرے جیسے سب لوگوں کا خیال تھا کہ آپ ایک ایسی حکومت
تشکیل دیں گے جس میں حکمرانی کسی ایک شخص کا حق نہیں ہوگی بلکہ ایک ایسی
ٹیم تیار کی جائے گی کہ جوشخصی کی بجائے آئینی حکمرانی کو فروغ دے
گی۔طبقاتی قانون اور طبقاتی انصاف کا خاتمہ ہوگا۔ آپ کہتے تھے کہ شوکت خانم
ہسپتال کو دیکھیں ۔ ایسا نظام بنا دیا ہے کہ میں نہ بھی ہوں تو ہسپتال چلتا
رہے گا۔مگر حکومتی سطح پر آپ نے کچھ بھی ایسا نہیں کیا۔ طبقاتی نظام مزید
پھل پھول رہا ہے۔پہلے لوگوں کے پاس زرداری کا بت تھا، نواز شریف کا بت تھا۔
آپ نے ان بتوں کو توڑنا تھا مگر آپ کی نا اہلیوں کے سبب وہ بت پرستی آج
بلندیوں کی طرف گامزن ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب لوگوں کے پاس آپ کا بھی بت ہے
جس کی پرستش جاری ہے۔ ایک پارٹی کے طور پر تحریک انصاف کی صورت یہ ہے کہ
اگر آپ کا بت اٹھا دیا جائے تو آپ کے پروردہ غیر ملکی مشیر تو سب بھاگ
جائیں گے اور یہاں کے باقی لیڈروں کی صورت یوں ہے کہ تحریک انصاف کی ٹوکری
میں موجود سارے چوزے کوڑے دان کی زینت ہوں گے۔ آپ نے کبھی کوشش ہی نہیں کی
کہ آپ کے اصل ساتھی ، عوام کے منتخب نمائندے ، آپ کی پارٹی کے کارکن عوام
میں اپنی اور اپنی پارٹی کی جگہ بنا سکیں۔آپ نے فقط اپنے غیر ملکی دوستوں
کو نوازا ہے۔ ایسے دوستوں کو کہ جن کی عوام میں کوئی پذیرائی نہیں جو مشکل
وقت میں زبانی تو بہت کچھ کر سکتے ہیں مگر عملی طور پر صفر ہیں۔
آپ کہتے ہیں کہ آپ کا امیدوار اس لئے ہارا کہ ووٹوں کی خریدوفروخت ہوئی۔ آپ
کو پتہ ہونا چائیے کہ ووٹوں کی خریداری اس لئے ہوئی کہ وہ لوگ ، آپ کی
پارٹی کی منتخب نمائندے،جس عزت اور وقار کے حق دار تھے آپ نے ان سے ویسا
سلوک نہیں کیا۔ آپ نے اپنے غیر ملکی دوستوں کوان پر ترجیح دی ۔ وہ جو ووٹ
لے کر آئے تھے، جو پارٹی کے کارکن تھے ، جنہوں نے بائیس سال تک آپ کے ساتھ
جدوجہد کی تھی ۔ آپ نے ان سے وفا نہ کی ، اب ان سے وفا کی امید کیوں رکھتے
ہیں۔ غیر منتخب مقامی اے ٹی ایم نما لوگ آپ کو عزیز تر رہے۔عوام کے منتخب
نمائندے اور آپ کے کارکن آپ کے رویے کا شکوہ ہی کرتے رہے۔ آخر وہ انسان ہیں
بھیڑ بکریاں تو نہیں کہ آپ کو گلا ہو کہ انہوں نے کھونٹا کھول لیا ہے۔ خان
صاحب سوچیں، دنیا کا اصول ہے کہ اگر آپ لوگوں سے پیار کے متمنی ہیں تو
لوگوں سے پیار کریں۔آپ کو اﷲ نے ایک نیا موقع دیا ہے، اپنے کارکنوں کو عزت
دیں ، ان کی بات سنیں۔آپ کو فرق محسوس ہو گا۔ میرے خیال میں آپ کے نمائندے
کے ہارنے کی وجوہات بہت سادہ ہیں۔ ایک اس کی عوام میں جڑیں نہیں تھیں۔ وہ
سو فیصد پیرا شوٹر تھا۔لوگ ایسے لوگوں کو چاہے وہ آپ کے نزدیک جتنے مرضی
قیمتی ہوں اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ دوسرا آپ کا منتخب نمائندوں سے تجاہل
عارفانہ۔ یہ ٹھیک ہے کہ آپ بہت مصروف ہیں۔ لیکن اس مصروفیت میں ان کے حصے
کا وقت ان کا استحقاق ہے۔ان سے ملیں اور انکے مسائل پر توجہ دیں۔ اپنے
مشیروں اور وزیروں کا منتخب نمائندوں میں سے انتخاب کریں یہ فیصلہ آپ کی
تقویت کا باعث ہو گا۔باقی اگر اس عظیم جھٹکے کے بعد بھی آپ نے غور فکر پر
توجہ نہ دی تو بہت سے نتائج فطری ہوتے ہیں۔ آپ کو اپنی گفتگو کا انداز بھی
تبدیل کرنا ہوگا۔ عوام کے مسائل پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ لوگوں کا پہلا
مسئلہ بھوک اور مہنگائی ہے کرپشن نہیں۔ کرپشن کا خاتمہ اچھی بات ہے مگر آپ
تو اس ملک سے غریب بھوک کے ہتھیار سے ختم کرنے کے درپے ہیں۔تھوڑا غور کریں
کہ عوام کے حقیقی مسائل کیا ہیں جو آپ کی توجہ کے محتاج ہیں۔
|