بھرپورانسدادی کوششوں کے باوجود کورونا وائرس کا تیزی کے
ساتھ پھیلاؤ اب عالمی مشکل میں تبدیل ہوگیا ہے اور کرونا جیسا کوئی نامعلوم
وائرس کسی بھی وقت انسانی سماج کو تباہ کن جنگ کی مانند اور شاید اس سے بھی
کہیں زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔کچھ عشرے پہلے دنیا بھر کے سیاسی اور علمی
حلقوں میں یہ بحث شروع ہوئی تھی کہ عصر حاضر کی اس پیچیدہ دنیا میں سلامتی
یا سیکورٹی کا معاملہ کثیرالجہتی شکل اختیار کر گیا ہے اور ماضی کی مانند
محض فوجی اور عسکری دائرے تک محدود نہیں رہا۔ بعد ازاں سلامتی کے اقتصادی،
سماجی اور ماحولیاتی پہلووں پر بھی توجہ دی جانے لگی لیکن دنیا کے مختلف
حصوں میں معیار زندگی میں آنے والی بلندی اور صحت و سلامتی کے میدان میں
ہونے والی ترقی کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر کے ماہرین نے ‘‘ہیلتھ سیکورٹی’’ یا
‘‘صحت کی سلامتی’’ کے معاملے کو چنداں اہمیت نہیں دی۔کرونا وائرس کے انکشاف
اور وسیع پھیلاؤ نے ، جو تمام تر کوششوں اور اقدامات کے باوجود ایک عالمی
مسئلہ بن گیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کرونا وائرس نے اپنی تمام تر
تباہ کاریوں اور منفی اثرات کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر انسانی سماج کے سامنے
اس حقیقت کو عیاں کردیا ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں اور ملکوں کی سلامتی
پوری قوت کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی فرد یا حکومت
کتنی طاقتور کیوں نہ ہوجائے کرونا جیسے چیلنجوں پر جنہیں در حقیقت سپر
چیلنج کہا جانا چاہیے، تنہا قابو نہیں پاسکتی۔حال ہی میں ہونے والی ایک نئی
طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ برازیل میں دریافت ہونے والی کرونا
وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے۔برطانیہ اور
برازیل کے ماہرین کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ پی 1 نامی کرونا وائرس کی
یہ نئی قسم 2.2 گنا زیادہ متعدی اور کووڈ سے پہلے بیمار ہونے والے افراد کی
مدافعت کو 61 فیصد تک کم کر سکتی ہے۔یہ تحقیق ابھی کسی طبی جریدے میں شائع
نہیں ہوئی اور اسے پری پرنٹ سرور پر جاری کیا گیا۔تحقیق میں دریافت کیا گیا
کہ پی 1 کے نتیجے میں کرونا وائرس کے کیسز میں برازیل کے شہر میناوس میں
اضافہ ہوا اور وہاں 2020 ء کے اختتام میں وبا کی دوسری لہر سامنے آئی۔یہ
دوسری لہر اس لیے بھی طبی ماہرین کے لیے پریشان کن تھی کیونکہ پہلی لہر کے
دوران وہاں بہت زیادہ کیسز کے بعد اجتماعی مدافعت (ہرڈ امیونٹی) کا امکان
ظاہر کیا جارہا تھا۔تحقیق کے دوران نومبر 2020 ء سے جنوری 2021 ء کے دوران
اس شہر میں کرونا وائرس سے بیمار ہونے والے افراد کے نمونوں سے وائرس کے
جینیاتی سیکونس بنائے گئے۔محققین نے دریافت کیا کہ اس قسم کے نمونوں کی شرح
7 ہفتوں کے دوران صفر سے 87 فیصد تک بڑھ گئی۔انہوں نے اس نئی قسم میں 17
میوٹیشنز کو شناخت کیا جن میں سے 10 اسپائیک پروٹین کی سطح پر ہوئیں، جس کو
یہ وائرس انسانی خلیات میں داخلے کے لیے استعمال کرتا ہے۔اسپائیک پروٹین
میں ہونے والی 3 میوٹیشنز سے اس نئی قسم کو انسانی خلیات کو مؤثر طریقے سے
جکڑنے میں مدد ملی، جن میں سے ایک میوٹیشن این 501 وائے برطانیہ اور جنوبی
افریقہ میں دریافت اقسام میں بھی دیکھی گئی تھی۔ماہرین نے ان تبدیلیوں کو
مدنظر رکھ کر جانچ پڑتال کی کہ اس سے وائرس کی انسانوں کو متاثر کرنے کی
صلاحیت پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔انہوں نے ڈیٹا سے ماڈلز تیار کیے جن سے ثابت
ہوا کہ کرونا وائرس کی اوریجنل قسم کے ساتھ ساتھ دیگر اقسام کے مقابلے میں
1.4 سے 2.2 گنا زیادہ متعدی ہے۔اسی طرح یہ قسم پرانی اقسام سے متاثر ہونے
والے افراد میں پیدا ہونے والی امیونٹی کی شرح کو بھی 25 سے 65 فیصد تک کم
کرسکتی ہے، جس سے لوگوں میں دوسری بار کووڈ کا خطرہ بڑھتا ہے۔ماہرین کا
کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ پی 1 میں کافی کچھ تبدیل ہوا ہے جو
کہ باعث تشویش ہے۔ؑٓلمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق وائرس کی نئی
قسم 60 سے زیادہ اقوام میں بھی پھیل چکی ہے۔جبکہ برطانیہ میں کورونا وائرس
کی نئی قسم کی وجہ سے سنگین صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔خیال رہے کہ برطانیہ،
وائرس کی تیسری اور بدترین لہر کی گرفت میں ہے۔برطانیہ میں سامنے آنے والی
کورونا وائرس کی نئی شکل جسے وی یو آئی 202012/01 کا نام دیا گیا ہے،کی
تشخیص جنوبی برطانیہ کی کاونٹی کینٹ میں ہوئی تھی۔ ابتدائی اندازوں میں
سائنس دان یہ اندیشہ ظاہر کر رہے تھے کہ وی یو آئی پہلے سے موجود کورونا
وائرس کے مقابلے میں 70 فی صد تیزی سے پھیلتا ہے۔برطانیہ کے علاوہ جنوبی
افریقہ میں بھی کورونا وائرس کی ایک نئی قسم کی تشخیص ہوئی ہے۔ تاہم عالمی
ادارہ صحت کے مطابق برطانیہ اور جنوبی افریقہ سے رپورٹ کیے جانے والے وائرس
کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ عالمی ادارہ
صحت کی تیکنیکی امور کی سربراہ ماریا وین کرخوو کے مطابق دونوں ممالک میں
سامنے آنے والے وائرس میں یہ قدر مشترک ہے کہ وہ ایک وقت میں سامنے آئے
ہیں۔ علاوہ ازیں ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس نئی قسم کے 9 کیسز ڈنمارک جب کہ
ایک، ایک نیدرلینڈ اور آسٹریلیا میں رپورٹ ہوئے ہیں۔دوسری طرف ورلڈ ہیلتھ
آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہینم گیبراسس کا کہنا ہے کہ وہ
سائنس دانوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ کس طرح سے
جینیاتی تبدیلیاں کرونا وائرس پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ دریں اثنا میں
ڈبلیو ایچ او کے ہیلتھ ایمرجنسی پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مائیکل ریان
نے کہا ہے کہ اس وقت تک اس بارے میں شواہد موجود نہیں ہیں کہ یہ وائرس اپنی
شدت میں تبدیلی لائے گا۔ ان کے بقول تشخیص اور ویکسین کے معیار پہلے سے
بہتر ہو رہے ہیں۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم سے بچوں
کے بھی اتنے ہی متاثر ہونے کے خدشات ہیں جتنے کہ بڑی عمر کے افراد ہو رہے
ہیں۔ واضح رہے کہ کورونا وائرس کی ابتدائی قسم سے بڑی عمر کے افراد، بچوں
کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتے رہے ہیں۔
برطانیہ میں اس نئے وائرس پر تحقیق کرنے والے ادارے ’ نر وی ٹیگ ‘ سے منسلک
اور امپیریل کالج لندن سے وابستہ نیل فرگوسن کا کہنا ہے کہ یہ خدشات موجود
ہیں کہ وائرس سے بچوں کے متاثر ہونے کی شرح زیادہ ہو۔ نری وی ٹیگ سے ہی
منسلک وینڈی بارکلے کا کہنا ہے کہ یہ وائرس سامنے آنے کے بعد خدشہ ہے کہ اس
سے زیادہ بچے متاثر ہوں گے۔برطانوی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ قسم
انسانی جسم میں موجود اینٹی باڈیز کودھوکا دے کر مدافعتی نظام میں داخل
ہونے کی طاقت رکھتی ہے۔برطانوی رپورٹ کے مطابق وائرس کے ارتقاء کامطلب ہے
کہ یہ نہ صرف خلیوں کو متاثر کرسکتا ہے بلکہ مدافعتی نظام پر بھی حملہ
کرسکتا ہے اور پہلے سے متاثرہ افراد بھی دوبارہ انفیکشن کا شکار ہوسکتے
ہیں۔ورونا وائرس کی اس نئی قسم میں 23 مختلف جینیاتی تبدیلیاں ہوئی ہیں، ان
میں سے بیشتر کا تعلق وائرس کے ان حصوں سے ہے جو وائرس کو انسانی خلیات
جکڑنے میں مدد دیتے ہیں۔ لندن میں اس وقت 60 فیصد نئے کیسز اسی قسم کا
نتیجہ ہیں، جو بہت تیزی سے پھیل کر اپنے پنجے گاڑھ رہی ہے۔ |