2014 میں قومی انتخاب جیتنے کے بعد بی جے پی کے سامنے سب
سے بڑا چیلنج2017میں اتر پر دیش کا الیکشن جیتنا تھا۔ وہاں اکھلیش یادو کی
حکومت تھی اور سماجوادی پارٹی کی کارکردگی ٹھیک ٹھاک تھی۔ حکومت کے خلاف
ابھی بیزاری (anti-incumbency) پیدا نہیں ہوئی تھی ۔ اکھلیش نے کانگریس سے
مفاہمت کرکے اپنی پوزیشن مزید مضبوط کرلی تھی اس لیے ان کی حکومت کا اکھاڑ
پھینکنا آسان نہیں تھا ۔ اس کے لیے ماحول سازی ستمبر 2016سے شروع ہوگئی ۔جموں
کشمیر میں اس وقت پی ڈی پی کے ساتھ مل کر بی جے پی حکومت کررہی تھی۔ ایسے
میں 8جولائی 2016 کو نوجوان جنگجو برہان وانی کا انکاونٹر ہوگیا اور اس کے
خلاف پوری وادی کے اندر احتجاج کی زبردست لہر چل پڑی ۔ بی جے پی کے لیے یہ
نہایت مشکل صورتحال تھی کہ مرکز اور صوبے میں اقتدار کے باوجود یہ ہورہا
تھا۔ ایسے میں 18 ستمبر 2016 کو یوری کے فوجی ہیڈ کوارٹر پر دہشت گردانہ
حملہ ہوگیا جس میں جملہ 19فوجی مارے گئے ۔ اس کے بعد ہند پاک تعلقات کشیدہ
ہوگئے ۔ پہلے پی آئی اے کی فلائیٹ بند ہوئیں پھر سارک کانفرنس ملتوی ہوئی
اورگیارہ دن بعد 28 ستمبر 2016 کو ہندوستان نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک
کا دعویٰ کردیا حالانکہ حکومتِ پاکستان نے اس کی تردید کردی ۔
’پاکستان میں گھس کر مارا‘ کا شور شرابہ دراصل اتر پردیش میں انتخابی
کامیابی کی راہ ہموار کردی ۔ بی جے پی کی مقبولیت میں بے شمار اضافہ ہوگیا
اور حزب اختلاف کے لیے اس کی مخالفت کرنا ناممکن ہوگیا ۔ اس کا اثر اس قدر
زیادہ تھا کہ نومبر میں کی جانے والی نوٹ بندی کی حماقت بھی اس پر اثر
انداز نہیں ہوسکی اور اتر پردیش میں بی جے پی نے غیر معمولی کامیابی درج
کرائی۔ 2019 کے انتخاب سے قبل پلوامہ کا سانحہ رونما ہوا اور پھر ایک بار
اسی حکمت عملی کا سہارا لیا گیا ۔ اس نے پھر سے اپنا جادو دکھایا اور قومی
سطح پر بھی بی جے پی کو زبردست کامیابی نصیب ہوگئی ۔ جمہوری نظام میں اس
زندہ طلسمات کو امریکہ برسوں سے استعمال کررہا ہے اور اکثر وبیشتر کامیاب
رہتا ہے۔ ٹرمپ غالباً کورونا کی وباء یا خوش فہمی کے سبب یہ حربہ استعمال
نہیں کرسکے ورنہ بعید نہیں کہ وہ بھی ہارنے سے بچ جاتے۔ ملک کی عوام مودی
سرکار سے اس لیے خوش ہے کہ اس نے گھر میں گھس کر پاکستان کا جواب دیا ۔ اس
لیے وہ اس کو نوٹ بندی ، جی ایس ٹی اور رافیل کی بدعنوانی کے باوجود کامیاب
کردیتی ہے اس لیے کہ ان چیزوں کا غم پاکستان پر حملے کی خوشی سے کم ہے۔
گلوان میں چینی در اندازی کے بعد سرجیکل اسٹرائیک کا بھوت اتر گیا اس لیے
کہ چین کے اندر گھسنا تو دور خود اپنے علاقہ سے اسے واپس بھیجنے کے لیے بھی
دس ماہ میں دس دور کی بات چیت ہوچکی ہے۔ کسانوں سے گفت و شنید بند ہوگئی
مگر چین سے نہیں ۔مستقبل میں بھی آنکھیں لال کرکے دکھانے کا امکان نہیں ہے
کیونکہ 56 انچ کے سینے کی ہوا نکل چکی ہے۔ ایسے میں کسان تحریک کی حمایت سے
اپنے نوجوانوں کو روکنے کے لیے سائیبر اٹیک کا شوشہ چھوڑا گیا ۔ ٹول کٹ کی
کہانی میں اس قدر ہوا بھری گئی کہ اس کے سامنے ایٹم بم بھی بیکار ہوگیا ۔
اس معاملے پہلے تو عالمی شہرت یافتہ ماحولیاتی جہدکار گریٹا تھمبرگ کے خلاف
ایف آئی آر کی خبر آئی لیکن جلد ہی انتظامیہ کو اندازہ ہوگیا کہ اگر وہ
اس لوہے کے چنے کو چبانے کی کوشش کرے گا تو دانت کھٹے ہوجائیں گے ۔ اس لیے
دِشا روی ، نکِتا جیکب اور شنتانو ملک پرنرم چارہ سمجھ کرہاتھ ڈالا گیا ۔
نکِتا اور شنتانو کو مہاراشٹر میں ہونے کی وجہ سے پیشگی ضمانت مل گئی لیکن
کرناٹک کی دِشا روی سرکار کے ہتھے چڑھ گئی اور پولس اس کو بنگلورو سے
گرفتار کرکے دہلی لے گئی۔ وکیل کے بغیر نچلی عدالت میں حاضر کرکے پہلے پولس
اور پھر عدالتی حراست میں لے لیا گیا۔ گودی میڈیا نےاس بزدلانہ حرکت
کوسرکار کی عظیم کامیابی قرار دے کر خوب سراہا۔
دِشا روی نے اس حراست کو دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں چیلنج کردیا اور
خوش قسمتی سے انہیں ایڈیشنل سیشن جج دھرمیندر رانا میسر آگئے ۔ موصوف نے
پہلی سماعت میں پولس کے ذریعہ پیش کردہ شواہد پر عدم اطمینان کا اظہار تو
کیا مگر ضمانت دینے کی جرأت نہیں کرسکے ۔ انہوں نے جمعہ سے تین دن بعد
منگل کی تاریخ دی جو بظاہر بے معنیٰ تھی کیونکہ پیر کے دن ریمانڈ کی مدت
ختم ہورہی تھی ۔ انتظامیہ اگر پیر کے دن حراست پر اصرار کرنے کے بجائے
ضمانت کی آسانی کردیتا تو ایک نہایت ناگوار فیصلے کی ہزیمت سے محفوظ رہ
سکتا تھا لیکن جب قسمت میں رسوائی لکھی ہو تو اس کو بھلا کون ٹال سکتا ہے؟
منگل کے دن جسٹس دھرمیندر رانا اگر صرف ایک لاکھ روپے کے ذاتی مچلکے پر دشا
روی کو ضمانت دیتے تب بھی غنیمت تھا مگر انہوں نے اپنے 17 صفحات پر مشتمل
فیصلے میں پولس کو جو پھٹکار لگائی وہ دراصل انتطامیہ پر سرجیکل اسٹرائیک
سے کم نہیں تھا ۔
جسٹس رانا نے آدھے ادھورے اورنامکمل شواہد کی بنیاد پر دِشا روی ، کی
گرفتاری پر دہلی پولیس کی خوب خبر لی۔انہوں بڑی خوبی سے انتظامیہ کے ذریعہ
لگائے گئے ایک ایک بے بنیاد الزام کا منہ توڑ جواب دیا ۔ اس فیصلے میں یہ
واضح کیا گیا وہاٹس ایپ پر گروپ بنانا یا کسی بے ضرر ٹول کٹ کو ایڈٹ
کرناکوئی جرم نہیں ہے۔ پولیس کے پاس لنگڑے لولے شواہد کی سوا دِشا روی کی
ضمانت سے انکار کا کوئی ٹھوس جواز موجود نہیں ہے۔بالخصوص ایسے میں جبکہ ا س
کا کوئی مجرمانہ ریکارڈنہیں ہے ۔ بادی النظر میںاس کے ذریعہ علٰحیدگی
پسندوں کے خیالات و نظریات کی حمایت کا کوئی ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔یہ
پولیس کے ذریعہ دِشا روی اور ممنوعہتنظیم ’سکھ فار جسٹس‘کے درمیان براہ
راست تعلق تلاش کرنے میں ناکامی کا زندہ ثبوت ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ
پولس کو اس کی سزا اور دِشا کو ضمانت کے ساتھ اس کی نقصان بھرپائی دی جاتی
لیکن فی الحال عدلیہ سے ایسی توقعات کرنا خوابوں میں جینے جیسا ہے۔
اس فیصلے میں جو اصولی باتیں نکل کر آتی ہیں ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ
کسی مشکوک شخص کے ساتھ رابطے میں آنا اپنے آپ میں کوئی جرم نہیں ہے ، جب
تک کہ رابطہ کرنے والا اس کی اصل نیت سے لاعلم ہو اور اس کے جرم میں شریک
نہ ہو۔ اس بابت ایک مثال بھی انہوں نے دی کہ میں اگر مندر کے لیے کسی ڈاکو
سے چندہ مانگوں تو کیا اس کا شریک جرم مانا جاوں گا؟ اس فیصلے کا یہ جملہ
سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے کہ حکومت کے ضمیر کو شہری بیدار کرتے
ہیں، اسلئے انہیں محض اس وجہ سے جیل نہیں بھیجا جاسکتا ہے کہ وہ حکومت کی
پالیسی سے متفق نہیں ہیں۔ کسی بھی تفتیشی ادارے کو محض قیاس آرائیوں کی
بنیاد پر شہری کی آزادی پر پابندی لگانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ قانون
کے دائرے میں رہ کرپرامنطریقے سے اپنے بات کو دور تک پہنچاناکوئی جرم نہیں
ہے ، کیوں کہ کسی خیال کو جغرافیائی حدود میں مقید نہیں کیا جاسکتا ۔
دِشا روی کے سائیبراٹیک معاملے میں تو خیر ’کھودا پہاڑ نکلا چوہا ‘ والی
کیفیت ہوگئی مگر چین کے ذریعہ ممبئی کے ٹاٹا پاور کمپنی کاحملہ فی الحال
’کھودا سوراخ تو نکلا ڈریگن‘ بن کر منہ کھولے کھڑا ہے ۔ کاش کے دھرمیندر
رانا عدالت عظمیٰ کی اس بنچ میں شامل ہوتے جو صدیق کپن کی سماعت کررہا ہے
اور یہی فیصلہ سناتے تو وہ بے قصور بھی ضمانت سے نواز دیا جاتا۔ویسے آج کل
عدالت کے فیصلوں کو دیکھ کر اسا لگتا ہے کہ اس کی آنکھوں پر لگی پٹی میں
باریک باریک سوراخ ہوگئے ہیں اور ان میں زعفرانی، سرخ ، سبز اور نیلا رنگ
نظر آجاتا ہے۔ ایسی صورتھال پر نبیل احمد نبیل کی طویل بحر کا یہ شعر صادق
آتا ہے؎
کیا سبق پڑھاتے ہیں شہر کو دیانت کا آ گیا ہے، جب اس پر فیصلہ عدالت کا
آپ کیوں پکڑتے ہیں ان کی چوریاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے |