سب سے پہلے تو اس فرق کو واضح کرنا پڑے گا کہ ہمارا وجود
روئے زمین پر اپنا ٹھکانا کسی سبب بنائے ہوئے ہیں یا پھر ہم اس زمین پر
بطور بوجھ تو نہیں پھر رہے۔ عقل قدرت کی عطاء کردہ نعمت ِعظیم ہے جس کی
بنیاد پر انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا گیا اور اللہ رب
العزت نے اپنا نائب بنا کر دنیا میں بھیجا کیا یہ انسان کی عظمت کی پہچان
کیلئے کافی نہیں، اب انسان کی عقل اپنے خالق کے تابع ہوجائے تو پھر کیا ہی
کہنے یوں سمجھ لیجئے کہ دنیا میں آنے یا بھیجے جانے کا حق ادا ہوگیا۔انسان
کی بنیادی معلومات اسے اس بات کی پہچان کروانے کیلئے کافی نہیں ہوتی کہ وہ
دنیا پر بوجھ کے سوا کچھ اور نہیں ہے یا پھر یہ سمجھ لیجئے کہ کچھ ذی شعور
زمین پر اجناس کی بہتات کو کم کرنا اپنی ذمہ داری سمجھ کر جئے جاتے ہیں۔ یہ
سب اتنا آسان نہیں کہ آپ پیدا ہوں، دنیا میں گھومے پھریں یا پھر فقط قادر
مطلق کی عطاعت کریں اور جس زمین پر بطور بوجھ رہے اسی میں بطور پیوند دفن
ہوجائیں۔ کیا انسان ہونے کیلئے یہ سب سے ضروری نہیں کہ مقصد حیات تلاش کیا
جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خالق کائنات کے فراہم کردہ رہنماء اصولوں پر
تلاش کیا جائے۔
سماجی ابلاغ کے دور سے تھوڑا پیچھے چلے جائیں تو ایک افسوس ناک ماحول
دیکھائی دیتا ہے کہ انجینئر، ڈاکٹر، قانون دان، معیشت دان، وغیرہ کی تعلیم
حاصل کرنے والے تادم مرگ اپنے پیشے کی غلامی میں قید لقمہ اجل بنتے رہے،
یہاں تک کہ جو سپاہ گری سے منسوب ہوا اور جو سیاسی بازیگر بنا پھر کسی اور
طرف دیکھنے کا دل ہی نہیں چاہ۔ شائد چاہ محدود ہونا بھی اس کی وجہ ہوسکتی
ہے۔ دنیا داری حقیقت میں معاشیات، سیاسیات، معاشرت، دینیات، اخلاقیات، اور
دیگر امور کا مرکب ہے،جن پر خالق کائنات نے ایک مکمل رہنماء اصولوں پر مبنی
کتاب اپنے پیارے محبوب ﷺ کے توسط سے رہتی دنیا تک کیلئے انسانوں کی رہنمائی
کیلئے رکھ چھوڑی ہے۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ماضی میں ہونے والے
واقعات پر سے پردہ ہٹاتی ہے، حال کو کیسے گزارنا ہے بتاتی ہے اور مستقبل کو
سجانے کے طریقے دیکھاتی ہے۔ دنیا کوماضی میں معاشروں کے عروج و زوال کہ
اسباب سے آگاہ کرتی ہے اور ان تمام امور پر سے پردہ ہٹا تی چلی جاتی ہے۔
حتمی طور پر یہاں یہ کہہ دینا کہ ہم نے یہ جان لیا کہ ہماری زندگی کا مقصد
کیا ہے، ٹھیک نہیں ہوگا البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اللہ کی عطاء کی
گئی صلاحیتیں جب اپنے اظہار کے راستے تلاش کرنے لگیں اور انہیں ان راستوں
پر چلنے کا کسی حد تک سلیقہ بھی آجائے تو کہا جاسکتا ہے کہ کچھ رازوں سے
پردہ اٹھا چاہتا ہے، اس پر قدرت کا شکر ادا کرنا فرض ہوجاتا ہے، شکر وہ
سیڑھی ہے جو اوپر کی طرف لے جاتی ہے اور رازوں سے پردے اٹھتے دیکھے جاسکتے
ہیں۔
قلم سے قلب تک متفرق مضامین پر مبنی ایک کتاب کا نام ہے یہ وہ مضامین ہیں
جو آپ کیلئے کچھ نا کچھ سوچ کا مادہ لئے ہوئے ہیں یہ آپ سے اللہ کی دی ہوئی
عقل شریف کو استعمال کرنے کا مطالبہ بھی کرینگے۔ کیونکہ ہم نے لکھنے کو فقط
قلم اور قرطاس کی ہم آہنگی نہیں سمجھا،نا ہی کبھی قلم کو پابند ِ عنوان
رکھا سوچوں کے دھارے جدھر جدھر لیجاتے رہے اور جو کچھ دیکھتے رہے قلم کسی
دور جدید کے پرنٹر (چھاپنے والی مشین) کی طرح کاغذ پر عیاں کرتا چلا گیا
ہے۔ اب یہ کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ کیا یہ سب کچھ جو
اس کتاب میں لکھا ہے کتنا ضروری تھا۔ امید کرتا ہوں کہ آپ لوگو کی قیمتی
رائے ہمیں لازمی موصول ہونگی۔ کتاب کے اشتہار پر کتاب کی دستیابی کا پتہ یا
نمبر آویزاں ہے۔کتاب کے پبلشر ساجد فاضلی صاحب کا تعاون ہمارے لئے باعث
راحت رہا کیونکہ ہمارے سوالوں نے یقینا انہیں پریشان تو کیا ہوگا لیکن
انہوں نے کبھی اس روئیے کو ہمارے درمیان حائل نہیں ہونے دیا۔ اللہ تعالی
آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہم سب کیلئے آسانیاں فرمائے۔
آمین یا رب العالمین |