#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالاَسرٰی ، اٰیت 41 تا 52
ازقلممولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ولقد
صرفنا فی
ھٰذالقرآن لیذکروا
ومایزیدھم اِلّا نفورا 41
قل لوکان معہ الٰھة کما یقولون
اذالابتغواالٰی ذی العرش سبیلا 42
سبحٰنہ وتعٰلٰی عمایقولون علواکبیرا 43
تسبح لہ السمٰوٰت السبع والارض ومن فیھن
وان من شئی اِلّا یسبح بحمدہٖ ولٰکن لاتفقھون
تسبیحھم انہ کان حلیما غفورا 44 واذاقرات القرآن
جعلنا بینک وبین الذین لایؤمنون بالاٰخرة حجابا مستورا
45 وجعلنا علٰی قلوبھم اکنة ان یفقھوہ وفی اٰذانھم وقرا واذا
ذکرت ربک فی القُرآنِ وحدہ ولواعلٰی ادبارھم نفورا 46 نحن اعلم بما
یستمعون بہٖ اذیستمعون الیک واذھم نجوٰی اذ یقول الظٰلمون ان تتبعون اِلّا
رجلا مسحورا 47 انظر کیف ضربوالک الامثال فضلوافلایستطیعون سبیلا 48 و
قالواءاذاکنا عظاما ورفاتا ءانالمبعوثون خلقاجدیدا 49 قل کونواحجارة
اوحدیدا 50 او
خلقاممایکبرفی صدورکم فسیقولن من یعیدنا قل الذی فطر کم اول مرة فسینغضون
الیک
رءوسھم ویقولون متٰی ھو قل عسٰی ان یکون قریبا 51 یوم یدعوکم فتستحبون
بحمدہٖ وتظنون
ان لبثتم اِلّا قلیلا 52
اے ھمارے رسول ! زمان و مکان کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہوچکی ھے کہ
قُرآن میں ھم نے ایک ایک چیز کو مُختلف دَر مختلف زاویوں کے ساتھ بیان کیا
ھے تاکہ لوگ اِس کو سمجھیں لیکن مُشرک لوگ ہیں کہ وہ نفرت کے سوا کُچھ
جاننے اور سمجھنے کے لیۓ آمادہ ہی نہیں ھوتے اِس لیۓ آپ اہلِ زمین پر یہ
بات اِس پہلُو سے بھی واضح کردیں کہ اگر عالَم کے خالق کے ساتھ اُس کی
تخلیق میں اُس کی مخلوق بھی شامل ہوتی جیساکہ یہ مُشرک لوگ کہہ رھے ہیں تو
اِس صورت میں تو اِن کے وہ خیالی اِلٰہ اَب تک اللہ کے تختِ اقتدار کا
راستہ تلاش کر کے اُس پر قبضہ کر چکے ہوتے اور اِن کو اِس کی خبر بھی مل
چکی ہوتی لیکن خالقِ عالَم کے کسی بھی عمل میں مخلوق کا کوئی بھی فرد شریکِ
عمل نہیں ھے ، اِس ناقابلِ تردید دلیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ھے کہ اہلِ
شرک اللہ کی وحدانیت کے بارے میں جو کُچھ بھی کہہ رھے ہیں وہ اُن کے ایک بے
حقیقت خیال کے سوا کُچھ بھی نہیں ھے اور اللہ کی ذات اُن کی اِن بے حقیقت
باتوں سے ایک بہت ہی بلند تر ذات ھے ، اَمرِ واقعہ یہ ھے کہ سات آسمانوں
اور سات زمینوں میں اُس کی جو جو مخلوق ھے اُس مخلوق کی ہر ایک نوع و جنس
اور ہر ایک نوع و جنس کے سارے اَفرادِ نوع و جنس ہر لَمحہ و ہر آن اُس کے
مقررہ قوانین کے سامنے سر بخم رہتے ہیں لیکن تُم اُن کی حرکت و عمل کے علم
سے لاعلم ہو اور اللہ تعالٰی نے اپنے وسیع علم اور اپنے وسیع حلم کے تحت
تُمہاری اِس لاچاری کی ہمیشہ پردہ داری کی ھے اور تُم کو اپنی کسی مخلوق پر
بھی کم علم یا کم ہمت ظاہر نہیں ہونے دیا اور جب کبھی یا جہاں کہیں بھی آپ
قُرآن پڑھتے ہیں تو ھم آپ کے سکونِ تلاوت کو برقرار رکھنے کے لیۓ آپ کے اور
حیاتِ آخرت کے اِن مُنکروں کے درمیان ایک نادیدہ دیوار کھڑی کر دیتے ہیں
تاکہ اُن کی کوئی آواز آپ کے سکون میں مُخل نہ ہو سکے اور جو لوگ آپ کی
تلاوت سُننا چاہتے ہیں تو ھم اُن کے دلوں پر تسکین کی ایک حسین چادر ڈال
دیتے ہیں تاکہ قُرآن کی حلاوت اُن کے کانوں سے گزر کر اُن کے دلوں میں اُتر
جاۓ لیکن غیر اللہ کی غلامی میں زندگی گزارنے والے مُشرکوں کی بدقسمتی یہ
ھے کہ وہ قُرآن کی تلاوت کے دوران توحید کا بیان سُنتے ہی مُنہ پھیر لیتے
ہیں اور پھر اُنہی قدموں پر اپنی راہِ جہالت کی طرف بھاگ جاتے ہیں ، آپ کے
رُو برُو تو یہ مُشرک یہی ظاہر کرتے ہیں کہ وہ آپ سے قُرآن سُن رھے ہیں
لیکن ھم جانتے ہیں کہ وہ آپ کی تلاوت کے دوران ایک دُوسرے سے سرگوشیوں ہی
سرگوشیوں میں یہ بھی کہہ رھے ہوتے ہیں کہ اِس لَمحے تُم اُس انسان کے زیرِ
اثر ہو جو ایک جادُو کے زیرِ اَثر ھے اور تُم کو اپنا جادُوئی کلام سنا رہا
ھے اور اِن لوگوں نے تو اللہ کی قُدرتِ حیات پر بھی حیرت زدہ ہو کر کہا ھے
کہ بَھلا یہ کیسے مُمکن ہوگا کہ اللہ ھمارے گوشت پوست اور ھماری مُردہ
بوسیدہ ہڈیوں کو جمع کر کے جوڑے دے اور پھر ہمیں زندہ بھی کر دے ، ملاحظہ
کیجے کہ راہِ حق سے بہکے اور بَہٹکے ہوۓ یہ بَد اعتقاد لوگ کیسے کیسے رمز و
کناۓ میں آپ کے خلاف باتیں کرتے ہیں اور اَب یہ اپنی گُم راہی کے اُس مقام
پر جاپُہنچے ہیں کہ جہاں سے اِن کی واپسی مُمکن ہی نہیں رہی ھے ، آپ اِن
لوگوں سے کہیں کہ ٹھیک ھے ! اگر تُم یہ سمجھتے ہو کہ انسان کو موت کے خاموش
شکنجے سے نکال کر زندگی کے پُرجوش دائرے میں اللہ تعالٰی کے سوا کوئی اور
لایا ھے یا یہ کارنامہ تُم نے خود ہی اَنجام دے دیا ھے تو اَب کی بار جب
تُم مرنا تو مِٹی میں مل کر مِٹی نہ ہونا بلکہ پَتھر میں مل کر پَتھر یا لو
ہے میں مل کر لو ہا بن جانا یا اپنے دل میں آنے والی اِس سے بھی زیادہ سخت
تر چیز میں ڈھل کر سخت تر ہو جانا لیکن یہ بات طے ھے کہ اللہ تعالٰی تمہیں
دوبارہ موت کے جبڑے سے نکال کر اسی طرح زندگی کے دائرے میں لے آۓ گا جس طرح
پہلے لایا تھا ، جب آپ اُن کو یہ دلیل دیں گے تو وہ دھیرے دھیرے سر ہلا ہلا
کر آپ کی بات کی تصدیق کریں گے اور ساتھ کے ساتھ یہ بھی کہیں گے کہ بَھلا
یہ کب ہو گا اور کیسے ہو گا تو آپ کہیں کہ کُچھ عجب نہیں کہ تُمہاری یہ
خواہش تُمہارے اندازے سے پہلے ہی پُوری ہو جاۓ ، حقیقت یہ ھے کہ جب تُمہارے
فرسُودہ وجُود کے نابُود ذروں کو نۓ وجُود میں ڈھالنے کا وقت آۓ گا تو
تمہیں پُکارا جاۓ گا اور تُم وہ پُکار سُنتے ہی اپنے اپنے مرقدوں اور اپنے
اپنے مقبروں سے باہر آجاؤ گے اور تُم کہو گے کہ تُم زمین کے بستر سے ایک
مُختصر سی نیند کے بعد ہی جگا دیۓ گۓ ہو !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
زمان و مکان کی ہر ایک تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہوچکی ھے کہ اللہ تعالٰی
اپنی ذات میں واحد و احد ھے اور اللہ تعالٰی کی وحدانیت کا یہ پیغام بھی
واحد و احد ھے جو اُس کی اِس کتابِ واحد و احد میں کم و بیش 22 مقامات پر
دُھرا دُھرا کر انسان کو سنایا گیا ھے اور قُرآنِ کریم کے اُن 22 مقامات
میں سے سُورةُالبقرة کی اٰیت 163 ، سُورةُالمائدة کی اٰیت 73 ،
سُورةُالاَنعام کی اٰیت 19 ، سُورہِ یُوسف کی اٰیت 39 ، سُورةُالرعد کی
اٰیت 16 ، سُورہِ ابراھیم کی اٰیت 48 و 52 اور سُورةُالنحل کی اٰیت 22 و 51
کے بعد سُورةُالاسرٰی کا یہ مقام قُرآن کا وہ دسواں مقام ھے جس میں توحید
کا یہ بیانِ مُفصل آیا ھے ، قُرآنِ کریم نے ماقبل مقامات کی ماقبل اٰیات
میں توحید کے حق میں اور شرک کے رد میں جو بہت سے دلائل دیۓ ہیں اُن سب کی
تفصیل میں جانا اور اُن سب کو دُھرانا تو مُمکن نہیں ھے لیکن اُن سب کا
لُبِ لُباب یہ ھے کہ ایک کا ایک عدد ایک ہی وقت میں کبھی بھی ایک اور دو
نہیں ہوتا ھے بلکہ صرف ایک ہوتا ھے یا پھر صرف دو ہوتا ھے اور اللہ تعالٰی
اَزل سے اَبد تک ایک ھے اور یہ ایک اُس دُوئی کی نفی کرتا ھے جو کسی مُشرک
کے مُختل دماغ میں بار بار آتی ھے اور بار بار آتی رہتی ھے ، اسی طرح ایک
ہی وقت میں ایک ہی ہستی کبھی بھی زندہ اور مُردہ نہیں ہوتی ھے بلکہ اُس ایک
وقت کے سارے دورانیۓ میں وہ ہستی صرف زندہ ہوتی ھے یا پھر صرف مُردہ ہوتی
ھے اور عقل و منطق کی رُو سے اللہ تعالٰی کی ہستی ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ
ہمیشہ ہمیشہ کے اُس ایک ہی وقت میں زندہ ھے و موجُود ھے جس ایک وقت میں اُس
کے سوا کوئی دُوسری ہستی زندہ و موجُود نہیں رہی ھے اور اُس دائم الحیات
ہستی کو اپنی مخلوق کے کسی فانی وجُود کے ساتھ شراکتِ عمل کی ضرورت ہی نہیں
ھے اور اُس ایک زندہ خالق ہستی کی طرح اُس کی مخلوق میں اُس جیسی کوئی
دُوسری ہستی بھی موجُود نہیں ھے اور اسی طرح ایک ہی وقت میں ایک ہی چیز کسی
ایک ہی ہستی کی ملکیت میں شامل اور غیر شامل نہیں ہوتی بلکہ صرف اُس کی
ملکیت میں داخل ہوتی ھے یا اُس کی ملکیت سے خارج ہوتی ھے اور زمین و آسمان
کی ہر ایک چیز ہمیشہ سے اللہ تعالٰی کی ملکیت میں رہی ھے اور اِس پر اللہ
تعالٰی کی ملکیت کے ساتھ اللہ تعالٰی کی عدمِ ملکیت کا ایک لَمحہ بھی نہیں
آیا ھے ، اِس لیۓ اللہ تعالٰی کے اقتدارکے زیرِ اقتدار اور اللہ تعالٰی کے
اختیار کے زیرِ اختیار کوئی بھی ایسی چیز نہیں ھے جس پر عقل و منطق کی رُو
سے اُس کے سوا کسی اور کے قبضے یا تصرف کا گمان بھی دل میں لایا جا سکے اور
مزید اسی طرح ایک ہی وقت میں ایک ہی ہستی بااختیار و بے اختیار بھی کبھی
نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف بااختیار ہوتی ھے یا پھر محض بے اختیار ہوتی ھے اور
اللہ تعالٰی خالقِ عالَم کے طور پر اپنی ہر چیز پر ہمیشہ کے لیۓ ایسا
اختیار رکھتا ھے کہ جس پر پہلے بھی بے اختیاری کا کوئی لَمحہ کبھی نہیں آیا
اور بعد میں بھی کبھی نہیں آسکتا اور اُس کے اِس اقتدار و اختیار میں اِس
سے پہلے بھی کوئ شریک نہیں رہا ھے اور بعد میں بھی کوئی شریک نہیں ہو سکتا
ھے ، قُرآن کے یہ مُجمل ماسبق دلائل جن کا ھم نے ذکر کیا ھے اور قُرآن کے
وہ مُفصل ماسبق دلائل جن کا ھم نے ذکر نہیں کیا ھے کے بعد اَب موجُودہ
اٰیات کے اِن مضامین میں اللہ تعالٰی نے اِثباتِ توحید اور اِبطالِ شرک کے
جو بہت سے دلائل دیۓ ہیں اُن دلائل میں مرکزی دلیل اٰیاتِ بالا میں وارد
ہونے والی وہ چوتھی اٰیت ھے جس میں یہ ارشاد فرمایا گیا ھے کہ سات آسمانوں
اور سات زمینوں میں اللہ تعالٰی کی جو جو مخلوق ھے اُس مخلوق کی ہر ایک نوع
وجنس اور ہر ایک نوع و جنس کے اَفرادِ نوع و جنس جو اُن سات آسمانوں اور
اُن سات زمینوں میں رہتے ہیں تُم اُن کی حرکت و عمل کے علم سے لاعلم ہو اور
اللہ تعالٰی نے اپنے وسیع علم و حلم کے تحت تُمہاری اِس لاچاری کی ہمیشہ
پردہ داری کی ھے اور تُم کو اپنے کسی آسمان کی مخلوق اور اپنی کسی زمین کی
مخلوق کے سامنے کم علم اور کم ہمت ظاہر نہیں کیا ھے ، قُرآنِ کریم نے
اِثباتِ توحید اور اِبطالِ شرک کے اِس مضمون میں سب سے پہلے تو ھمارے اِس
آسمان و زمین کے دیکھنے والوں کو یہ بتایا ھے کہ یہ آسمان و زمین جو تمہیں
نظر آرہا ھے یہ ھمارے عالَم کی آخری حد نہیں ھے بلکہ تُمہارے وجُود اور
مُشاھدہِ وجُود کے لحاظ سے ھمارے عالَم کی وہ ایک معمولی سی سرحد ھے جس میں
تمہیں بسایا گیا ھے ، ھمارے عالَم میں تُمہارے آسمان کی طرح کے چھ اور
آسمان اور تُمہاری زمین کی طرح کی چھ اور زمینیں بھی موجُود ہیں اور اِس
بات سے یہ بات خود بخود ہی واضح ہوجاتی ھے کہ تُم کو اپنے اِس نظر آنے والے
آسمان میں جو کُچھ نظر آرہا ھے وہ اُن نظر نہ آنے والے آسمانوں میں بھی اسی
طرح موجُود ھے اور تُم اپنی اِس دکھائی دینے والی زمین میں جو کُچھ دیکھ
رھے ہو وہ اُن دکھائی نہ دینے والی زمینوں میں بھی اسی طرح پر موجُود ھے
اور ھمارے جس آسمان اور ھماری جس زمین میں ھماری جو تخلیق اور ھماری جو
مخلوق موجود ھے وہ ساری مخلوق اللہ تعالٰی کے سارے اَحکامِ نازلہ کے سامنے
سر بسجُود ہو چکی ھے ، ایک تُم ہو جو ابھی تک شرک کے اندھیروں میں بَہٹک
رھے ہو لیکن تُمہاری اِس سرکشی کے باوجُود بھی ھم نے تُم کو ابھی تک اپنے
کسی آسمان اور اپنی کسی زمین کی کسی مخلوق پر کم علم اور کم ہمت ظاہر نہیں
کیا ھے اور اللہ تعالٰی نے اپنی سات اِن زمینوں ، اپنے اِن سات آسمانوں اور
اپنے اِن دیدہ و نادیدہ جہانوں کا ذکر کر کے اِس زمین کے مُشرکین سے یہ
خاموش مَنطقی سوال کیا ھے کہ اللہ تعالٰی کی قوتوں اور قدرتوں سے اور اللہ
تعالٰی کی تخلیق اور مخلوق سے تو تمہیں بھی انکار نہیں ھے اِس لیۓ اگر تُم
عقلِ سلیم اور دانشِ سلیم سے بالکُل ہی عاری نہیں ہو گۓ ہو تو پھر یہ تو
بتاؤ کہ اُن چھ آسمانوں کے نیچے اور اُن چھ زمینوں کے اُوپر تُمہارے کتنے
لات و منات اور کتنے عُزٰی ہیں ، اگر اللہ تعالٰی کے اُن چھ آسمانوں اور
اُن چھ زمینوں میں تُمہارا کوئی لات و منات اور تُمہارا کوئی عُزٰی اُس کا
شریکِ اقتدار نہیں ھے تو پھر اِس زمین و آسمان کے درمیان بھی اُس کا کوئی
شریکِ اقتدار نہیں ہونا چاہیۓ !!
|