جہالت اور جمہوریت کا اسی طرح ہی چولی دامن کا ساتھ رہا
تو ہر دفعہ سات کا فرق اپنا کمال دکھاتا رہے گا۔ کبھی گیلانی اور کبھی
سنجرانی، جیتے گا وہی جو صاحب کمال ہو گا۔ جمہوریت تو ٹسوے بہانے کے لئے رہ
جائے گی۔ہر پارٹی دوسرے پر الزام تو لگائے گی مگر اپنے گریبان میں کوئی
جھانکنے کو تیار نہیں ہو گا۔پارٹیاں بھی کیا ہیں، بس ایک فیملی لمیٹڈ کمپنی
ہے جس کے عہدے دار تو گھر کے لوگ ہی ہوتے ہیں ، باقی بس لیڈر ہیں۔ وہ بھی
کیسے بڑے بڑے اصولی لیڈر ہیں جو اپنی صداقت اور امانت کی قسمیں کھاتے ہیں،
پارٹی کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں مگر اپنے پارٹی لیڈر کی کسی
برائی، کسی خامی اور کسی بد دیانتی کی طرف ان کی نظر نہیں اٹھتی۔جمہوریت
میں تو گنتی ہے جو کسی بھی چیز کو برتر قرار دیتی ہے اور وہ آپ کی سوچ ہے
جو برتر کی جستجو کرتی اور اس کے حق میں فیصلہ کرتی ہے۔ مگر پارٹی کے
معاملے میں سوچ کہاں جاتی ہے۔امریکہ میں ہاتھی اور گدھا تو علامتی لیڈر ہیں
۔ ہمارے ہاں تو عملی گدھا بھی اگر لیڈر ہو تو بڑے بڑے دانشوروں کی دانشوری
بھک سے اڑ جاتی ہے اور وہ لیڈر کے سامنے سجدے میں پڑے ہوتے ہیں۔ افسو س فقط
افسوس ہی کیا جا سکتا ہے اس دورنگی اور منافقت پر۔ اصول تو یہ ہے کہ اگر آپ
اصولی ہیں تو آپ کا اصول، آپ کا ضمیر اور آپ کے جذبے ہر حال میں زندہ
ہیں۔وہ کسی حالات اور اشخاص کے محتاج نہیں۔آپ کے لیڈروں کا انتخاب میرٹ پر
نہیں، وراثت پر ہوتا ہے۔ ذہنی طور پر لنگڑا، لولا، اندھا ، کانا سب چلتے
ہیں شرط فقط فیملی ممبر ہونا ہے۔ بات صرف اور صرف حوالے کی ہوتی ہے۔مغرب کے
عظیم سیاسی مفکر میکس ویبر نے کہا ہے کہ سیاست میں دو بڑے گناہ ہیں۔ ایک
حقیقت پسندی کا فقدان اور دوسرا فیصلوں کے نتائج کی ذمہ داری نہ قبول کرنے
کا رحجان۔شاید ہمارے ملک میں یہ دونوں رحجان پوری طرح پائے جاتے ہیں۔ہم
حقیقت کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے اور نتائج تو صرف وہی قبول کرتے
ہیں جن کو ہمارا لیڈر تسلیم کر لے ۔
مغرب میں جمہوریت بہت کامیاب ہے۔ وہاں ان کے لیڈر کے تن پر جو لباس ہے اگر
اس پر ایک ہلکا سا دھبہ بھی نظر آئے تو وہاں کے عوام اس لیڈر کو کسی صورت
معاف نہیں کرتے۔اس ہلکے سے دھبے کو اس قدر اچھالا جاتا ہے کہ وہ شخص سیاست
سے ہمیشہ کے لئے تائب ہو جاتا ہے۔ان ملکوں میں جب جمہوریت کی ابتدا ہوئی
تھی تو اس وقت بھی لوگوں میں شعور تھا۔ اچھے برے کا احساس تھا۔اپنے حق کے
لئے لڑنے کی ہمت تھی۔ فریڈرک II، 1740 سے 1786 تک کل 46 برس پروشیا کا
حکمران رہا۔ وہ ایک جنگجو اور دبنگ حکمران تھا جو عظیم فریڈرک کے نام سے
جانا جاتا ہے۔ اس کے محل کے ساتھ ایک پن چکی تھی۔ چکی کے شور کے سبب فریڈرک
کا سونا مشکل تھا۔ اس نے چکی کے مالک کارلینیوس ویلہم سے بات کی کہ اس چکی
کو وہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل کر لے۔ کالینیوس نے انکار کر دیا تو فریڈرک
نے اسے کہا کہ جانتے ہو میں بادشاہ ہوں اور زبردستی تمہیں یہاں سے اٹھا
سکتا ہوں۔ کالینیوس نے ہنس کر جواب دیا کہ ہاں اگر اس ملک میں سپریم کورٹ
نہ ہو تو یہ ممکن ہے۔ وہ چکی آج بھی جمہوریت اور انصاف کی علمبردار کے طور
پر پروشیا کے اس پرانے محل کے پہلو میں برلن میں موجود ہے۔ برلن اس وقت
پروشیا کا دارالحکومت تھا۔یہی وہ انصاف تھا جس نے جدید یورپ کے ابتدائی
دنوں میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے لئے راہ ہموار کی۔
جہاں تک کورٹس کا تعلق ہے ،ہمارے ملک کی طرح ،دنیا میں جہاں بھی ہمارے جیسی
لولی لنگڑی نام نہاد جمہوریت ہے وہاں عام طور پر انصاف پر ریاست کی اجارہ
داری رہی ہے۔ وہاں انصاف کا پورا نظام طبقاتی ہے۔ حکومتی اور امرا کے کیس
کی شنوائی تو فوری ہو جاتی ہے۔ عام آدمی اگر کسی صورت انصاف خرید لے تو
ٹھیک وگرنہ اسے ایک لمبے عرصے انتظار کرنا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود انصاف
کا حصول یقینی نہیں ہوتا۔مگر یورپ اور اس کے زیر اثر ممالک نے جمہوریت اور
انصاف کو یوں یک جان کر دیا ہے کہ سماجی انصاف، جنسی انصاف ، نسل پرستی،
بینالنسلی امتیاز اور حکومت کے ذاتی معاملات بھی انصاف کے دائرہ کار میں آ
گئے ہیں۔وہاں کا میڈیا بھی بہت متحرک ہے اور چیزوں کی نشاندہی میں کوئی
کوتاہی نہیں دکھاتا ۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے دس بیس سالوں میں کرپشن کے ایسے
سینکڑوں کیس منظر عام پر آئے جنہوں نے دنیا بدل کر رکھ دی۔ پانامہ، یوکرائن
کے اربوں کی رقم، سپین اور ونزویلا کے کرپشن کیسز ، مالدیپ کا سیاحتی فراڈ،
ساؤتھ افریقہ میں گپتا فیملی کا عظیم فراڈ، یہ سب چیزیں جمہوریت ہی کے
پنپنے سے ہی ممکن ہوئی ہیں۔
ایک مفکر نے کہا ہے کہ جمہوریت حکومت کی وہ شکل ہے جس کے بڑے بڑے اصولوں کا
مقصد باہم دست و گریبان ہوئے بغیر سماجی تنازعات کو حل کرنا ہوتا ہے۔سادہ
سی بات ہے کہ جمہوریت میں سر گنے جاتے ہیں کاٹے نہیں جاتے۔ جہاں سر کاٹے
جاتے ہیں وہ جمہوریت نہیں ہو سکتی۔ ہم نے آج تک کوئی مسئلہ بھی آپس میں
لڑائی جھگڑے کے بغیر حل نہیں کیا ، مگر دعویٰ یہی ہے کہ ہم جمہوری لوگ ہیں
اور جمہوریت کے فروغ کے لئے کام کرتے ہیں۔
|