میں کس منہ سے اس بزرگ سیدصاحب کاشکریہ اداکروں جوہمیشہ
مشکل وقت میں بھولاہواسبق یاددلادیتے ہیں۔جب بھی دل بہت بے چین ہوتا تھا تو
فوری طورپران سے فون پررابطہ پرہمیشہ کی طرح دانش وحکمت کے ایسے موتی جھڑتے
کہ روح تک سرشار ہوجاتی اورہرمرتبہ تنگ دامنی کامعاملہ آن کھڑاہوتالیکن اب
ایک عرصہ سے بھارتی متعصب ہندومودی کی نارواپابندیوں کی وجہ سے براہ راست
گفتگوکاسلسلہ تورک گیاہے لیکن دوطرفہ پیغامات سے اب دل کی پیاس
بجھاتاہوں۔بزرگ سید کاپیغام موصول ہوا، ایک عرصے کے بعدپھوٹتی سحراچھی
لگی،صبح نورکی تازگی دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی ،رغبت سے
کھاناکھایااورسجدہ شکراداکیا۔یوں محسوس ہورہاتھاکہ روح کاساراآلام دھل گیا
ہے اور روٹھے ہوئے الفاظ ایک دفعہ پھرایک قطارمیں مسکراتے کھڑے اپنی باری
کا انتظارکررہے ہیں،پھرسے ہمدم،ہمدرداورغمگسار،بڑھ کرگلے ملنے کیلئے
متمنی،جونہی میرے قلم نے محبت سے بازوپھیلائے فوراًبغیرکسی تاخیرکے برچھی
کی طرح سینے میں اترگئے۔
یہ سب ایک بوڑھے،بیماروعلیل اورایک سفیدریش کے حامل بزرگ کی وجہ سے ہواجن
سے ملاقات کی آرزوبرسوں سے دل کو بے چین کئے ہوئے ہے ۔میں نہیں جانتاکب یہ
دل کی مرادبرآئےگی اورنہ ہی اس بات سے واقف ہوں کہ کبھی ان کودیکھ بھی سکوں
گاکہ نہیں۔سید علی گیلانی جنہوں نے اپنی زندگی کے بیشترقیمتی سال بھارتی
مکارہندوبنئے کی بنائی ہوئی جیلوں میں گزار دیئے اوراب برسوں سے گھرمیں
نظربندہیں جہاں رابطے کے تمام ذرائع پر مکمل پابندی ہے۔ان کی
اولاداورخاندان کے دیگرافرادپربھی زندگی تنگ کردی گئی ہے۔کم ازکم6مرتبہ جس
کے مکان پرراکٹ برسائے گئے،جسے خلقِ خداکے قلب ودماغ سے اتارنے کی ان گنت
سازشیں کی گئیں لیکن وہ اتناہی زیادہ قلب وروح کی جان بنتاجارہاہے۔جسے
تھکاڈالنے، دھمکانے اورخریدنے کاہرحربہ آزمایا گیالیکن وہ ہردفعہ تازہ
دم،کسی خوف سےعاری اورکسی بھی خطرے کی پرواہ کئے بغیرمایوسی کودھتکارتے
ہوئے منزل کی طرف بڑھتا ہی چلا جا رہاہے………. .اورآج وہ اسی مظلوم
شہرسرینگرمیں ایک عرصے سے اپنے گھرمیں نظربندہے جہاں دنیا کی سب سے بڑی
جمہوریت کادعویٰ کرنے والے اس بزرگ سے اس قدرخوفزدہ ہیں کہ کرفیوکی حالیہ
پابندی سے قبل بھی برسوں سے مسجد میں نمازِ جمعہ پڑھنے کی اجازت ملی،نہ ہی
وہ اپنے کسی عزیزیاہمدم کے ہاں کسی بھی خوشی یاغمی میں شریک ہو سکا،گویا
اسے کشمیریوں سے دور رکھنے کی ایک ایسی سازش پرعمل جاری ہے کہ ہمارے ہاں
کشمیرکامقدمہ لڑنے والی کمیٹی کانااہل،جاہل اورکشمیری تاریخ سے نابلد ایسی
تاریخ سازشخصیت کے بارے میں اپنے بیان میں چاندپرتھوکنے کی کوشش کی ہے لیکن
اس تمام آلام و مصائب کے باوجود وہ اس شان اورعزم صمیم سے کھڑاہے کہ عظمت
اس پرٹوٹ ٹوٹ کربرس رہی ہے اور اس کی ایک اپیل پرسارے کشمیرکے مردوزن اور
جوان دیوانہ وارگولیوں کے سامنے سینہ تان کرکھڑاہونااپناایمانی فرض سمجھتے
ہیں۔
دوسروں کاذکرہی کیا،ایک وقت ایسابھی آیاکہ مقبوضہ کشمیرکی جماعت اسلامی نے
بھی اس کاساتھ دینے سے انکارکردیااور حریت کانفرنس سے مطالبہ کیا گیاکہ ان
کوالگ کرکے جماعت کے کسی اورلیڈرکونمائندگی کااختیاردیاجائے۔کمالِ جرأت
لیکن نہائت صبروتحمل کے ساتھ وہ اپنی راہ پرگامزن رہا۔ سری نگر کے ایک
مزدورکابیٹاجس نے اپنی بھرپورجوانی میں اپنے لئے ایک راہ چن لی تھی
اورپھرعمربھرناک کی سیدھ میں اس راہ پرچلتارہااورکبھی کسی موقع پر اس کے
قدم نہیں ڈگمگائے،جسے دیکھ کرتوحیرت ہوتی ہے،جس کے بارے میں سنوتودل سے بے
اختیاراس کی درازیٔ عمرکی دعا ئیں نکلتی ہیں اورغور کرو تو”اھدِنَا
الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ”کامفہوم سمجھ میں آنے لگتاہے۔عمربھراس نے جھوٹ
اورفریب کے سامنے جھکنے سے انکارکردیااورعمربھراس کوکوئی مشتعل بھی نہیں
کرسکا۔
وہ جانتاہے کہ راہ کٹھن بھی ہے اورطویل بھی لیکن وہ پھربھی اپنی ترجیحات
اورمقاصدپریکسوہے۔وہ رازاس پرآشکارہے کہ جس سے مسلم دنیاکے اکثر رہنمابے
خبرہیں کہ عرصہ گیرامتحان میں اصل اہمیت کامیابی اورناکامی کی نہیں،حسنِ
نیت اورحسنِ عمل کی ہوتی ہے۔آدمی نتائج کانہیں جدو جہد کامکلف ہے،نتیجہ
تواللہ کے ہاتھ میں ہے۔پہلے تووہ خوداپنی پارٹی قیادت کے خلاف صف آراء
ہوا،جدجہدکے طویل برس اوران گنت قربانیاں بھی اسے تھکانے میں ناکام
رہیں۔پارٹی کے کارکنوں کوآوازدی جوہمیشہ کی طرح اس پراعتمادکرتے ہیں کہ
زندگی کی کتاب میں جاہ پسندی،ریااور مفادکاکوئی باب نہیں۔ اپنا سارااخلاقی
دباؤڈال کراس نے جماعت کی قیادت کوبدل ڈالا،پھروہ حریت کانفرنس کی مصلحت
کاشکارہونے والی قیادت کے خلاف اٹھا…..ایک آدمی، متعدد لیڈروں اورگروہوں کے
خلاف جوپاکستان کوبھول کربھارت سے مذاکرات پرآمادہ ہوگئے تھے،جانتے ہوئے
بھی کہ کن لوگوں نے انہیں آمادہ کیا تھا۔
اندلس کاجلیل القدرحکمران درباریوں کے ساتھ نوتعمیرمحل میں نمودارہواجس میں
سونے کاقبہ جگمگارہاتھا۔جب دوسرے داد دے چکے توقاضی سعید کی طرف متوجہ
ہوا”بادشاہ تم پرشیطان سوارہے،سونے سے عمارتیں نہیں بنائی جاتی”آسمان
اورزمین کے درمیان ایک سناٹاتھااوردل تھے جو خوف اور اندیشوں سے دھڑک رہے
تھے۔جب بادشاہ کی آوازابھری”سعید کولوگ بے سبب ہسپانیہ کاضمیرنہیں کہتے،قبہ
گرادیاجائے”۔
کبھی کبھی ایک تنہاآدمی اٹھتاہے اورمنظرکوبدل ڈالتاہے۔علی گیلانی فرشتہ
نہیں ہے۔چندلمحوں کیلئےاگریہ مان لوں کہ ان کافیصلہ جاہلوں کی سماعت پر
گراں گزرتاہے اوریہ جاہل اپنی ناقص عقل کی بناءہراپنی چنددنوں کی کرسی کے
تکبرمیں اپنی چرب زبانی سے کام لیکرخودکوشاہ سے زیادہ شاہ پرست ہونے کی
کوشش کرتے ہیں لیکن ان کے منہ کھولنے سے ان کے اندرکاتضادتوسامنے آگیا کہ
ان کی عقلیں وہی کہتی ہوں جس پروہ عمل پیراہیں؟دنیاکے بدلے ہوئے
ناسازگارحالات اورپہاڑجیسی رکاوٹیں،لیکن بزرگ درویش ان سے مختلف ہے۔وہ ایک
صاحبِ یقین ہے اورصاحبِ یقین کبھی مرجھاتااور مایوس نہیں ہوتا۔وہ اپنی ذات
سے اوپراٹھ جاتا ہے اورایک برترمقصدکیلئے ہرچیزکوتیاگ دیتاہے۔ قوموں کوایسے
لوگ انعام کے طورپرعطاکئے جاتے ہیں اورکوئی الٹالٹک جائے ان کی راہ کھوٹی
نہیں کرسکتا۔
ایک دنیااس بات کی معترف ہے کہ سیدعلی گیلانی نے حریت کانفرنس کی درماندہ
قیادت اوراس کے عقب میں سازشیں کرنے والے بھارتیوں،کشمیر کا وکیل ہونے
کادعویٰ کرنے والوں اورشاطرامریکیوں کوبالآخرشکست سے دوچارکردیاجب
استعمارپوری قوت کے ساتھ کشمیریوں کوتنہاکرنے کیلئے صرف کررہاہے اوراس
سیاسی نادہندہ کے بیان نے یہ ثابت کیاہے کہ موجودہ پاکستانی حکومت بھی تھک
چکی ہے اورشائددیگرادارے بھی راستہ بھول چکے ہیں۔
میں یہ بھی یادلادوں کہ اس سے قبل بھی شاہ محمودقریشی نے بطوروزیرخارجہ
امریکی ایماءپرکشمیرکی بندربانٹ کرنے کیلئے ایک کشمیری لیڈرکے ساتھ ساز
بازشروع کرتے ہوئے خصوصی طورپرواشنگٹن میں آصف زرداری کے ساتھ اس کشمیری
لیڈرکی ملاقات بھی کروائی تھی تویہ مردِمجاہد سیدگیلانی ہی تھے جنہوں نے
بروقت اس سازش کی دہائی دیتے ہوئے ہمیشہ کی طرح کشمیریوں کی مددسے اس مذموم
منصوبے کوکامیاب نہیں ہونے دیا۔ان دنوں بھی ٹیلیفون پرمیری جب ان سے بات
ہوئی توایک دفعہ پھرسیدعلی گیلانی نے پاکستانی حکمرانوں کوبھارت کے ساتھ
دوستی کی پینگیں بڑھانے پراپنی تشویش کااظہار کرتے ہوئے یہ بھی فرمایاتھاکہ
ممبئی میں دہشتگردی کاشورمچانے والابھارت اب بلوچستان، سرحد،کراچی اور
پاکستان کے دیگردوسرے بڑے شہروں میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مسلسل دہشتگردی
کاارتکاب کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی کیلئے ایک مستقل سنگین خطرات
پیداکررہاہے اور پاکستانی حکومت ان کے ساتھ دوستی کیلئے مرتی جارہی ہے۔میں
ان کی آوازکاکرب بڑی شدت اور ندامت کے ساتھ محسوس کررہاتھااوردکھ کی بات
تویہ ہے کہ اس مرتبہ سقوط کشمیرکامعاملہ بھی اسی وزیرخارجہ کے دورمیں ہواہے
اوررہی سہی کسر ایسے سیاسی بونے پوراکرنے کے خبط میں مبتلاہیں۔
اب ضرورت اس امرکی ہے سیدعلی گیلانی کے بیان کوسنجیدگی سے لیاجائے اورفوری
طورپرموجودہ کشمیرکمیٹی کے سربراہ اوروزیرخارجہ کو تبدیل کرکے انہیں یقین
دلایاجائے کہ کشمیرکاوکیل آئندہ انہیں کبھی بھی مایوس نہیں کرے گااوراس کے
ساتھ ہی اقوام عالم کویہ واضح طورپر بتائے کہ مودی جنتااپنے ہاں کسانوں کے
دھرنے،لداخ میں چینی دباؤاوردیگرسیاسی فاش غلطیوں کی بناءپر شدیدترین
اندرونی خلفشارکی بناء پر بظاہرامن کاپیغام دے رہاہےلیکن دوسری طرف
کوروناکی آڑمیں سفاک مودی کشمیرمیں خونی کھیل کی آڑمیں کشمیرکی آبادی
کاتناسب بدلنے کی جوبدترین کوششیں کررہاہے اس سے اگر خطے میں جنگ کاآتش
فشاں پھٹ گیاتونہ صرف جنوبی ایشیامیں تباہی و بربادی ہوگی بلکہ یہ عالمی
جنگ کا بھی پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے اورانڈیابھی سوویت یونین کی طرح
اپنابوجھ سنبھال نہیں پائے گاکیونکہ اب صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر مسلم
ممالک میں بھی کشمیرکے حالات سے متعلق شدید تشویش اورغصہ پایاجاتاہے۔دنیاکے
سامنے بھارت کامکروہ چہرہ عیاں کرنے کی پہلے سے زیادہ اشد ضرورت ہے جس
کاادراک موجودہ حکومت سے کہیں زیادہ سیدعلی گیلانی کوہے۔
اگر اب بھی بین الاقوامی سطح پراس معاملے میں سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں
تودنیاکوایک بڑی ہولناک جنگ کاسامناکرناپڑے گا جوکہ یقینی طورپہ ایٹمی جنگ
ہوگی اوراس تباہی سے بچنے کاواحد حل یہی ہے کہ حقدارکواس کاحق دیاجائے تاکہ
اس خطے میں امن قائم رہے۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ
کشمیرمیں ظلم وبربریت کے پہاڑتوڑے ہوئے ہیں اوروہ نہتے اورمجبورکشمیریوں
پرغیرانسانی اورغیر اخلاقی دونوں طرح کے حربے آزمارہا ہے ۔ کشمیری شہری یہ
ظلم و ستم گزشتہ 74سال سے سہہ رہے ہیں اوراپنے حق کیلئےسیاسی اورعسکری
دونوں محاذوں پرمردانہ وارلڑرہے ہیں۔انڈین آرمی کی تقریباً ساڑھے دس لاکھ
سے زائد تعداد(جوہرطرح سے مسلح ہیں) تحریکِ حریت کی آگ کو بجھانہیں پارہی
اورنہ بجھاپائے گی۔بھارت تحریکِ حریت کوختم کرنے کی اورکشمیرپرمکمل قبضہ
کرنے کی سرتوڑکوششیں کررہاہے اوران کوششوں میں اس کے ساتھ اب مزید خوارجی
ممالک بھی شامل ہوگئے ہیں جن میں اسرائیل سرِفہرست ہے۔
5/اگست کوآرٹیکل370ختم کرنے کے بعدبھارت نے کشمیرکواپناحصہ بنانے کیلئے وہی
حکمتِ عملی اپنائی ہے جوکبھی اسرائیل نے فلسطین پرقبضہ کرنے کیلئے بنائی
تھی کہ سب سے پہلے کچھ اسرائیلی فلسطین جاکرآبادہوئے پھرانہوں نے اپنی
آبادی میں اضافہ شروع کیااورمقامی فلسطینیوں سے منہ مانگی قیمتوں پرزمینیں
اورجائدادیں حاصل کرناشروع کی اس کے بعدانہیں لالچ دیا اورپھرتیزی سے منہ
مانگی قیمت پرزیادہ سے زیادہ زمینیں خریدنے لگے اورزیادہ ترفلسطینی علاقوں
پراپناتسلط قائم کرلیا۔ بالکل یہی طریقہ اب بھارت نے آرٹیکل 370 کاخاتمہ
کرکے مقبوضہ جموں کشمیر میں اپنایاہے۔
بھارتی آئین کی شق370کے خاتمے کااعلان کے بعدکشمیر میں انڈین آرمی کی
تعداد میں مزیداضافہ کردیاہے اورانڈین حکومتی اداروں نے کشمیر میں کرفیو
نافذکرکے نہتے،مجبورومظلوم کشمیریوں پرظلم وستم کی انتہاءکردی ہے۔انڈین
آرمی بلااجازت گھروں میں داخل ہوکرجسے چاہتی ہے اٹھالیتی ہے۔خاص طورپرجوان
بچوں کوحریت پسندکہہ کراپنے ساتھ لے جاتی ہے اورپھر چند دن کے بعد ان کی
تشدد شدہ لاشیں کسی اورعلاقے سے ملتی ہیں اسی طرح مسلم عورتوں کوگھروں سے
اٹھالیاجاتاہے اورعصمت دری کے بعد یاتوماردیاجاتاہے یاپھرانتہائی بری حالت
میں مجبور خواتین کسی علاقے میں پھینک دی جاتی ہیں ۔یہی نہیں کسی بھی
گھرکوآگ لگاناگھرسے سامان لے جانااورتوڑپھوڑکرناتوروزکامعمول بن گیا
ہے۔بین الاقوامی میڈیاکوکشمیرسے دوررکھاجارہاہے ۔ مودی حکومت نے فیصلہ
کرلیاہے کہ تحریک حریت کوبندوق کے زورپرکچل دیاجائے۔مودی حکومت برہان وانی
شہیدکی شہادت پرایک مرتبہ پھریہاں کے نوجوانوں کاجذبہ آزادی دیکھ کرحواس
باختہ ہوگئی ہے اوراسی خوف کی بنیادپر مزیدہزاروں نوجوانوں کو پکڑکرعقوبت
خانوں میں پہنچادیاگیاہے۔
سید علی گیلانی کومیرا،ایک عام پاکستانی کاسلام پہنچے۔انہوں نے اپنےایک
صائب مشورہ سےہماری ساری مایوسی دھو ڈالی ہے ۔ہمارے لئے انہوں نے ایک تابہ
فلک ایک مشعل فروزاں کردی ہے اورہمیں یاددلایاہے کہ انسانیت کامستقبل ابلیس
اورمایوسی پھیلانے والے اس کے کارندوں کے پاس نہیں بلکہ اللہ کے ہاتھ میں
ہے۔اللہ جوامیدکارب ہے اورجس کی کتاب برملایہ کہتی ہے کہ (کیا اللہ اپنے
بندوں کیلئے کافی نہیں)۔ پچھلے ہفتے ایک خصوصی ویب کانفرنس میں انسانی
بنیادی حقوق پرنگاہ رکھنے والی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل،واچ ڈاگ،ہیومن
رائٹس انٹرنیشنل ،اینٹی سلیوری انٹرنیشنل اورگلوبل رائٹس کوآپ پرہونے والی
زیادتیوں سے جب آگاہ کیاتومعلوم ہواکہ یہ تمام ادارے بھی آپ کے انسانی حقوق
اوردیگرحقوق تلفی کانہ صرف اعتراف کرتے ہیں بلکہ آپ کی ثابت قدمی پربھی
نازاں ہیں اورایک بارپھرآپ کے حقوق کی بازیابی کیلئے سرگرم ہونے کایقین
دلایاہے۔جناب سید صاحب!آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں بھولاہواسبق
یاددلادیا۔
عرفی تومیندیش زغوغائے رقیباں
آوازِسگاں کم نہ کند رزقِ گدا را
اے عرفی تو رقیبوں کے شوروغل سے پریشان نہ ہو،
کیونکہ کتوں کے بھونکنے سے فقیر کا رزق کم نہیں ہوتا
|