خوشیاں کیسے ملتی ہیں؟

روز ازل سے ابد تک کچھ فیصلے اٹل ہیں،کچھ تصویریں مکمل اور کچھ نامکمل ہیں،کچھ رویے بولتے ہیں کچھ صرف محسوس ہوتے ہیں،کچھ باتیں طے ہیں اور کچھ کی گتھی سلجھائی جا رہی ہے۔ان سب حالات،واقعات اوروسائل کے اندر رہ کر ایک انسان کواپنی زندگی گزارنا ہوتی ہے۔اگر ہم آفاقی اور زمینی حقیقتوں کو سمجھ جائیں گے تو کامیاب ورنہ ناکام کہلائیں گے۔یاد رہے کہ کامیاب لوگ یکسانیت کو پسند نہیں کرتے بلکہ وہ ہمیشہ بہتری والی تبدیلی پسند کرتے ہیں۔اُن کی ساری زندگی عمل پیہم،جدوجہد اور مسلسل کاوش سے عبارت ہوتی ہے۔ اُن کے نزدیک ٹھہراؤ اور جمود،موت کا دُوسرا نام ہوتا ہے۔زندگی کے بیش قیمت لمحات کے بحر بے کراں سے گوہر یکتا نکالنے والے یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو تپتے صحراؤں میں بھی گھنے تناور درخت اُگاتے ہیں ۔جیسا کہ کسی نے کیا خوب کہا ہے ’’انسان چاہے تو اُس کی ہمت کے سامنے پہاڑ بھی کنکر ہے،نہ چاہے تو رائی بھی پہاڑ ہے‘‘۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لیے وہ محنت کرتا ہے‘‘۔ چنانچہیہ بات ذہن میں رہے کہ دنیا میں دوسروں کا خیال کرنے والے اور دوسروں کے لیے جینے والے ہی لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں کیونکہ اجتماعی سوچ انسانی معاشروں کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے ۔وہ جو کسی بابے نے کیا خوب کہا ہے’’کر بھلا ،سُو ہو بھلا‘‘۔ اس بات کو ایسے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک بار پچاس سے زائد لوگوں کے گروپ نے ایک سیمینار میں شرکت کی۔ کافی دیر سے لیکچر جاری تھا کہ مقرر اچانک خاموش ہوگیاپھر اُس نے بتایا کہ سب لوگ اگلے مرحلے میں ایک نئی ایکٹیویٹی کریں گے۔ اس ایکٹیویٹی کے آغاز میں ہال میں موجودسب لوگوں کو ایک ایک غبارہ دیا گیااور ہدایت دی گئی کہ وہ ہاتھمیں پکڑے غبارے پر مارکر کی مدد سے اپنانام لکھیں۔جب سب نے غباروں پر اپنااپنا نام لکھ لیاتو ایک فرد نے سب غبارے اکٹھے کر کے ساتھ والے ایک دوسرے کمرے میں رکھ دئیے۔اس سارے عمل کے مکمل ہونے کے تھوڑی دیر بعد مقرر نے اعلان کیا کہ اب سب لوگ غباروں والے کمرے میں جا کر پانچ منٹ میں اپنا اپنا غبارہ ڈھونڈیں اور لے کر واپس آ جائیں۔سب لوگ بدحواسی میں ہال سے باہر نکل کر کمرے کی طرف بھاگے اور افراتفری میں جا کر کمرے میں ادھر اُدھراپنے نام کا غبارہ تلاش کرنے لگے۔اس ساری کوشش اور تگ و دو میں کچھ لوگوں کوتو اپنے نام کے غبارے مل گئے مگر وقت کی قلت کے احساس اور افراتفری کے سبب اکثریتی لوگوں کے ناموں والے غبارے ایک دوسرے کے پاؤں تلے آ کر پھٹ گئے یوں اکثر لوگ ہال میں ناکام لوٹ آئے۔ہال کی انتظامیہ کی طرف سے ایک بار پھر سب لوگوں کو نئے غبارے مہیا کیے گئے اور نام لکھنے والا عمل پھر سے دُہرایا گیا۔پہلے کی طرح سب غبارے اکٹھے کر کے ایک اور کمرے میں رکھ دیئے گئے لیکن اب کی بار پلان میں ایک بنیادی تبدیلی کی گئی تھی چنانچہ مقرر کی طرف سے کہا گیاکہ اس دفعہ ہر شخص کوئی بھی ایک غبارہ لائے گا اور واپس ہال میں آ کر غبارے پر لکھے ہوئے نام کے مطابق دوسرے لوگوں کے حوالے کر دے گا۔ جب اس پلان پر عمل کیا گیاتو حیرت انگیزطور پر فقط چند منٹوں میں سب لوگوں کے پاس اپنے اپنے نام والے غبارے تھے اور اس بار کوئی ایک بھی ناکام نہیں ہوا تھا۔ اس موقع پرمقرر نے سب کو دُوبارہ مخاطب کیا اور کہا’’بالکل اسی طرح ہماری زندگی ہے ہم بد حواسی میں اپنی خوشیاں ڈھونڈتے ہیں۔اس افراتفری اورنفسا نفسی کے عالم میں ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ کب ہم دوسروں کی خوشیاں اپنے قدموں تلے کچل دیتے ہیں ۔یوں فقط اپنی کامیابی اور نفع کی خاطردوسروں کے لیے ضرر کا سامان پیدا کر دیتے ہیں۔ اپنے لیے آسانیاں ڈھونڈتے ہوئے دوسروں کے لیے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیتے ہیں ۔ہم لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ حقیقت میں ہماری خوشیا ں دوسروں کی خوشیوں کے ساتھ وابستہ ہیں اگر ہم دوسروں کو اُن کی خوشیاں دے دیں تو ہمیں بآسانی ہمارے حصّہ کی عزت اور خوشیاں مل سکتی ہیں اور دیکھا جائے تو رب العالمین نے اس خاک کے انسان کو اسی بات کی تلقین کی ہے۔ کسی کے لیے اپنی جگہ خالی کرنا،کسی مصیبت زدہ کی دل جوئی کرنا،اپنی خوشی کو نظر انداز کرنا ،نفس کے خلاف عمل کرنااور کسی غمگسار کے سر پر ہاتھ رکھنا، اگرچہ لگتا آسان ہے مگر حقیقت میں انتہائی مشکل کام ہے۔ایسا تب ہی ممکن ہو پاتا ہے جب انسان اپنے خالق کی پہچان کر لیتا ہے اور جان جاتا ہے کہ اس فانی دنیا کی طلب محض ایک دھوکہ ہے وگرنہ آگے ایک جہان لافانی منتظر ہے ۔اے نادان انسان ! اب بھی وقت ہے کہ اپنی تخلیق کا مقصد جان لے اور رضائے الہی کو اپنی منشا بنا کر ہمیشہ کی عظمت پا لے ورنہ اس عارضی وقت نے تو گزر ہی جانا ہے جبکہ دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ صدیوں پرانا حضرت انسان عنقریب ہمیشگی والی زندگی کا آغاز کرنے والا ہے۔


 

Imran Amin
About the Author: Imran Amin Read More Articles by Imran Amin: 49 Articles with 30394 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.