' پی ڈی ایم ' کا کارنامہ اور پاکستان کا نصیب !
(Athar Masood Wani, Rawalpindi)
اطہر مسعود وانی
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد'پی ڈی ایم' کے سربراہ اجلاس کے بعد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ملتوی کرنے اور پیپلز پارٹی کی طرف سے استعفوں پر مشاورت کے نام پر بعد میں جواب دینے کی صورتحال ڈرامائی طور پر سامنے آئی ہے تاہم یہ غیر متوقع نہیں کیونکہ سندھ میں حکومت میں ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی پہلے سے ہی استعفوں کے معاملے پر الگ پالیسی اپنانے پر بضد نظر آئی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نثار کھوڑو کا کہنا ہے کہ پہلے یہ طے تھا کہ ہم لانگ مارچ کریں گے، پھر اس کے بعد یہ نئی ڈیمانڈ آئی کہ استعفے دے کر لانگ مارچ کیا جائے، ہم نے اس پر ٹائم مانگا ہے تاکہ اپنی پارٹی سے مشاورت کرسکیں۔
' پی ڈی ایم' کے ملک گیر جلسوں میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دو ٹوک بیانیئے سے یوں نظر آنے لگا کہ ملک میں آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا عوامی مطالبہ ایک چیلنج کے طور پر سامنے آ گیا ہے اور اب اس مقصد کے لئے پیش رفت ہو گی۔ لیکن ' پی ڈی ایم' کی طرف سے' لانگ مارچ' میں کئی ہفتوں کے التوا کے اعلان کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی پس پردہ کوششیں تیز ہو گئیں ، جس کے نتائج اب سامنے آ رہے ہیں۔یہ درست ہے کہ ' لانگ مارچ' کے التوا سے عمومی طور پر منفی تاثر پیدا ہوا ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ سے اپنے رابطوں کے باوجود ' پی ڈی ایم' سے علیحدگی کا فیصلہ کرنا مشکل سیاسی فیصلہ ہے۔اگر واقعی پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایسے '' سبز باغ'' نظر آ رہے ہیں کہ جن کی تعبیر حکومتی شمولیت کے امکانات رکھتی ہو تو سیاسی تجربات کے پیش نظر '' سو جوتے سوپیاز'' کی صورتحال درپیش آنا بھی عین ممکن ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں سیاسی رہنمائوں کو سرکاری،غیر سرکاری ذرائع سے ہلاک کئے جانے کی ایک تاریخ ہے۔آصف زرداری کی طرف سے نواز شریف کی ملک واپس آنے کی بات اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی خواہشات سے ہم آہنگ معلوم ہوتی ہے۔یہ نواز شریف ہی تھے کہ جنہوں نے ' پی ڈی ایم' کے ملک گیر جلسوں میں ،ملک پہ غاصب حاکمیت قائم رکھنے کے ذمہ داروں کے نام لیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو شدید دبائو سے دوچار کر دیا تھا۔آصف زرداری صاحب جیل جانے کی دعوت تو دے رہے ہیں لیکن وہ ایسا کوئی بھی بیان دینے سے مکمل گریز کرتے ہیں کہ جو اسٹیبلشمنٹ کو اتنا برا لگے کہ مزید ایک سیاسی ہلاکت کے خطرات کا موجب ہو سکے۔آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی دلچسپی آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کے بجائے حکومت میں شمولیت میں نظر آتی ہے۔کیا تاریخ نے ' پی ڈی ایم' کے نصیب میں صرف غاصب حاکمیت کو بے نقاب کرنے کا کارنامہ ہی لکھا ہے یا ماروائے آئین مسلط اس حاکمیت کے خاتمے میں پیش رفت بھی 'پی ڈی ایم' کے نصیب میں لکھی جائے گی؟ اس صورتحال کے خد و خال جلد واضح ہو جائیں گے۔
خارجہ اور دفاعی امور کے حوالے سے دیکھیں تو پاکستان انتظامیہ ہندوستان کو امن کے نام پر مزاکرات کی دعوت دیتی نظر آرہی ہے۔ ہندوستان کی طرف سے جارحانہ اقدامات کے جواب میں امن کے ثمرات پر باتیں کرنا ہماری انتظامیہ کی ہمت اور جرات کی کہانی بیان کر دیتی ہیں۔جوں جوں ادارے مضبوط سے مقدس ہوتے جار ہے ہیں،توں توں عوامی مظلومیت ،بے چارگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔'' بیڈ گورنینس''نے اقصادی بد حالی کا تمام بوجھ عوام پہ ڈال رکھا ہے۔ملک میں آزادی اظہار پر پابندی کی بدترین صورتحال سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ،حکومت اپنی پالیسیوں کا دفاع کرنے سے خوفزدہ ہیں اور ان موضوعات کو خفیہ قومی امور قرار دیتے ہوئے خفیہ ہی رکھے جانے پر بضد ہیں۔سیاست اور آزادی اظہار لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔سیاست اور آزادی اظہار کو پابند ،مجبور اور مظلوم بنا کر رکھنے اور عوام کو کمتر درجے کے شہری سمجھ کر برتائو کرنے سے بڑا ظلم اور کیا ہو گا۔ملک کے ہر ادارے کو حقیقی طاقت رکھنے والے ادارے کی غاصبانہ حاکمیت کی صورتحال درپیش ہے۔بقول جاوید غامدی '' آپ کا کیا خیال ہے کہ بندوق کی طاقت والوں سے اقتدار لینا اتنا آسان ہے کہ وہ آپ کے شاندار دلائل سن کر اقتدار آپ کے حوالے کر دیں گے؟'' سیاست اور آزادی اظہار کو مغلوب رکھنے سے ایسے راستوں کی راہ ہموار ہوتی ہے جس میں صرف اور صرف انتشار اور تباہی ہی ہوتی ہے۔
|