ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے


عصرِ حاضر کی منافقانہ سیاست میں رہنماوں کے بیانات کا مطلب ان کے الفاظ سے مختلف بلکہ متضاد بھی ہوتا ہے۔ مثلاً راشٹروادی کانگریس پارٹی کے قومی صدر شرد پوار جب کہتے ہیں کہ مہاوکاس اگھاڑی کی مہاراشٹر سرکار کو کوئی پریشانی نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑی مشکل میں پھنس گئی ہے ورنہ یہ صفائی پیش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں حکومت ٹھیک ڈھنگ سے کام کررہی ہے ؟ شرد پوار کا یہ بیان ممبئی میں ان کی وزیر اعلیٰ سے ملاقات کے بعد سامنے آیا اور یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ پوار اور ٹھاکرے کی ملاقات عام حالات میں نہیں ہوتی بلکہ جب کوئی بڑا خطرہ مسئلہ درپیش ہو تب ہی یہ دونوں بڑے رہنما ایک دوسرے سے بہ نفسِ نفیس ملتے ہیں۔ پوار کا ممبئی کے بجائے دہلی جاکر یہ بیان دینا سرکار کو لاحق خطرے کی سازش کے مقام کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ پوار کی یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ ایک انسپکٹر کا اثر پوری سرکار پر نہیں پڑتا کیونکہ یہ خبر بھی ذرائع ابلاغ میں آچکی تھی کہ وہ شیوسینا کے ذریعہ سچن وزے کی مدافعت سے ناراض ہیں ۔

ریاست کی سیاسی اتھل پتھل کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ شرد پوار سے ایک گھنٹہ طویل ملاقات کے بعد وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے کرائم برانچ کے جوائنٹ کمشنر ملند بھارمبے کو اپنی قیام گاہ پر ملاقات کے لیے طلب کیا۔ ملند سے فارغ ہونے کے بعد ممبئی کے جوائنٹ کمشنر وشواس نانگرے کو وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ ورشا پر بلایا گیا ۔ان ملاقاتوں کے نتیجے میں سچن وزے کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ شیوسینا کے لیے یہ فیصلہ بہت کٹھن تھا اس لیے کہ بڑے ارمانوں سے اس نے خواجہ یونس انکاونٹر میں ۱۶ سال کی طویل معطلی کے بعد وزے کو بحال کیا تھا۔ ایسا کرتے ہوئے خواجہ یونس کے پسماندگان کی مخالفت کو بھی نظر انداز کردیا گیا حالانکہ یہ بظاہر عدالت کی توہین کا معاملہ ہے۔ شیوسینا اس سے بڑے بڑے کام لینا چاہتی تھی لیکن پانی کا یہ بلبلہ درمیان میں ہی سطح آب پر آکر پھوٹ گیا۔ حالات کی سنگینی یہاں تک پہنچی کہ ذرائع ابلاغ میں صوبائی وزیر داخلہ انل دیشمکھ کی برطرفی پر بھی بحث چھڑ گئی ۔ این سی پی کے ریاستی صدر جینت پاٹل کو ان کی مدافعت میں آکر کہنا پڑا کہ اس معاملے میں وزیر داخلہ کے استعفیٰ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ صحیح انداز سے معاملے کو دیکھ رہے ہیں ۔

سچن وزے کی حمایت فی الحال این سی پی کا کوئی رہنما نہیں کررہا ہے ۔ اجیت پوار نے صاف اعلان کیا ہے کہ ہم کسی کو بچا نہیں رہے ہیں لیکن بغیر ثبوت کے کسی پر کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے وزے پر کی جانے والی ساری کارروائی کے شواہد موجود ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے بھی پریس کانفرنس میں یہی موقف اختیار کیا مگر پارٹی کے ترجمان روزنامہ سامنا کا سُر مختلف ہے۔ اس کے اندر مرکزی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کی کارکردگی کو ریاستی حکومت کے خلاف انتقامی کارروائی قرار دیا جارہا ہے۔ اس کے مطابق مہاراشٹر کی حکومت نے وزے کا تبادلہ کرکے یہ کام اے ٹی ایس کو سونپا تھا لیکن درمیان مرکزی حکومت نے بلاضرورت این آئی کو بھیج دیا۔ یہ بات درست ہے لیکن ابتداء میں تو یہ معاملہ کریمنل اینویسٹی گیشن یونٹ (جرائم کی تفتیش کا شعبہ) کے ذمہ کیا گیا تھا اوراس کے سربراہ سچن وزے تھے ۔ اے ٹی ایس کو یہ کام دباو بڑھنے پر سونپا گیا مگر اس وقت تک تاخیر ہوچکی تھی۔ اب تو یہ سوال بھی کیا جارہاہے کہ آخر کس بنیاد پر وزے جیسے جونیر افسر کو سی آئی یو کا سربراہ بنایا گیا اور 16 سال بعد اسے کیوں بحال کیا گیا جبکہ خواجہ یونس قتل کیس سے وہ ابھی تک بری بھی نہیں ہوا ہے؟ اس کے باوجود اس کو سُپر کاپ (super cop) بنانا کیا مناسب حال تھا؟

سامنا اپنے ادارتی صفحہ پر لکھتا ہے :’’کچھ مہینے پہلے وزے نے رائے گڑھ پولس کی مدد سے بھاجپ کے مہنت ارنب گوسوامی کو انوئے نائک کی خودکشی کے معاملے ہتھکڑیاں لگائی تھیں ۔ اس وقت سے یہ لوگ گوسوامی کا نام لے کر رورہے تھے اور وزے کو بددعا دے رہے تھے ۔ وہ کہہ رہے تھے رکیے دیکھ لیں گے ۔ مرکز میں ہمارا اقتدار ہے۔ وہ موقع اب سادھ لیا گیا ہے‘‘۔ سامنا کی بات درست ہے لیکن مرکز کو یہ موقع کس نے دیا ؟ مکیش امبانی کے گھر سے قریب اپنے استعمال کی گاڑی لگانے کا مشورہ دینے کی غلطی کس نے کی؟ سامنا لکھتا ہے کہ سچن وزے مرکز کی ہٹ لسٹ پر تھا ۔ یہ بات اگر درست بھی ہے تو ایک انکاونٹر اسپیشلسٹ کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ ہٹ لسٹ پر موجود لوگ کس قدر احتیاط کرتے ہیں اور جب اس بابت کوتاہی یا غفلت سرزد ہوتی ہے تو اس کی کیا قیمت چکانی پڑتی ہے؟ سامنا کا یہ الزام درست ہے کہ مرکز مخالفین کی ریاستی حکومتوں کو عدم استحکام کا شکار کردیتا ہے لیکن اگر کوئی طلائی طشتری میں اس کا موقع سجا کر اپنے دشمن کو عطا کر دے تو اس کے لیے شکایت کی گنجائش نہیں ہوتی ۔

سچن وزے کے خلاف اتنے سارے کھلےشواہد میڈیا میں آچکے ہیں کہ ا ب اس کا بچ نکلنامحال ہے۔ اس مایوسی کے عالم میں اگر وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے سرکاری گواہ بن جائے تو صوبائی حکومت کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔ اس طرح وہی بہار والی صورتحال بن جائے گی جس میں نتیش کمار مجبوراً ’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘بی جے پی کی پناہ میں چلے گئے تھے ۔ شیوسینا کے سامنے اب یہی دھرم سنکٹ ہے اور اگر وہ نتیش کے راستے پر چلتی ہے تواس کا انجام بھی مریل نیم جان جے ڈی یو جیسا ہوجائے گا ۔ اس کے لیے دوسراراستہ یہ ہے کہ سپر ڈالنے کے بجائے انتخاب کروا دے ۔ اتفاق سے مہاراشٹر کے عوام کو علاقائی عصبیت کے سبب مکیش امبانی کی بہ نسبت زیادہ ہمدردی سچن وزے سے ہے۔ اس لیے شیوسینا اس معاملے کو دہلی اور مہاراشٹر کے وقار کی جنگ بنا کر سیاسی فائدہ اٹھا نے کے علاوہ انتخاب جیت سکتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے شرد پوار اس یہ دوسرا چمتکار کیسے کرتے ہیں؟

صنعتکار مکیش امبانی کی آڑ میں جاری سیاسی کشمکش میں پہلی بلی ممبئی پولیس کمشنر پرمبیر سنگھکا تبادلہ کرکے چڑھائی گئی ۔ ریاستی وزیرداخلہ انیل دیشمکھ نے ان کی جگہ سینئر آئی پی ایس آفیسر ہیمنت نگرالے کو نیا پولیس کمشنر مقرر کردیا ۔ پرم بیر سنگھ کو ہوم گارڈ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ ان کو ہٹانے کی کئی وجوہات زیر بحث ہیں مثلاًسچن وزے کو بحال کرنے کا فیصلہ اور اسسٹنٹ پولس انسپکٹر ہونے کے باوجود انہیں کرائم انٹلیجنس یونٹ کی سربراہی سے نوازنا۔ اس کے بعد ٹی آر پی بدعنوانی، انوئے نایک خودکشی، ارنب کی گرفتاری اور کنگنا ورتک جیسے حساس معاملات سچن کے حوالے کردینا۔ ابتداء میں مکیش امبانی والا معاملہ بھی سچن کو سونپنا اور اس کا اپنے ڈی سی پی کے بجائے براہِ راست پرم بیر سنگھ کو رپورٹ کرنا ۔ سابق وزیر اعلیٰ فردنویس فرماتے ہیں کہ شیوسینا نے وزے کو بحال کرنے لیے دباو بنایا تھا جسے انہوں ٹھکرا دیا ۔

پرم بیرسنگھ کو ہٹائے جانے سے سنگھ پریوار کو خوشی ہوئی ہوگی کیونکہ انہوں نے سادھوی پرگیا ٹھاکر کو گرفتار کرنے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔ہیمنت ناگرالے نے یہ تسلیم کیا ہے کہ حالیہ واقعات سے ممبئی پولس کی شبیہ بگڑی ہے جسے بحال کیا جائے گا ۔ اب بی جے پی کسی طرح اس معاملے کو وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے سے جوڑنے کے فراق میں ہے۔ فی الحال ایک طرف شیوسینا کے رہنما اپنے پسندیدہ کمشنر پرم بیر پر جس طرح طول طویل الزامات لگا رہے ہیں ۔ دوسری جانب مہاراشٹر کی ایس آئی ٹی سچن وزے کے معاملے میں این آئی اے سے زیادہ پرجوش ہے۔ این آئی اے تو خیر صرف گاڑی کو لے کر پریشان ہے مگر ایس آئی ٹی نے توسچن وزےکو ہرین من سکھ قاتل ہی بنادیا ہے۔ یہ بھی حسن اتفاق یہ ہے سچن نے جب ارنب کو گرفتار کیا تو اس کی حمایت میں وکیل آبد پونڈا تھے اور ا ب وہی آبد پونڈا سچن وزے کی پیروی فرما رہے ہیں ۔ خیر وقت وقت کی بات ہے اکالت اور سیاست دونوں ہی پیشہ وارانہ ہے۔ اس میں کوئی اصول پسندی ہے اور نہ کا وفاداری ہے۔

سچن وزے اور شیوسینا کے معاملات کو دیکھ کر ایک حدیث یاد آتی ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جو شخص اپنی قوم کی ناحق حمایت و مدد کرے وہ اس اونٹ کی مانند ہے جو کنویں میں گر پڑے اور پھر دم پکڑ کر اس کو کھینچا جائے‘‘۔اس مثال میں ظالم کی حمایت کو کنویں میں گرنے والے اونٹ کو دم پکڑ کر بچانے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ایسا کرنے والا اونٹ کو تو بچانے سے رہا مگر خود اوندھے منہ اندر ضرورگرے گا۔ اب جو صورتحال رونما ہوئی ہے اس میں سچن وزے کو بچانے کی کوشش شیوسینا کو لے ڈوبے گی۔ آج کل سچن وزے زبان حال سے یہ کہہ رہا ہے ’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے ۔ پرم بیر سنگھ کےبعد وہ اپنے ساتھ کس کس کو لے کر ڈوبتاہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ بی جے پی کی سیاسی گھٹن کے خلاف سچن وزے جیسے نادان دوست کو ساتھ لے کر شیوسینا نے جو غلطی کی ہے اس پر شعر صادق آتا ہے؎
تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنانِ شہر
اتنے نہ در بناؤ کہ دیوار گر پڑے
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449362 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.