حقوقِ اَولاد و فرائضِ والدین !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالاَسرٰی ، اٰیت 31 تا 40 ازقلممولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
لا تقتلوا
اولادکم خشیة
املاق نحن نرزقھم
وایّاکم ان قتلھم خطا
کبیرا 31 ولاتقربواالزنٰی انہ
کان فاحشة وساء سبیلا 32 ولا
تقتلواالنفس التی حرم اللہ اِلّا بالحق
ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہٖ سلطانا
فلا یسرف فی القتل انہ کان منصورا 33 ولا
تقربوا مال الیتیم اِلّابالتی ھی احسن حتٰی یبلغ
اشدہ واوفوا بالعھد ان العھد کان مسؤلا 34 واوفوا
الکیل اذاکلتم وزنوا بالقسطاس المستقیم ذٰلک خیر و
احسن تاویلا 35 ولا تقف مالیس لک بہٖ علم ان السمع و
البصر والفؤاد کل اولٰئک کان عنہ مسؤلا 36 و لا تمش فی
الارض مرحا انک لن تخلق الارض ولن تبلغ الجبال طولا 37
کل ذٰلک کان سیئہ عند ربک مکرو ھا 38 ذٰلک مما اوحٰٓی الیک
ربک من الحکمة ولا تجعل مع اللہ الٰھااٰخر فتلقٰی فی جھنم ملوما
مدحورا 39 افاصفٰکم ربکم بالبنین واتخذ من الملٰئکة اناثا انکم لتقولون
قولا عظیم 40
اے اَولادِ آدم ! اللہ تعالٰی نے مُتذکرہ بالا فیصلوں کی طرح یہ فیصلہ بھی صادر فرما دیا ھے کہ تنگ دستی سے تنگ آکر اپنے اہل و عیال کے ساتھ زور آزمائی نہ کیا کرو ، کیونکہ اُن کے لیۓ بھی ھم اسی طرح روزی رسانی کا اہتمام کرتے ہیں جس طرح تُمہارے لیۓ کر تے ہیں ، یاد رکھو کہ روزی کے لیۓ اپنے عیال سے زور آزمائی کرنا انسان کی خطاؤں میں سے ایک بڑی خطا ھے ، اللہ کے اَحکام میں بگاڑ پیدا کرنے والے کام اور مقام سے دُور رہو کیونکہ اللہ کے اَحکام کو بگاڑنے کا عمل انسان کے لیۓ حق سے دُور ہونے اور باطل سے قریب ہونے کا عمل ھے اور یہ وہ بُرا عمل ھے جو انسان کو ایک بُرے را ستے کے بعد دُوسرے بُرے راستے پر چلاتا چلا جاتا ھے اور اللہ کے اَحکام میں یہ حُکم بھی بہت اھم ھے کہ کسی جاندار جسم کو اُس کی جان سے محروم نہ کیا جاۓ ، سواۓ اِس کے کہ کسی انسان نے اپنے اِس کام کے لیۓ قانونی حق حاصل کر لیا ہو اور زمین پر جو جان بھی مظلُومانہ موت ماری جاۓ گی تو اُس جان کے لیۓ تُم سے دلیل اور جواز کا مطالبہ کیا جاۓ گا کہ کس جسم کو تُم نے کس کی اجازت اور کس کے اختیار کے ذریعے اُس کی جان سے جُدا کیا ھے اور اگر کوئی شخص ایسا کرے گا تو اُس ملک کے حکام اور اُس کے فعال قانونی ادارے اُس شخص سے باز پرس کرنے کے ذمہ دار ہوں گے اور تُمہارے لیۓ جو اخلاقی و معاشرتی ھدایات جا ری کی جا رہی ہیں اُن ھدایات میں یہ ھدایت بھی شامل ھے کہ تُم یتیموں کے ساتھ یتمیوں کے مال و منال کی وجہ سے تعلقِ خاطر قائم نہیں کرو گے بلکہ اُن کے ساتھ تُم اپنا ہر رشتہ اُن کی تربیت اور کفالت کی غرض سے اُستوار کرو گے ، اگر تُم یتیموں کے مال میں اپنی کوئ حصہ داری رکھنے اور اُن سے کسی مالی منفعت کی کوئی آس لگاۓ بیٹھے ہو تو پھر اِس غرض کے لیۓ تُم اُس وقت کا انتظار کرو جب تُمہاری کفالت میں آنے والے کمسن بچے عاقل و بالغ ہو کر تُم سے براہِ راست اپنے مالی معاملات طے کرنے کے قابل ہو جائیں اور اسی طرح یتیموں کے مال کے بارے میں تُم نے معاشی طور پر کُچھ اَفرادِ معاشرہ کے سامنے اُن کی تربیت و کفالت کے جو معاھدے قائم کر رکھے ہیں اُن کی بہر صورت تُم نے پاسداری کرنی ھے کیونکہ اُن معاھدوں کے بارے میں تُم سے باز پرس کی جاۓ گی اور اسی طرح جب تُم مالِ مُتبدل کا مالِ مُتبدل کے ساتھ یا مالِ مُتبدل کا زَرِ مُتبدل کے ساتھ لین دین کرو تو ترازُو کے بنے ہوۓ تول اور زبان کے دیۓ ہوۓ قول میں انصاف کے تقاضے پُورے کرنے کے لیۓ ناپ کے پیمانے ، تول کے باٹ اور قول کی آبرُو میں بال برابر بھی فرق نہ آنے دو ، تُمہارا یہ عمل تُمہارے آغازِ تجارت اور اَنجامِ تجارت دونوں کے لیۓ خیر و برکت کا باعث ہو گا ، اَجنبی مجالس ، اَجنبی مقامات اور اَجنبی مکانات میں رُکنے اور ڈیرے ڈالنے سے اجتناب کرو ، کیونکہ تُم سے تُمہارے کانوں سُنی بات ، آنکھوں دیکھے مُشاھدات اور دل سے گزرے احساسات تک کے بارے میں بھی پُوچھا جاۓ گا ، زمین کو گمھنڈی انداز میں روندتے ہوۓ چلنے سے احتراز کرو کیونکہ تُمہاری یہ مُتکبرانہ چال نہ تو زمین کی پستی میں کوئی بھونچال لا سکتی ھے اور نہ ہی پہاڑوں کی بلندی میں کوئی اضمحلال پیدا کر سکتی ھے ، یہ تمام بُری عادات جن کا ذکر کیا گیا ھے اللہ کی نظر میں ہمیشہ سے ناپسندیدہ رہی ہیں اور ہمیشہ ہی ناپسند رہیں گی ، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کا جو پیغام ھم نے تُم کو دیا ھے یہ ھمارے مِن جُملہ اِحکامِ حکمت میں سے ایک حکیمانہ حُکم ھے اور اِس حُکم کا حاصل یہ ھے کہ جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کیا ھے وہ اپنے اِس ناپسندیدہ عمل کی ناپسندیدہ سزا بُھگتنے کے لیۓ ایک ناپسندیدہ اور تکلیف دہ جہان میں داخل کیۓ جاچکے ہیں ، جو لوگ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے کر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اُن عقل دُشمنوں سے تُم یہ تو پُوچھ ہی سکتے ہو کہ آخر اِس اَمر کی تُمہارے پاس کیا دلیل ھے کہ اللہ نے بیٹے جنم دینے کے لیۓ تُمہارا اور بیٹیاں پالنے کے لیۓ اپنا انتخاب کیوں کرلیا ھے ، سوچو کہ تُم اتنی بڑی بات کسی دلیل کے بغیر کس طرح اپنے مُنہ سے نکال ر ھے ہو !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اہلِ عرب کا قول "کل شئی یرجع الٰی اصلہٖ" ایک معروف قول ھے اور اِس معروف قول کا مفہوم یہ ھے کہ جُملہ اَشیاۓ عالَم ، جُملہ اَجزاۓ عالَم اور جُملہ اَفرادِ عالَم عُمر بھر اپنی اَصل کی تلاش میں رہتے ہیں اور عُمر بھر اپنی اَصل کی طرف ہی بھاگتے رہتے ہیں ، عملی دُنیا میں اِس کی پہلی زندہ مثال اُس مرد کی ذات ھے جو عورت کے وجُود سے اپنا وجُود لے کر زمین پر آتا ھے اور پھر عُمر بھر اِس کا وجُود عورت کے وجُود کا طواف کرتا رہتا ھے ، اِس کی دُوسری زندہ مثال اُس عورت کی ذات ھے جس کے اپنے شجرِ ذات کا بیج بھی چونکہ مرد سے حاصل کیا ہوا ہوتا ھے اِس لیۓ وہ بھی عُمر بھر مرد کے وجُود کے تعاقب میں چل چل کر تَھکتی اور پھر تَھک تَھک کر چلتی رہتی ھے ، بچے جو اِن دونوں کے وجُود سے وجُود سے پاتے ہیں وہ بھی عُمر بھر اِن کے وجُود کے ساۓ ہی میں سکون پاتے ہیں اور پھر جب مرد و زَن کے ذہنی اُلجھاؤ مرد و زَن کو تنہا کردیتے ہیں تو عورت بیٹی کو خود میں جذب کرنا چاہتی ھے اور مرد بیٹے کو خود میں جذب کرنا چاہتا ھے اور جب عملی طور پر اُن کے لیۓ یہ سب کُچھ کرنا مُمکن نہیں ہوتا تو وہ بچوں کو اپنی اپنی عادات ، اپنے اپنے خیالات اور اپنے اپنے پسندیدہ پیشوں میں کھینچ تان کر لاتے یا لانا چاہتے ہیں جس سے بچوں کی مرضی مرنے لگتی ھے اور یہی وہ نازک لَمحہ ہوتا ھے جب محبتوں کے ریشوں سے بُنے اور بَنے ہوۓ اِن رشتوں میں" مَن و تُو" کے جھگڑے جنم لیتے ہیں اور محبت کے پُھولوں سے بننے والی یہ گُل مالا ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے اور گر گر کر بکھرنے لگتی ھے ، انسانی نفسیات کی اِن پیچیدگیوں پر انسان کی نگاہ جاۓ نہ جاۓ لیکن رحمٰن کی نگاہ انسان کی اِن اُلجھنوں کو ہر لَمحہ و ہر آن دیکھتی ھے اِس لیۓ رحمٰن کی ذات نے قُرآنی اٰیات میں انسان کی اِن نفسیاتی و رُوحانی اُلجھنوں کا جگہ جگہ پر ایک قابلِ عمل حل پیش کیا ہوا ھے لیکن شرط یہ ھے کہ اُس کو پڑھا اور سمجھا جاۓ ، سُورةُالاَسرٰی کی گزشتہ آٹھ اٰیات اور موجُود نو اٰیات کا بھی یہی وہ علمی پس منظرھے جس میں انسان کو سفرِ حیات کی وہ عملی تعلیم دی گئی ھے کہ جس کو سمجھنا اور جس کو سمجھ کر عمل میں لانا انسان کی جانی و رُوحانی آسودگی کا باعث ہوتا ھے ، گزشتہ آٹھ اٰیات کا مرکزی مضمون والدین تھے اور قُرآن نے اِن اٰیات میں والدین کے لیۓ اَولاد کو محبت و اخلاص کی جو تعلیم دی ھے دُنیا کی کسی بھی آسمانی یا زمینی کتاب میں اُس تعلیم کی وہ تفصیلات موجُود نہیں ہیں جو تفصیلات قُرآن نے رہتی دُنیا کے انسانوں کے لیۓ اِس ایک مقام پر جمع کر دی ہیں ، ھم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ قُرآن کی اِن تعلیمات پر عمل کرتے ہیں وہ اپنے حسین"تفردات" میں اُن دُوسرے لوگوں سے الگ ہوتے ہیں جو قُرآن کی اِن تعلیمات پر عمل نہیں کرتے اور جو لوگ قُرآن کی اِن تعلیمات پر عمل نہیں کرتے وہ اپنے بَدترین"مُقدرات" میں اُن لوگوں سے مُختلف ہوتے ہیں جو قُرآن کی اِن تعلیمات پر عمل کرتے ہیں ، اگر پہلے طبقےکے کسی مفلُوک الحال شخص سے اُس کا حال پُوچھا جاۓ تو وہ کہتا ھے ویسے تو میں ایک بے وسیلہ سا انسان ہوں لیکن میرا کوئی کام کبھی بھی نہیں رُکا اور یہی بات دُوسرے طبقے کے کسی فرد سے پُوچھی جاۓ تو اُس کا جواب یہ ہوتا ھے کہ صاحب ! کُچھ نہ پُوچھیں ، میں نے اپنی زندگی میں آج تک خوشی کا ایک لَمحہ بھی نہیں دیکھا ، میں سونے کو ہاتھ لگاتا ہوں تو وہ بھی مِٹی ہو جاتا ھے ، اگر آپ کافر و مُسلم یا نیک و بَد کی تمیز کیۓ بغیر رُوۓ زمین پر گھوم پھر کر دیکھیں گے تو آپ کو دُنیا کے ہر ایک مُلک کی ہر قوم میں اور ہر ایک جگہ پر یہ دو خوش حال اور بَد حال کردار ملیں گے جن میں سے پہلا کردار اپنے ماں باپ کا فرماں بردار ھے اور دُوسرا کردار اپنے ماں باپ کا نافرمان ھے اِس سے قطع نظر کہ اُس کے ماں باپ کافر یا مُسلم ہیں ، جس کا مطلب یہ ھے کہ ماں باپ کا دین و دھرم اور رنگ و نسل کُچھ بھی ہو ماں اور باپ کی حیثیت میں اُن کی محبت بھی لازم ھے اور اُن کا احترام بھی لازم ھے ، اِس سُورت کی گزشتہ آٹھ اٰیات میں جو مضامین بیان ہوۓ تھے اُن میں مرکزی مضمون یہی مضمون تھا جس میں اَولاد کو والدین کے ساتھ جس محبت و ہمدردی اور جس احسان و مہربانی کی جو تعلیم و تلقین کی گئی تھی وہ اَولاد کی زندگی میں عالَمِ غیب سے اللہ کی رحمتوں اور مہربانیوں کے خزانے لے کر آتی ھے اور اَب موجُودہ اٰیات میں جو بہت سے مضامین بیان ہوۓ ہیں اُن کا مرکزی مضمون والدین کے وہ فرائض ہیں جو انہوں نے ہر حال میں اَنجام دینے ہیں اور اُن کے وہ فرائض بچوں کے پیدا ہوتے ہی اُن کے نام رکھنا ، پیدا ہوتے ہی اُن کے جنسی اعضا کی درستی کا اہتمام کرنا اور پیدا ہونے کے ایک ہفتے بعد اُن کی رسمِ عقیقہ اَدا کرنا ہی نہیں ھے بلکہ اُن کے جوان ہونے تک اُن کی وہ مناسب پرورش کرنا بھی ھے جو اُن کو جسمانی طور پر معاشرے کا ایک ایسا کار آمد انسان بناۓ جو معاشرے میں اپنی ایک مناسبِ حال جگہ بناۓ اور اُن کے جوان ہونے تک اُن کی وہ مناسب تعلیم و تربیت بھی کرنا ھے جو اُن کو عقلی و فکری اعتبار سے ایک ایسا ذمہ دار انسان بناۓ جو انسانی معاشرے میں میں شامل ہو کر انسانی معاشرے کا اِس طور سے بوجھ بٹاۓ اور انسانی معاشرے کا اِس طرح سے بوجھ اُٹھاۓ کہ انسانی معاشرہ اُس پر فخر کرے اور اپنے جاہل ہونے کے باعث وہ انسانی معاشرے کا ایسا ناکارہ فرد نہ بن جاۓ جو انسانی معاشرے پر خود ایک ایسا بوجھ ہو جس بوجھ کو انسانی معاشرہ اُٹھانے سے انکار کر دے اور جو والدین بچے پیدا کرنے کا ایک فرض اَدا کرنے کے بعد اپنے دُوسرے فرائض اَنجام نہ دے سکیں تو اُن کے لیۓ وہ تادیبی اور تربیتی ادارے بناۓ جائیں جو نوجوانوں کو نکاح و اَولاد سے پہلے اُن کی معاشرتی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں تاکہ وہ جوان ہونے کے بعد حیوانوں کی طرح بے خیالی ہی بے خیالی میں بچے پیدا نہ کریں بلکہ انسانوں کی طرح سوچ سمجھ کر بچے پیدا کریں اور سوچ سمجھ کر اُن کی پرورش اور تعلیم و تربیت کریں ، مُسلم معاشرے کی مسجدوں اور خانقاہوں نے والدین کے حقوق پر تو بہت سے اصلاحی خطبے جاری کیۓ ہیں لیکن والدین کے فرائض پر کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا بلکہ ہمیں تو "فرائضِ والدین" کا یہ عُنوان بھی کبھی نظر نہیں آیا ، یاد رکھیں کہ جس طرح سُننے اور بولنے والے انسان کے لیۓ انسان بہت کُچھ کر سکتا ھے لیکن نہ سُننے اور نہ بولنے والے انسان کے لیۓ انسان کُچھ بھی نہیں کر سکتا اسی طرح قُرآن بھی سُننے ، بولنے اور سوچنے سمجھنے والے انسان کی زندگی میں ایک بہار آفریں انقلاب لے آتا ھے لیکن جو انسان قُرآن کو کھولنے ، کھول کر پڑھنے ، پڑھ کر غور و فکر کرنے اور غور و فکر کے بعد اپنی عقل و بصیرت کے مطابق اِس سے نتائج اخذ نہیں کرتا تو اُس کے لیۓ قُرآن صرف چُھپا ہوا وہ خزانہ ھے جس خزانے کے بارے میں اُس نے صرف سُنا ہی سُنا ھے دیکھا کبھی نہیں ھے تو ایسا بے فیض انسان قُرآن کے فیض سے محروم کا محروم ہی رہ جاتا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559665 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More