دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 24 مارچ کو ٹی بی کا
عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد ٹی بی جیسے مرض کے حوالے سے عوام میں
آگاہی فراہم کرنا ہے، ملک بھر میں ٹی بی کے مرض کے علاج سے وابستہ ادارے اس
دن کے حوالے سے تقاریب اور سیمینار منعقد کر کے ٹی بی کے مرض کے حوالے سے
طریقہ علاج اور اس بابت ہونے والی جدید تحقیق سے مریضوں اور عوام کو آگاہ
کرتے ہیں، کچھ عرصہ قبل تک ملک میں ٹی بی کی بیماری کو خوف کی علامت کے طور
پر سمجھا اور بیان کیا جاتا تھا، اور ٹی بی کے مریض کو اس کے اہل خانہ کی
اکثریت نفرت کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور اسے اچھوت سمجھ کر اس سے دور رہتی
تھی، اس وجہ سے لوگوں کی اکثریت مریضوں کا علاج معالجہ تک کرانے سے کتراتی
تھی اور اکثریتی مریضوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تھا، جس وجہ سے ٹی
بی کے مرض میں مبتلاء مریضوں کی شرح اموات تشویشناک حد تک پہنچ چکی تھی،
وقت کے ساتھ ساتھ اس مرض بارے عوام میں شعور بیدار کیا جاتا رہا، جس کے
نتیجہ میں لوگ اب مریض سے دور رہنے کی بجائے اس کا علاج معالجہ کرانے کو
ترجیح دینے لگے ہیں، دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اس مرض سے نمٹنے
کیلئے کچھ سالوں سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس طرح اب
ملک بھر کے اضلاع، تحصیلوں، اور دیہاتوں میں واقعہ سرکاری سطح کے ہسپتالوں
میں ٹی بی کنٹرول پروگرام کے تحت ٹی بی کے مریضوں کیلئے مفت علاج معالجہ کی
سہولت میسر ہے، جبکہ ٹی بی کے متعلقہ ٹیسٹ بھی سرکاری طور پر بغیر کسی
معاوضہ کے ہر ضلعی تحصیل سطح کے ہسپتالوں میں کیے جا رہے ہیں سرکاری اعداد
و شمار کے مطابق دنیا میں آبادی کے تناسب سے ہر تیسرا شخص اس مرض سے
بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر ہے، 2020ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان
میں ٹی بی کے رجسٹرڈ مریضوں کی کل تعداد 3 لاکھ 69 ہزار 548 ہے، جن میں
آزاد کشمیر کے 5215، بلوچستان کے 10333، فاٹا کے 4753، خیبر پختونخواہ کے
43598، پنجاب کے 2 لاکھ 20 ہزار 775، سندھ کے 80061، گلگت بلتستان کے 4753
اور شمالی علاقہ جات کے 1897 مریض شامل ہیں، جن کا علاج معالجہ سرکاری سطح
پر کیا گیا اور کیا جا رہا ہے، اور یہ مریض ٹی بی ڈاٹ کنٹرول پروگرام کے
تحت رجسٹرڈ ہوئے۔
سینئر چیسٹ سپیشلسٹ و ڈسٹرکٹ ٹیچنگ ہیڈ کوارٹر ہسپتال سرگودھا کے آئسولیشن
وارڈ کے انچارج ڈاکٹر سکندر حیات وڑائچ ٹی بی کے مرض پر روشنی ڈالتے ہوئے
کہتے ہیں کہ ٹی بی تپ دق ایک متعدی بیماری ہے جو عمومی پھپھڑوں کو متاثر
کرتی ہے مگر یہ جسم کے کسی بھی حصہ کو متاثر کر سکتی ہے، ٹی بی کا وجود 4
ہزار سال پرانا ہے، مصری ممیوں میں بھی اس مرض کی نشانیاں پائی گئی تھیں،
رپورٹ کے مطابق تقریبا دو بلین افراد (دنیا کی آبادی کا تقریبا ایک تہائی)
ٹی بی کے جراثیم سے متاثر ہوتے ہیں، عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال پوری
دنیا میں 9 ملین افراد ٹی بی سے متاثر ہوتے ہیں، ٹی بی کے مرض سے ہر سال 2
ملین افراد کی موت واقعہ ہو جاتی ہے۔ ملیریا اور HIV کے ساتھ اب ٹی بی کا
شمار بھی دنیا میں متعدی ترین بیماریوں میں ہوتا ہے، یہ براہ راست ایسے شخص
سے دوسرے کو لگتی ہے جس کے پھیپھڑوں یا گلے میں ٹی بی کا جراثیم ہو اور یہ
مرض ہوا کے ذریعے اس وقت پھیلتا ہے جب اس مرض میں مبتلاء مریض کھانستے یا
چھینکتے ہیں، اس بیماری کو لگنے کیلئے قریبی اور طویل رابطے کی ضرورت ہے،
اس کی علامات میں دو ہفتے سے زیادہ کھانسی کا ہونا، ہلکا بخار اور پسینہ کا
آنا، بھوک کا نہ لگنا، وزن میں کمی ہونا، بلغم میں خون کا آنا اور تھوک کے
ساتھ خون کا آنا شامل ہیں۔ ان علامات کی صورت میں مریض قریبی مرکز صحت یا
سرکاری ہسپتال سے رجوع کر کے بلغم کے ٹیسٹ اور ایکسرے کرانے کے بعد علاج
شروع کرا سکتا ہے۔
یہ مرض ان افراد میں زیادہ پھیلتا ہے جو ایک ہی کنبے میں ٹی بی سے متاثرہ
افراد کے ساتھ رہ چکے ہوں یا طویل عرصہ تک مریض کے ساتھ رابطے میں رہے ہوں،
غیر صحت مند یا زیادہ ہجوم والی جگہوں پر رہنے والوں میں بھی یہ مرض لگ
سکتا ہے، ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو بے گھر ہوں یا آلودہ ماحول میں
رہ رہے ہوں یا وہ ان والدین کے بچے ہوں جن کو پہلے ٹی بی رہ چکی ہو۔ منشیات
کے عادی اور کثرت سے شراب پینے والوں اور کم خوراک کھانے والوں کو بھی یہ
مرض اپنی لپیٹ میں لیتا ہے، اور اگر کسی میں ٹی بی کا مرض تشخیص ہو جائے تو
مریض اور لواحقین کو گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ٹی بی اب قابل علاج مرض
ہے اور نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام اور عالمی ادارہ صحت نے DOTS طریقہ علاج
وضع کیا ہوا ہے جس کے تحت ایسے مریضوں کو بغیر کسی وقفہ کے 6 سے 8 ماہ تک
کیلئے ملک کے تمام سرکاری ہسپتالوں سے ادویات فری فراہم کی جا رہی ہیں۔
ڈاکٹر سکندر حیات وڑائچ کا کہنا ہے کہ ملک میں ٹی بی کو پھیلنے سے بچانے کا
اہم اور موثر طریقہ اس مرض سے متاثرہ مریض کی جلد از جلد نشاندہی کرنا اور
یہ یقینی بنانا ہے کہ مریض اپنی ادویات کا کورس صحیح طریقے سے استعمال کر
رہا ہے۔ کیونکہ علاج ادھورا چھوڑنے کی صورت میں مریض کو نئے سرے سے کورس
شروع کرنا پڑتا ہے، دوران علاج مریض کی حوصلہ افزائی اور بہتر خوراک سے
مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، علاج کے دوران حاملہ ماں اپنے بچے کو دودھ
پلا سکتی ہے، اس سے بچے کی صحت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ ضرورت اس امر
کی ہے کہ ہمیں اس مرض کے عالمی دن کے موقع پر یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم ٹی
بی کے خاتمے کیلئے سرکاری و نیم سرکاری سطح پر ہونے والی کوششوں میں اپنا
حصہ بطور رضا کار ڈالیں گے تو جلد اس مرض پر ملک میں قابو پا لیا جائے گا۔
|