وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا ، اسی طرح زندگی کا رشتہ
جہان فانی سے کب ٹوٹ جائے ، اس کا علم بھی کسی کو نہیں ، لیکن دل میں یادیں
اور دماغ پر اپنوں سے بچھڑنے کا غم کو جاتا نہیں ، بہت درد و تکلیف کے ساتھ
تاحیات رہتا ہے ، 11مارچ 2020 وہ دن تھا جب میری اکلوتی بہن مجھ سے ملے
بغیر روٹھ کر اس دنیا میں ہم سب کو تنہا کرکے اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ،
یقینی طور پر میں اس اَمر پر متفق ہوں کہ جس کا وقت پورا ہوجاتا ہے وہ
بارگاہ الہی کے سامنے پیش ہوتے ہوئے اپنے پرائے سب کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے
۔ میری سب سے چھوٹی اکلوتی بہن اپنے شہید شوہر کے پاس جاتے ہوئے اپنے
سوگواران میں تمام رشتے داروں اور اپنے بچوں کو رلاتی چلی گئی ، میرا
روزانہ اُس قبرستان کے سامنے سے سفر ہوتا ہے جہاں میرے دل کا درد منوں مٹی
تلے دفن ہے ، مجھے نہیں معلوم کہ عالم برزخ میں کس حال میں ہوگی ، لیکن اس
کی ہر پل تڑپاتی یاد دل میں کسک اور آنکھوں سے بہتے آنسو ، مجھے یقین دلاتے
ہیں کہ وہ بے شک ہماری نظروں سے دور ہے لیکن وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح ہم سب
کو یاد کررہی ہے ، کیونکہ جب دل سے کسی کو یاد کیا جائے تو دوسرے کو محسوس
ہوتا ہے کہ کوئی اُس کے موجودگی کا احساس دلا رہا ہے۔
زندگی میں رب تعالی نے ہر آزمائش سے گذارا ہ اور رب تعالی کا لاکھ لاکھ شکر
کہ اُس نے وہ بھی دیا ، جس کی خواہش بھی نہیں کی تھی ، شاید آزمائش ہوگی ،
ہم گناہ گار بندے معافیاں مانگ کر پھر اپنی دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں اور جب
چوٹ پہنچتی ہے تو اپنے خالق کو یاد کرکے پھر اس کی مدد کے طلب گار ہوتے ہیں
، میں موت کو کئی بار بہت قریب سے دیکھ چکا ہوں ، لیکن موت کی اس کیفیت میں
اس وقت اُس طرح دل نہیں تھمتا ،بہن کی تصویر ، اس کی ویڈیو ، اس کے ساتھ
گذرا ہر لمحہ جب بھی سامنے آتا ہے تو نہ جانے کیوں ایک درد سا اٹھ جاتا ہے
، کہ اُس نے ابھی اتنی دنیا دیکھی بھی نہیں تھی ، اُس نے تو اپنے شوہر کی
شہادت کے بعد بھی سر پر سفید چادر رکھ کر اﷲ تعالی کی مرضی پر صابر تھی ،
اتنے جلدی جانے کی ضرورت کیا تھی ، ابھی تو جانے والی صف میں وقت تو ہمارا
تھا کہ بہت کچھ اچھا بُرا دیکھ لیا ، موت کے سائے تک تو اپنے قریب آتے دیکھ
کر، واپس جاتے بھی دیکھ لیا ، تو اس کا گلہ کس سے کروں کہ میری بہن واپس
آجاتی تو ہماری دنیا میں کمی واقع تو نہ ہوتی ، اس کے جان لیوا مرض کا بھی
علاج ہوا، ہم گناہ گاروں نے دعائیں بھی کیں کی لیکن مشیت ایزدی کے سامنے
کون فتح مند ہوا ہے۔
بہت بڑی غلط فہمی ہوتی ہے کہ مرد ذات بڑا سخت اور رونے والا نہیں ہوتا ،
ایسا نہیں ہے ، ایک بھائی ، باپ اپنی اولاد و محبت کرنے والوں کے لئے بہت
کمزور ہوتا ہے ، شیشہ بھی اتنا نازک نہیں ہوتا ، جتنا مرد ہوتا ہے ۔ میں
موت سے نہیں ڈرتا کیونکہ اس کا برحق ہونا میرا یقین ہے ، لیکن بشری خامیوں
کی وجہ سے خوف زدہ ہوں کہ وہ جتنے اونچے درجے پر ہوگی ، رب کے دربار میں اس
سے مل پاؤں گا یا نہیں ، میں جانتا ہوں کہ اس کے جانے کا درد ، جاتے جاتے
جائے گا ، لیکن اس دماغ و دل کا کیا علاج کروں کہ اب بھی یہ تسلیم کرنے کو
تیار نہیں کہ وہ ہمیں چھوڑ کر جا چکی ہے۔
کانوں میں اب بھی اُس کی آواز گونجتی ہے کہ قادر بھائی ،قادر بھائی ، مجھے
بہت تکلیف ہورہی ہے ، بہت درد ہورہا ہے ، مجھ سے بیٹھا نہیں جارہا ، مجھ سے
ایک لقمہ حلق سے نہیں اتر رہا ، بھائی تم دَم کردو ناں ، میری تکلیف کم
ہوجائے گی ، میں قرآن کریم کی چند سورۃ تلاوت کرلیتا کہ اُسے آرام مل جائے
، اُسے قرآن سننے سے آرام ملتا ، جب بھی تکلیف ہوتی تو پھر پکار اٹھتی کہ
بھائی ، بہت تکلیف ہے ، کچھ کرو ناں ، میں بے بس بھائی ، ایک کمزور شخص کیا
کرسکتا تھا ، اُس کا علاج اچھے سے اچھے ڈاکٹر کررہے تھے ، لیکن مرض کم ہونے
کے بجائے بڑھتا چلا جاتا ، میرے ہاتھ میں اتنی قوت ہوتی ، اُس کا سارا درد
خود کو منتقل کردیتا ، لیکن ایسا ہوتا کب ہے ، ایک برس بیتنے کے باوجود آج
بھی رات کے اس تاریک پہر میں اُس کی آواز مجھے سونے نہیں دے رہی کہ قادر
بھائی ، قادر بھائی میرے لئے دعا کرنا ، میں بہن کو اپنی ماں کا درجہ دیتا
تھا گو کہ، مجھ سے کئی برس چھوٹی تھی ، لیکن اُس کو ہم سب باجی کہتے تھے ۔
میری باجی اس طرح روٹھی کہ اس بار میرا التجا بھی نہیں سنی ، مرنے والوں کے
ساتھ مرا نہیں جاتا ، لیکن کہیں پڑھا تھا کہ جب قبرستان سے واپس ہوتے ہیں
تو ایک فرشتہ قبر کی مٹی جانے والوں پہ پھینک دیتا ہے تاکہ اس جھوٹی وتلخ
دنیا میں ہم بھول جائیں ، کیا وہ خاک مجھ پر نہیں پڑی ، جذبات کی شدت کا
غلبہ ہورہا ہے ، اپنے رب سے بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں ، لیکن اُس کی ناراضگی
سے بھی ڈر لگتا ہے ، نہیں میں زیادہ کچھ نہیں کرسکتا صرف رو سکتا ہوں ، میں
اپنے جسم پر لگے زخم و درد کو برداشت کرسکتا ہوں ، لیکن دل کے اس درد کو
کیا نام دوں ، اُسے کس طرح برداشت کروں ، بس یہی دعا کرتا ہوں کہ مجھے صبر
دے تاکہ میں کمزور نظر نہ آؤں ،دنیا داری میں خود کو مضبوط درخت کی طرح
تناور سمجھ کر خود کو دھوکا دینے کی سعی کرتا ہوں ، لیکن ناکام ہوجاتا ہوں
۔
روٹھنے والے مان جاتے ہیں ،ناراض احباب رشتے داروں کو منایا جاسکتا ہے لیکن
دنیا سے جانے والوں کو کبھی واپس نہیں لایا جاسکتا ، یہ احساس آج بھی مجھے
کھوکھلا کیا جارہا ہے کہ زندگی کے اُس سفر میں جانے سے قبل چند ساعتوں کے
لئے، بہن سے مل پاتا ، شاید ہم سب کی آہ و زاری سے ملک الموت کا دل پسیج
جاتا ، لیکن کارخانہ زندگی کے اُس پرزے کی طرح ہوں کہ قادر بھائی کچھ نہ
کرسکا ۔ میری باجی چلی گئی۔
|