افغانستان میں قیام امن کے لئے بھرپور سفارت کاری کی وجہ
سے غنی انتظامیہ پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے
اشرف غنی کولکھے خط میں اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے کی واضح ڈیڈ لائن دیتے
ہوئے لکھاہے کہ اگر اشرف غنی اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتے تو یکم مئی کے بعد
کابل انتظامیہ کو امریکی حمایت حاصل نہیں ہوگی اور تنہا افغان طالبان کا
مقابلہ کرنا ہوگا ، اس کے علاوہ مزید آپشنزکے زیر غور ہونے کا بھی عندیہ
دیا ، جس میں انقرہ میں روس ، چین، ایران ، پاکستان اور بھارت کے ساتھ
مذاکرات کرنے تجویز بھی دی گئی ۔ افغانستان کے لئے امریکی صدر کے نمائندہ
خصوصی زلمے خلیل زاد نے عبوری حکومت کے قیام کی تجویز بھی دی ہے ، عبوری
حکومت کی باز گشت گذشتہ کئی ہفتوں سے کابل میں زیر گردش ہے ، یہاں تک کہ
کئی اراکین پارلیمنٹ نے بھی عبوری حکومت کی حمایت کی ہے ، لیکن اشرف غنی
شدت کے ساتھ عبوری حکومت کے مطالبے کو مسترد کرچکے ہیں۔ افغانستان میں قیامِ
امن کے لیے ایک ایسی عبوری حکومت کے قیام کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جس میں
افغان طالبان کے علاوہ دیگر افغان دھڑے بھی شامل ہوں۔ امریکا انتخابات کے
بعد صدر بائیدن کو کئی عالمی چیلنجز درپیش ہیں، جس میں افغانستان بھی ایک
درد ِ سر مسئلے کی صورت میں انہیں درپیش ہے۔ٹرمپ انتظامیہ سے قبل اوباما
ایک فارمولا طے کرچکے تھے تاہم اس وقت افغان طالبان کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ
نہیں ہوا تھا ، اب دوحہ میں معاہدہ ہونے اور اقوام متحدہ سے توثیق کے بعد
امریکا پابند ہوچکا ہے کہ یکم مئی تک افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا ء
کرے۔ کابل انتظامیہ اور افغان طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات کا
ایجنڈا طے ہوا لیکن مزید پیش رفت میں سست روئی کی بنا پر امریکا پر دباؤ
بڑھ رہا ہے کہ دوحہ معاہدے کے مطابق اپنی افواج بلائے یا پھر افغان طالبان
کے ساتھ مزید جنگ کے لئے تیار ہوجائے ، تاہم امریکا جانتا ہے کہ 19برس کی
لاحاصل جنگ کے باوجود وہ افغانستان پر مکمل قبضہ نہیں کرسکا تو اب
صرف2500فوجیوں کی مدد سے کس طرح افغانستان کی سرزمین پر قابض رہ سکتا ہے ۔
نیٹو افواج کے 7500فوجی بھی امریکی مداخلت کی وجہ سے افغانستان میں آئے ،
امریکا کے جانے کے بعد نیٹو کی موجودگی کا جواز ختم ہوجاتا ہے۔ کیونکہ
افغانستان کا تنازع اب علاقائی بن چکا ہے ، جس کے حل کے لئے افغا ن اسٹیک
ہولڈرز کو خود ہی حل نکالنا ہوگا ، کسی بھی مملکت کی خواہش کے مطابق
افغانستا ن کی حکومت کے نظام و انصرام کا فیصلہ ممکن نہیں ، اس لئے امریکی
وزیرخارجہ کا یہ کہنا صائب ہے کہ اشرف غنی کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں
گی۔تاہم دوسری جانب پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ کسی بھی سطح
پر فورسز کی وطن واپسی سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ ان کے بقول یہاں ہر
کوئی ڈیڈ لائن میں اضافے کی توقع رکھتا ہے۔ ہم ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ
افغان مسئلے کا حل سیاسی ہے، عسکری نہیں۔نیوزی لینڈ کے علاوہ نیٹو نے بھی
کوئی ٹائم فریم نہیں دیا ، لیکن بادی ٔ النظر لگتا ہے کہ صدر بائیڈن امریکی
افواج کو مزید افغانستان میں جنگ کا ایندھن بنانے سے گریز کی راہ اختیار
کرنے کو ترجیح دینا چاہتے ہیں ، اس لئے امریکی وزیر خارجہ نے اپنی تجاویز
میں چار ممالک ، جن کا افغانستان میں اپنا اپنا اثر نفوذ ہے ، ان کے ذریعے
حل نکالنے کی تجویز دی ہے ، تاہم ترکی کی میزبانی میں اس سے قبل افغان جنگ
کا حل نہیں نکلا تھا ۔امریکی وزیر خارجہ کے صدر اشرف غنی کو لکھے خط کے
مطابق بلنکن نے کہا تھا کہ’’ امریکہ اقوامِ متحدہ سے کہہ سکتا ہے کہ وہ روس،
چین، پاکستان، ایران اور بھارت کے وزرائے خارجہ اور سفارت کاروں پر مشتمل
ایک کانفرنس بلائے جو افغان امن عمل کے لیے متفقہ حکمتِ عملی اپنانے پر
تبادلہ خیال کریں‘‘۔ امریکی وزیرِ خارجہ کے خط کے مطابق، یہی وہ ممالک ہیں
جنہیں افغان تنازع کے حل کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔اینٹنی بلنکن نے خط
میں مزید لکھا ہے کہ ’’وہ ترکی سے بھی کہیں گے کہ آئندہ چند ہفتوں میں وہ
طالبان اور افغان اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک کانفرنس کی میزبانی کرے جس میں
امن معاہدے کو حتمی شکل دی جائے۔ میں صدر غں ی سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی
اپنا وفد یہاں بھیجیں۔اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجیرک نے امریکہ کی طرف
سے افغان کے معاملے پر وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد کرنے کی تجویز پر تبصرہ
کرتے ہوئے کہا کہ عالمی ادارہ افغان جنگ کے پرامن حل کے لئے کی جانے والی
کسی بھی کوشش کی حمایت کرے گا۔
ترکی کی میزبانی میں اس سے قبل متعدد دور تنازع کے حل کے لئے ہوچکے
ہیں۔انقرہ میں اپریل2007میں سہ فریقی اجلاس منعقد ہوا تھا ، جب کہ دوسرا
اجلاس استنبول میں 2008میں منعقد ہوا اور جب کہ تیسرا اجلاس 2009میں انقرہ
میں منعقد ہوا، تیسرے اجلاس میں پاکستان کے علاوہ چھ دیگر ممالک بھی شریک
تھے ، استنبول سمٹ میں برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ ، تنظیم برائے
اسلامی کانفرسن کے سیکرٹری جنرل ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے
وزرائے مملکت برائے خارجہ امور نے بحیثیت مبصر شرکت کی تھی ، تینوں اجلاس
کسی منطقی لائحہ عمل پر متفق بنانے میں کام نہیں ہوسکے تھے، تاہم2018میں
ایک بڑی پیش رفت اُس سامنے آئی جب ترکی نے افغان طالبان کو اپنا سیاسی دفتر
کھولنے کے لئے آفس کھولنے کی بھی پیش کش کی تھی ۔ اُس وقت ترک حکومت کی
جانب سے افغان دھڑوں اور کابل حکومت کے درمیان مفاہمتی عمل چار فریقی
مذاکراتی عمل کا انعقاد کیا گیا تھا ، واضح رہے کہ استنبول میں کابل حکومت
اور افغان طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان ہر مذاکرات ناکامی سے دوچار
ہوئے ۔یہاں امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے بھارت کو ایران روس ، چین اور
پاکستان کے ساتھ افغان اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مذاکرات کی تجویز پر باقاعدہ
طور پر کسی بھی حکومت کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے ، تاہم ماضی کی طرح اگر
ایسا کوئی مذاکراتی عمل شروع بھی کیا گیا تو اس کے ناکام ہونے کے امکانات
زیادہ ہیں ، کیونکہ ترکی ، کابل انتظامیہ اور افغان طالبان پر موثر اثر
رسوخ نہیں رکھتا ، سعودی عرب و متحدہ عرب امارات کا ایک خاص اثر افغان
طالبان پر موجود رہا تھا ، تاہم ایران کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے عرب ممالک
نے افغان طالبان کی حمایت سے قریباََ ہاتھ اٹھا لیا ۔ایران و امریکا کے
تعلقات کشیدگی سے بہتری کی جانب رواں ہے ، اس لئے افغان طالبان کے ساتھ
ایران بتدریج دوری اختیار کرتا جارہا ہے، جب کہ پاکستان اپنے محدود اثر
رسوخ کی مدد سے دوحہ معاہدہ کروانے میں کامیاب ہوا ، تاہم افغانستان کے
داخلی نظام و انصرام کے حوالے سے پاکستان یقین دہانی کراچکا ہے کہ
افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان اسٹیک ہولدرز خود کریں گے ، اس لئے
ترکی میں کسی بھی ممکنہ مذاکرات کے امکانات میں بھارت کی پاکستان کے خلاف
عدوات کی وجہ سے مسئلہ سلجھنے کی بجائے مزید الجھ سکتا ہے۔
افغان طالبان اس مرحلے پر امریکی حکومت پر دباؤ بڑھا رہے ہیں کہ دوحہ
معاہدے کے مطابق امریکا کو عمل درآمد کرنا نا گزیر ہے ، کیونکہ انہوں نے
امریکی افواج کے خلاف حملے بند کردیئے ، غیر ملکی جہادیوں کو اپنی تحریک
میں شامل نہ کرنے کے ہدایات دی ہیں ، پاکستان نے باجوہ ڈاکٹرائن کے بعد
داخلی و خارجی پالیسیوں میں نمایاں تبدیلیاں کرکے خطے میں امن کے لئے غیر
جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ، اور ماضی میں اختیار کی جانے والی پالیسیوں کو
تبدیل کردیا اور اپنی بھرپور توجہ سرحدوں کی حفاظت و دہشت گردو ں کے خلاف
بلا امتیاز کاروائی کو یقینی بنانے پر مرکوز کی۔ جس کے بعد انتہا پسند
تنظیموں نے پاکستانی سرزمین سے راہ فرار اختیار کرکے افغانستان میں گڑھ بنا
لئے ، مملکت کو تحفظات بھی ہیں کہ افغانستان کا مستقل و پائدار حل نہ نکلا
اور امریکا ، سوویت یونین کی طرح افغانستان تنازع کو حل کئے بغیر جاتا ہے
تو انتہا پسندوں کا ایک بار پھر کمین گاہوں کی تلاش میں پاکستان کا رخ
کرسکتے ہیں ، جنہیں روکنے کے لئے بارڈر منجمنٹ سسٹم پر امریکا ، ایرا ن اور
افغانستان کی حمایت و تعاون ضروری ہے۔ واضح رہے کہ امریکا معاہدے کے مطابق
عمل کرنے میں بادی ٔ النظر سنجیدہ نظر آرہا ہے ، اس حوالے سے دوحہ میں بات
چیت کا دوبارہ آغاز اُس زبردست سفارتی سرگرمیوں میں متعدد عہدیداروں نے
پاکستان کا دورہ کیا اور چیف آف اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں
بھی کی، امریکا افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے اور طالبان
تحریک پر افغانستان میں تشدد کم کرنے کیلئے دباؤ ڈالنے کے حوالے سے پاکستان
کے کردار کو اہم ترین سمجھتا ہے۔پاکستانی عسکری قیادت واضح کرچکے ہیں کہ
افغانستان میں امن عمل پر تعطل ختم کرنے کی کوششیں مثبت انداز سے آگے بڑھ
رہی ہیں۔ یو ایس سینٹرل کمان کے سربراہ جینرل کینتھ ایف مکینزی، افغانستان
کیلئے روس کے ایلچی ظمیر کابلوو اور قطر کی وزارتِ خارجہ کے خصوصی ایلچی
ڈاکٹر مطلق بِن ماجد ال قہتانی اسلام آباد کا دورہ کرچکے ہیں جب کہ افغان
صدر اشرف غنی کے خصوصی ایلچی عمر داؤدزئی،بھی اسلام آباد پہنچے۔اس سے قبل
افغان عسکری کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ولی مسعود بھی اسلام آباد
کا دورہ کرچکے ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ جب تک امن عمل میں تمام افغان
قومیتوں کی نمائندگی نہیں ہو گی۔ اس میں کسی پیش رفت کی توقع نہیں ہے۔ان کا
کہنا ہے کہ جب افغانستان میں امن کی بات کی جاتی ہے تو اس کے لیے تمام
افغان لوگوں کا اتفاق رائے ضروری ہے۔ ایسا کوئی اتفاق رائے موجود نہیں
تھا۔ان کے بقول افغانستان میں پائیدار امن کے لیے ایک جامع عمل وضع کرنا ہو
گا۔احمد ولی مسعود کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ایک ایسے طریقہ کار کے لیے
کام کرنا ہو گا جس کے ذریعے افغانستان میں امن کا حصول کا مقصد حاصل کیا جا
سکے۔
ضروری ہے کہ امریکی انتظامیہ اپنے فوجی انخلا سے قبل دوحہ معاہدے کے مطابق
عمل درآمد کو یقینی بنائے اور خانہ جنگی کے خطرات کو دور کرنے کے لئے مثبت
کردار ادا کرے ۔ اشرف غنی ، تمام افغان اسٹیک ہولڈرز کے مطالبات کو سنجیدگی
سے جائزہ لیں کہ اگر نظام و انصرام سے جاری تشدد میں کمی و جنگ بندی ممکن
ہو رہی ہے تو اقتدار کے بجائے انسانی زندگیوں و لاکھوں مہاجرین کی وطن
واپسی کے لئے قربانی دینا مہنگا سودا نہیں ہوگا۔
|