ہندوستان کے سینئیر ترین بزرگ صحافی خوشونت سنگھ اپنی
خودنوشت "سچ محبت اور ذرا سا کینہ" میں بنجامن فرینکلن کا ایک قول نقل کرتے
ہوئے لکھتے ہیں "اگر تم چاہتے ہو کہ مرنے اور گل سڑ جانے کے بعد تمہیں
فراموش نہ کردیا جائے تو پھر یا تو پڑھے جانے کے قابل چیزیں لکھو یا لکھے
جانے کے قابل کام کرو" ۔کتابیں لکھنے والے اور جن پہ کتابیں لکھی جائیں
بلاشبہ غیرمعمولی انسان ہوتے ہیں ۔
میں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مصنفین کی ہزاروں کتابیں پڑھی ہیں ہفتے میں
کم ازکم ایک کتاب کا مطالعہ ضرور کرتا ہوں۔ نسیم حجازی،التمش، عنائت
عبداللہ ، اسلم راہی، ابن صفی اور اے حمید مرحوم کے سارے ناول بچپن میں ہی
پڑھ ڈالے تھے ۔شہاب صاحب،ممتاز مفتی،شورش کشمیری، مولانا اعظم طارق، امیر
حمزہ ، مسعود اظہر، حامدمیر، روف کلاسرہ کا انداز تحریر اور مفتی ابولبابہ
شاہ منصورکی تحقیقی کتب میرے لئے بڑی کشش رکھتی ہیں ۔
میرے سب سے پسندیدہ لکھاری نسیم حجازی ، خوشونت سنگھ اور جاوید چودھری صاحب
ہیں نسیم حجازی کے سارے ہی ناول میں نے کئی کئی بار پڑھے ہیں جاوید چودھری
صاحب کے پہلے کالم سے لےکر آج تک کبھی کوئی کالم نہیں چھوڑا ان کی ہرتحریر
اتنی پرتاثیر اور جاندار ہوتی ہے کہ آدمی اس کے کرداروں میں کھوجاتا ہے اور
برصغیر کے سب سے بڑے صحافی خوشونت سنگھ کی کتابیں ایسی ہیں کہ ایک بار شروع
کرلیں تو ختم کئے بغیر چین نہیں ملتا، انہوں نے جوانی کے ایام میں بھارت کو
ہندوستان اور پاکستان میں بٹتےدیکھا، پھر پاکستان سے بنگلہ دیش نکلتے اور
پھر ہندو پاک کی جنگیں اور دونوں ممالک کو ایٹمی طاقتیں بنتے دیکھا، ان کی
کتابوں میں وسیع تجربہ اور لمبی عمر کے ثمرات پائے جاتے ہیں ان کا قلم ایک
خاص قسم کی بے باکی کا عادی تھا جس کا ہر شخص متحمل نہیں ہوسکتا۔
خوشونت سنگھ آخری سانس تک ہندو، مسلم اور سکھ انتہاء پسند تنظیموں کی ہٹ
لسٹ پر رہے تاہم کبھی اپنے اصولوں پر کمپرومائز نہیں کیا، راقم نے سیکنڑوں
سیاسی و صحافتی شخصیات کی خود نوشتیں پڑھی ہیں مگر جو لطف " سچ محبت اور
ذرا سا کینہ" پڑھتے ہوئے آتا ہے کسی دوسری کتاب میں ایسی دلچسپی کم دیکھنے
میں ملتی ہے ۔
وہ ایک جگہ مسلمانوں کی بے اتفاقی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں " (تقسیم ہند
سے قبل) ہم مسلمانوں کے ساتھ تھوڑی مرعوبیت کے ساتھ رہتے تھے کیونکہ یہ
لمبے چوڑے کڑیل جوان تھے تاہم ہماری خوش قسمتی تھی کہ وہ برادریوں میں بٹے
ہوئے تھے اور زمین کے معاملے میں آپس میں مقدمہ بازی اور قتال میں الجھے
رہتے تھے"۔ آپ ان کے مشاہدے پہ غور کریں آج بھی مسلمانوں کی سب سے بڑی
کمزوری یہی بے اتفاقی ہے کہیں قومی، لسانی اور صوبائی عصبیت ہے تو کہیں
ملکی، ہر کوئی صرف اپنا ذاتی نفع و نقصان دیکھتا ہے ملک و ملت ثانوی حیثیت
اختیار کرگئے ہیں ۔
ہندوستان نے خوشونت سنگھ کو ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بے شمار اعلی
سرکاری اعزازت سے نوازا ، وہ 1984 کے فسادات کے عینی شاہد تھے انہوں نے
بھارتی حکومت کے ساتھ ساتھ مشہور جنونی سکھ حریت پسند لیڈر بھنڈرانوالہ اور
اس کے ساتھیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جس سے خود ان کی اپنی زندگی کو
شدید خطرات لاحق ہوگئے ۔
امرتسر میں بھارتی فوج کی طرف سے مقدس گولڈن ٹمپل پہ چڑھائی اور مذہبی
سکھوں کی قتل و غارتگری کے بعد احتجاجا" بزرگ صحافی نے تمام اعزازت بھارتی
حکومت کو واپس کردئیے تھے تاہم انہوں نے ساری زندگی قلم و قرطاس سے رشتہ
جوڑے رکھا انہوں نے آخری کتاب اٹھانوے سال کی عمر میں لکھی ۔
ایشیاء کے اس سب سے معمر ترین صحافی کی زندگی میں صحافت کے طالب علموں کے
لئے سیکھنے کے کئی پہلو ہیں، خوشامد، چاپلوسی اور جھوٹ کا اثر اگرچہ جلدی
مگر کبھی دیرپا نہیں ہوتا اس کے مقابلے میں سچائی ، دیانتداری اور اعلی
اقدار کا تاثر دیر سے مگر دیرپا اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہوتا ہے ۔
|