اس سال یوم نسواں کے موقع پر اتر پردیش سے یہ خوشخبری
آئی کہ ضلع جونپور کے اڈیشنل سیشن جج( پاسکو )روی یادو نے عصمت دری و قتل
کے جرم میں ایک مجرم کو سزائے موت سنائی اور اوپر سے 10 ہزار روپئے کا
جرمانہ بھی لگایا۔ وطن عزیز میں عام طور پر ایسی سخت سزا نہیں سنائی جاتی
لیکن یہ جرم ہی اتنا گھناؤنا تھا کہ جج کے پاس کوئی چارۂ کار ہی نہیں
تھا۔ استغاثہ کے مطابق ضلع میں مڑیاہوں کوتوالی علاقے میں 6؍ اگست 2020 کو
ملزم بالگوند اپنے سسرال کے کمبھ گاوں میں رہائش پذیر تھا۔ اس درندے نے ایک
11 سال کی بچی کو ٹافی دینے کے بہانے اغوا کرلیا اور اس کے ساتھ عصمت دری
کی۔ اس کی حیونیت یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اس نے نہ صرف بچی کا گلا دبا کر
قتل کیانیز ثبوت مٹانے کی خاطر چہرے پرتیزاب ڈال کر جلا دیا۔ 8؍ اگست کو
بچی کی لاش ے والد نے شکایت درج کرائی مگر صدمہ سے ایک ماہ کے بعد انتقال
کرگیا ۔ ہمارے ملک میں ایسے کئی مغرب زدہ دانشور ہیں جو سزائے موت کو
ظالمانہ فعل قرار دیتے ہیں ۔ ان میں سے اگر کسی میں ہمت ہے تو آگے آئے
بالگوند سے ہمدردی جتائے۔ اس فیصلے کی ایک خوبی یہ ہے کہ ۶ ماہ کے اندر اسے
سنا دیا گیا ۔ اب خدا کرے کہ سزا دینے میں بھی اسی سرعت کا مظاہرہ کیا
جائے۔
یوگی کے اترپردیش میں یہ استثنائی صورتحال ہے ورنہ وہاں خواتین کے ساتھ جس
قدر زیادتی ہوتی کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں ان کا شمار کرنا مشکل
ہورہا ہے۔ ان میں عتاب زدہ خواتین میں اکثریت دلت سماج سے تعلق رکھتی ہیں
لیکن اب تو اس وباء سےنام نہاد اعلیٰ ذات کی خواتین بھی محفوظ نہیں ہے۔
ہاتھرس سے جہاں پچھلے دنوں ایک مظلوم لڑکی کی لاش کو پولس نے اس کے
پسماندگان کی غیر موجودگی میں مٹی کا تیل چھڑک کر جلا دیا تھا ، ایک اور
چونکانے والا واقعہ سامنے آیا ہے ۔ وہاں پر امریش شرما نامی برہمن کو دن
دہاڑے 70سے زیادہ مزدوروں اور بیوی و بیٹی کی موجودگی میں گورو شرما نے
گولیوں سے بھون دیا ۔ وہ اور اس کے سارے ساتھی برہمن تھے ۔ ان میں سے ایک
واسو شرما گرفتار بھی ہوچکا ہے ۔ گورو کی گرفتاری کے لیے سرکار نے پچاس
ہزار کے انعام کا اعلان بھی کردیا۔
امریش شرما ایک بڑا زمیندار تھا ۔ اس نے 100 بیگھا زمین آلو کی فصل لگا
رکھی تھی۔ اس کے پاس 20سال سے کام کرنے والے مزدور جگدیش کا کہنا ہے کہ وہ
رحمدل انسان تھے۔ اسے اپنی بیٹی کی شادی کے وقت 25ہزار کم پڑگئے تو امریش
نے بغیرمانگے50 ہزار روپئے دے دیئے۔ اس موت کے پیچھے چھیڑ چھاڑ کے علاوہ
خواتین کی آپسی رنجش کا بھی دخل ہے۔ قتل کے دن قاتل و مقتول کی خواتین
مندر میں ایک دوسرے ملیں تو کہا سنی ہوگئی اس پر گوروو کے گھر کی عورتیں
مقتول کی بیٹی پارول سے بولیں کہ آج تمہارے باپ کی لاش گرے گی۔ پارول نے
پولس کو فون کرکے اپنے والد کی جان کو لاحق خطرے سے آگاہ کیا لیکن جواب
ملا ہم نہیں آسکتے 112 پر فون کرو۔ پولس تو نہیں آئی مگر امریش کبھی نہ
آنے کے لیے چلے گئے۔ چشم دید مزدوروں کے مطابق قاتلوں نے اندھادھند گولیا
ں برساتے ہوئے کہا مقدمہ واپس نہیں لیا اب مر۔ امریش کا قصور یہ تھا کہ اس
نے گورو کے خلاف اس کی بیٹی کو چھیڑنے کی شکایت پولس میں کردی تھی ۔ اس طرح
گویا اپنی بیٹی کے خلاف ہونے والے مظالم کی شکایت کرنا ایک باپ کے قتل کا
سبب بن گیا ۔ گورو کے سماجوادی اور بی جے پی دونوں سے تعلقات ہونے کے اشارے
ہیں۔
ہاتھرس میں ایک طرف امریش شرما اپنی بیٹی کے لیے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے
اور دوسری جانب اتر پردیش ہی کے شہر ہردوئی میں سرویش نامی ایک سفاک باپ
اپنی ۱۸ سالہ بیٹی کا سرکاٹ کر پولس تھانے میں پہنچ جاتا ہے۔ پولس کے مطابق
اس کے چہرے سے کسی رنج و ملال کا اظہار نہیں ہوتا ۔ وہ اپنی بیٹی کو عاشق
کے ساتھ دیکھ کر اس سے ناراض ہوگیا تھا ۔ دو دن انتظار کے بعد جب بیوی
دوسرے بچوں کے ساتھ کھیت میں کام کرنے کے لیے گئی تو اس نے مو قع دیکھ کر
اپنی 17 سالہ بیٹی کو موت کے گھاٹ اتاددیا۔ اسی طرح کا ایک سانحہ پچھلے سال
فیروز آباد میں رونما ہواتھا جہاں ایک ظالم باپ نے بجلی کا کرنٹ دے کر
اپنی سوئی ہوئی بیٹی کو جگایا اور پھر کلہاڑی سے اس کا سر کاٹ کرازخود پولس
اسٹیشنمیں اقرارِ جرم کرلیا ۔ اس کو اگر قرار واقعی سزا دی گئی ہوتی تو
شاید یہ دوسرا باپ اس طرح کی بزدلانہ جرأت نہیں کرتا لیکن اگر سماج اور
انتظامیہ ایسے لوگوں کو سزا دینے میں سنجیدہ نہ ہو تو ان مظالم کا سلسلہ
کیونکر بند ہوسکتا ہے؟
اس طرح کا ایک دردناک واقعہ راجستھان کے دوسا میں بھی رونما ہوا۔ وہاں پنکی
نامی لڑکی کا اس کے والد نے شادی کے ۱۷ دن بعد قتل کردیا اس لیے کہ وہ روشن
نام کے ایک نوجوان کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی تھی اور اس کے ساتھ جئے پور
چلی گئی۔ پنکج کے باپ شنکر لال سینی نے پولس میں اغواء کی شکایت کی تو پنکی
اور روشن ہائی کورٹ میں حاضر ہوگئے ۔ عدالت نے انہیں تحفظ فراہم کردیا لیکن
جب وہ دوسا میں اپنے روشن کے گھرآئی تو پنکی کی ماں چمیلی سمیت ۶ خواتین
اور دومرد اسے زبردستی اپنے گھر لے گئے ۔ اس کے بعد پنکی کو سمجھانے بجھانے
کے چکر میں شنکر سینی کو غصہ آگیا ۔ اس نے گلا دبا کر اپنی بیٹی کو
مارڈالا اور پولس تھانے میں جاکر کہہ دیا کہ وہ لاش کو اپنے قبضے میں لے کر
آگے کی کارروائی کرے ۔ اس قتل میں باپ کے علاوہ ماں کا بھی بلاواسطہ حصہ
ہے اور عدالت کی ناکامی بھی ہے کہ اس کی یقین دہانی کے باوجود پنکی کی جان
چلی گئی ۔ اس طرح کے واقعات سے عدلیہ سبق لینے کے بجائے عجیب و غریب فیصلے
کرتی ہے ۔
مہاراشٹر کے ایک سرکاری ملازم موہت سبھاش چوہان کا معاملہ فی الحال عدالتِ
عظمیٰ میں زیر سماعت ہے ۔ اس نے ۶ سال قبل ایک نابالغ کی آبروریزی کی اور
اس کی بیوہ والدہ سے تحریری وعدہ کیا کہ بالغ ہوجانے پر بیاہ کرے گا لیکن
پھر کسی اور سے شادی رچالی ۔ اس کو اگر ابھی گرفتار کرلیا جائے تو وہ
ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اس لیے پیشگی ضمانت کے لیے اس نے عدالت عالیہ
سے رجوع اور وہاں سے ناکامی کے بعد عدالت عظمیٰ کے دروازے پر دستک دی ۔
ایسے میں اس ظالم کو سزا دینے کے بجائے چیف جسٹس بوبڈے نے ایک عجیب و غریب
پیشکش کردی ۔ انہوں نے کہا:’’ اگر آپ شادی کے لیے تیار ہیں تو ہم آپ کی مدد
کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر نہیں کر سکتے تو آپ کو اپنی ملازمت کھونی پڑے گی اور
جیل جانا ہو گا۔ آپ نے لڑکی کو جنسی تعلق کے لیے ورغلایا اور اس کی عصمت
دری کی ہے۔‘‘ قاضیٔ اعظم کی اس احمقانہ سوال پر چار ہزار سے زیادہ خواتین،
طلبہ، وکلا، فلم سازوں اور ممتاز شہریوں نے احتجاج جتاتے ہوئے کہا کہ اس
تبصرے کے ذریعہ یہ پیغام دیاگیا ہے کہ ملک میں انصاف خواتین کا آئینی حق
نہیں ہے۔ اس سے ریپ کرنے والوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ شادی ریپ کا لائسنس
ہےاور اس کے ذریعے عصمت دری کے جرم کو قانونی شکل مل سکتی ہے۔
یہ سب لوگ چیف جسٹس اے ایس بوبڈے سے اپنا تبصرہ واپس لینے اور مستعفی ہونے
کا مطالبہ کررہے ہیں ۔خیرموجودہ نظام میں اس امکان نہیں ہے لیکن جب عدلیہ
کا یہ رویہ ایسا ہوتو بھلا خواتین کو انصاف کیسے ملے گا؟ ایسا لگتا ہے کہ
عدلیہ کسی خیالی دنیا میں جی رہا ہے اور اس کو زمینی حقائق کا علم نہیں ہے۔
اسی ہفتہ راجستھان کے ہنومان گڑھ میںپردیپ بشنوئی کو عصمت دری کے الزام میں
دو سال بعد ضمانت ملی۔ اس کے بعد اس نے پہلا کام یہ کیا کہ سیدھا لڑکی کے
پاس گیا جوشادی کے بعد اپنےشوہر سے ناچاقی کے سبب نانی کے گھر میں رہ رہی
تھی۔ دیوار پھاند کر گھر میںداخل ہونے کے بعد اس نے نانی کو رسی سے
باندھااور اس کے سامنے مٹی کا تیل ڈال کر نواسی کو زندہ جلا دیا ۔ ۹۰فیصد
جلی ہوئی خاتون اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ ایسے میں
بوبڈے صاحب کے سامنے اگر موہت اپنی ملازمت بچانے کے لیے اس لڑکی سے بیاہ
رچا لے تو اس کو بشنوئی بننے سے کون روکے گا ؟ کیا ان کا رشتہ ازدواج عائشہ
اور عارف سے مختلف ہوگا؟
ان واقعات کو پڑھنے کے بعد انسان کی روح کانپ جاتی ہے ۔ ایسا لگنے لگتا ہے
کہ ہم انسانوں کے نہیں بلکہ درندوں کے سماج میں جی رہے ہیں۔ اس ظلم و جبر
کا سنجیدگی سے علاج کرنے بجائے سرکار ان کی جانب توجہ ہٹانے والے نت نئے
حربے استعمال کرتی ہے۔ ان میں سے ایک مورفین کا انجکشن لو جہاد کا قانون ہے
۔ عوام کو ایک فرضی اطمینان دلا دیا جاتا ہے حالانکہ ان سارے واقعات میں
ظالم مردوں کا تعلق ہندو سماج سے ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن ہندو
خواتین نے مسلمانوں سے شادی کی ان کی جانب سے کوئی شکایت سامنے نہیں آئی۔
ان لڑکیوں نے اپنے والدین کے مقابلے شوہر کے ساتھ رہنے کو پسند کیا کیونکہ
ان کے ساتھ خاوند اور سسرال والوں کا سلوک احسن تھا لیکن حکومت میں یہ
تسلیم کرنے کی جرأت نہیں ہے۔کچھ اور لوگوں کے نزدیک اس مسئلہ کا حل علامتی
طور پر یوم خواتین منا لینا ہے حالانکہ اس سے بھی کوئی خاص فاہدہ نہیں ہوتا
۔ اس کے پائیدار حل کی خاطر خواتین کو دین اسلام کے متعین کردہ حقوق سے
نوازنا ہوگا اور اس بابت نبی کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔
|