ساحلی محافظ مینگرو اور درختوں کی کٹائی

انسان کی ماحولیاتی دشمنی، آئینی ادارے کب کردار ادا کریں گے

ماحولیات اور ماحول کے تحفظ میں جتنا کردار انسانوں کا ہے ، اتنا کردار اداروں کا بھی ہے۔ ماحولیات سے مراد زمین اور خلا سے لے کر ہر سطح پر قدرتی ماحول کہلاتا ہے ، جب کہ ماحول میں ہر ماحولیات کے ساتھ ہر جاندار زندگی کا تعلق شامل ہوجاتا ہے ، جس میں انسان اور جنگلی حیات سمیت سمندر میں پائی جانے والی زندگیاں اور اس سے منسلک چرند پرند اور درخت شامل ہیں۔ ماحولیات کے تحفظ پر مطالعہ جات میں کئی معاملات زیر مطالعہ آتے ہیں۔ موجودہ دور میں ماحولیاتی تبدیلی میں سب سے زیادہ سمندر کے محافظ مینگرو کی اہمیت میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان سات ایسے ممالک میں شامل ہے جو مینگرو جنگلات کا وسیع ذخیرہ رکھتے ہیں۔ تاہم درختوں کی کٹائی میں شجر کاری کی کمی کے باعث تیزی سے مینگرو درختوں کی کمی نے ماحولیات کو نقصان پہنچایا ۔کسی بھی ملک کے لئے25فیصد جنگلات کا ہونا لازمی ہے مگر ہمارے یہاں درخت کی نہیں بلکہ اس کی لکڑی کی اہمیت زیادہ ہے ۔ کسی زمانے میں لاکھوں ایکڑ پر مشتمل جنگلات ہوا کرتے تھے لیکن اب وہ سمٹتے سمٹتے ہزاروں ایکٹر تک محدود ہوگئے ہیں ،ایک اندازے کے مطابق روس میں 48فیصد ، برازیل میں58فیصد ، انڈونیشیا میں47فیصد ، سوئیڈن میں74فیصد ، اسپین میں 54فیصد ، جاپان میں67 فیصد، کینیڈا میں 31فیصد ، امریکا میں 30فیصد ، بھارت میں فیصد ، بھوٹان میں72فیصد اور نیپال میں39فیصد جنگلات پائے جاتے ہیں ، جبکہ پاکستان میں صرف2.19فیصد جنگلات ہیں ، اس کے علاوہ مینگروز کے جنگلات تقریباََ207000ہیکٹرز پر ہیں ۔ سندھ میں یہ 600000 ہیکٹرز پر مشتمل ہیں ۔

محکمہ جنگلات میں اس وقت 241198 ہیکٹرز تک کچے کی زمین پر اپنا کنٹرول رکھتا ہے۔ہمارے ملک میں جس درخت کو زیادہ اگایاگیا وہ کونو کارپس conocarpusہے یہ یہاں کا مقامی درخت نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق شمالی امریکا سے ہء ، جسے محکمہ جنگلات نے درآمد کیا ہے ۔آج سے کچھ عرصہ قبل جب کراچی میں بلدیات میں ناظمین کا نظام تھا تو اچی کی شہری حکومت نے55لاکھ کونو کارپیس ایتھوپیا سے درآمد کرکے کراچی میں لگائے تھے،55 لاکھ پودے اب اشجار بن گئے ہیں یا نہیں۔۔ کراچی کی عوام کو بخوبی اندازہ ہے کہ 55لاکھ پودے بھی حکومتی نا اہلی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ، اگر اس کا دس فیصد بھی سلامت رہتا تو آج موسمی تبدیلی کی وجہ سے کراچی کی عوام میں اموات کی رفتار گرمی کی شدت کی وجہ سے اس قدر زیادہ نہ ہوتی ۔اس کے علاوہ ہمارے مقامی اشجار جن میں نیم ، برگد ، جامن اور شیشم شامل ہیں انہیں بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان نیوی نے سال 2016 سے2019تک 4 ملین سے زائد مینگرووز کے پودے لگائے۔2019تک پاک بحریہ نے گزشتہ تین سال میں سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر چالیس لاکھ سے زائد مینگروز کے پودے اگائے۔شہر کراچی سونامی زون میں واقع ہے ، سمندری طوفان کے خطرات کے پیش نظر سونامی بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے ، واضح رہے کہ مینگروز اہل کراچی کے لئے ڈیفنس وال ہے ، بلخصوص جزائر کی آبادی کاری کے منصوبوں سے سے بڑے پیمانے پر کٹائی سے ماحولیات پر منفی نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔

دریائے سندھ ہمالیہ سے شروع ہو کر پورے پاکستان سے بہتا ہوا زریں سندھ میں بحر عرب میں گرنے سے پہلے مختلف شاخوں میں بٹ جاتا ہے، جنہیں کریک کہا جاتا ہے۔اس مقام پر دریائے سندھ کا ڈیلٹا بنتا ہے اور دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں 17 کریک ہیں، جن میں دو کریک، کراچی کے پھٹی اور کورنگی کریک سے لے کر بھارتی سرحد کے پاس سیر یا سر کریک تک پھیلے ہوئے ہیں۔پاکستان میں پانی کی قلت کے باعث انڈس ڈیلٹا بری طرح متاثر ہوا ، دریائی پانی سمندر میں نہ جانے سے ، تمر ( مینگروز) کی نشو ونما میں کمی ہوئی ہے ۔ انڈس ڈیلٹا ساٹھ لاکھ ہیکٹر پر پھیلا ہوا ہے جس میں سے ایک لاکھ ہیکٹر سے زائد پر تمر ( مینگروز) کے جنگلات ہیں جبکہ کراچی سے لیکر سر کریک تک یہ تمر ( مینگروز) چھ لاکھ ہیکٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔بڑھتی گرمی کی شدت اور ماحولیاتی تبدیلی کی اہم وجہ درختوں کی افزائش کا نا ہونا ہے ، پاکستان بھر میں جنگلات کی کمی کے سبب ماحولیاتی آلودگی اور مسائل میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے ۔ پاکستان کے کم و بیش متعدد مقامات پر یہی صورتحال درپیش ہے خاص طور پر سندھ میں سمندری حیات کا اہم مسکن اور سیلاب اور طوفان کو روکنے کے لئے ساحل کے سپاہی سے موسوم ، تمر ( مینگروز) کی دوبارہ افزائش کے لئے سندھ حکومت اپنے ذرائع اور بحریہ کے تعاون سے بڑے پیمانے پر مینگروز لگا رہی ہے۔

مینگروو تین اقسام میں پایا جاتا ہے ، ریڈ مینگرو سب سے مشکل قسم قرار دی جاتی ، اس کی پہچان پیچیدہ سرخ جڑوں سے کی جاسکتی ہے ، دیں اثنا ریڈ مینگرو کی اونچائی نو فٹ تک ہوتی ہے ، اسے پودوں پر چلنے والے درخت بھی کہا جاتا ہے ، سرخ میگرو کی نسبت ب سیاہ مینگرو کی نسبت اونچی بلندی پر اگتا ہے ، جڑوں کی نمائش اور اکسیجن تک رسائی زیادہ حاصل کرتا ہے۔وائٹ مینگروز ، بلیک و ریڈ مینگروز سے بھی زیادہ اونچائی پر بڑھتا ہے ، بظاہر اس کوئی فضائی جڑیں نہیں ،لیکن اس مینگروو پلانٹ میں اس وقت جڑوں کی نشوونما پیدا ہوسکتی ہے جب سیلاب کی وجہ سے آکسیجن ختم ہوجاتی ہے۔ سفید مینگروو ہلکے سبز پتوں کی بنیاد پر غدود کے ذریعے نمک خارج کرتا ہے۔مینگروو کے ماحول کو خطرہ لاحق ہے، جس کی وجہ سے لاطینی امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیاء میں کیکڑے فارموں کے لئے زمین کو صاف کرنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی، زمین کی ترقی اور سیاحت بھی مینگرو پلانٹ کے مستقبل پر اثر انداز ہوتی ہے۔جنگلات کی تباہی سے بعض چھوٹے مفادات ہی حاصل ہوتے ہیں مثلاََ درخت کاٹ کر فروخت کردینا یا جنگلاتی وسائل کا تجارتی مقاصد کیلئے استعمال ۔ لیکن اس کے نقصانات پورے کرہ ارض پر پڑتے ہیں جس کا فوری نعم البدل بھی دستیاب نہیں ہوتا۔

کئی برس قبل شہری علاقوں خاص کر کراچی میں اشتہاری ہورڈنگز بورڈز لگانے کیلئے ہزاروں درختوں کو بے رحمی سے کاٹ کر بیچا گیا ، جس کا نعم البدل آج تک ممکن نہیں ہوسکا ۔ ایک طرف قیمتی درخت کاٹیگئے دوسری جانب ان درختوں کو غیر قانونی طور پر فروخت کرکے دوہرا نقصان بھی پہنچایا گیا۔پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں قدرتی جنگلات کی کٹائی کی شرح بہت زیادہ ہے۔درختوں کے کٹنے سے ماحولیاتی تبدیلی واقع ہوتی ہے نیز طوفانوں کی شدت ، زمینی کٹاؤ اور لینڈ سلاینڈنگ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ سے تعلق رکھنے والے رکن کے مطابق تقریباً 415 ملین گیلن صنعتی فضلہ روزانہ سمندر میں پھینکا جا رہا ہے، جس سے ماحولیات تیزی سے تباہی کی جانب گامزن ہے۔ ابو ظبی کی ماحولیاتی ایجنسی کے چیئرمین شیخ حمدان بن زاید آل نھیان نے ابوظبی میں 14 ملین مینگروو کے پودے لگانے کا اعلان کرچکے ہیں اسی طرح سندھ کے صوبائی وزیر سندھ سید ناصر حسین شاہ نے بھی آگاہ کیا کہ سندھ کے مختلف ساحلی علاقوں میں 2 ارب سے زائد مینگروز کے پودے لگائے جاچکے ہیں، جنہیں ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ کمپیوٹرائزڈکیا گیا ہے جبکہ مینگروز کے پودے لگانے اور انہیں کمپیوٹرائزڈ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

عالمی سطح پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلوں کو سامنے رکھتے ہوئے اور ملی جذبے کے پیش نظر نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کے سدباب کیلئے اپنا کردار ادا کریں بلکہ ایسی پالیساں بنائیں جن کی بدولت آنے والے والی نسلوں کو ایک بہتر پاکستان دیا جاسکے ، انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے ماحولیاتی آلودگی کے سدباب کیلئے موثرقانون سازی کی ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام متعلقہ ادارے اس حوالے سے اپنا آئینی کردار ادا کریں اور ساتھ ہی عوام الناس میں ماحوالیاتی آلودگی کے حوالے سے بیداری مہم چلائیں ۔ ممکنہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے رواں برس ہیٹ ویو کے خطرات ہیں ،ماہرین ہیٹ ویو متاثرہ شخص میں مرض کی علامت کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ مرض کی علامت کے حوالے سے اس مرض میں سر دار رہتا ہے شدید پیاس لگتی ہے الٹی اور متلی ہوتی ہے جلد سرض ، گرم ہوجاتی ہے ۔کمزاوری اور پٹھوں میں کھنچاؤ محسوس ہوتا ہے اچانک تیز بخار آتا ہے یہاں تک مریض بعض اوقات بے ہوش ہوجاتا ہے۔ کرونا وبا اور ہیٹ ویو کی مختلف علامات یکساں ہونے کے باعث انسانی زندگیوں کو بچانے کے لئے ہمیں ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا سب کام حکومت اور ادروں ہر نہیں چھوڑا سکتا اس کے لئے تمام احتیاطی تدابیر اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت بھی کام کرنا ہوھگا ، بہتر ماحول ایک صحت مند معاشرے کو جنم دیتا ہے ہم کسی ایک ادارے یا فرد کو سب کچھ سونپ پر بری الزما نہیں ہوسکتے ۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 650651 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.