اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم تقسیم کے دہانے پر
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم تقسیم کے دہانے پر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی دس جماعتوں کا حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)ظاہری بیانات اور ٹی وی ٹاک شو میں ایک دوسرے پر جس قسم کے جملے بازی کی لپیٹ میں ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پی ڈی ایم کا شیرازہ اگر نہیں بکھرا تو وہ دو حصوں میں تقسیم کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ نکلے تھے مل کر حکومت گرانے خود ہی باہم دست و گریباں ہوگئے۔ اس طرح بھلا حکومتیں گراکرتی ہیں۔ اقتدار میں نہ ہوں تو اقتدار کے حصول کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادیتے ہیں۔ ایک دوسرے پر ایسے ایسے الزامات لگاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔اقتدار کا فیصلہ کسی بھی طرح ہوجائے تو بازی ہارجانے والا دھاندلی دھاندلی کا ایسا شور مچاتا ہے کہ اسے اس کے سوا کوئی دوسرا کام ہی نہیں ہوتا۔ اب سب سے آسان کام جو ہماری مرضی سے نہیں آیا اسے سلیکٹڈکا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے۔ الیکشن2018کے نتیجے میں سندھ پاکستان پیپلز پارٹی کو ملا، خیبر پختونخواہ اور پنجاب پی ٹی آئی اور بلوچستان میں باپ پارٹی اور اتحادیوں کی حکومت قائم ہوگئیں۔ پی ڈی ایم کا ڈول ڈالنے میں پی پی زیادہ پیش پیش تھی۔ حالانکہ وہ پہلے دن سے سندھ کی حکومت کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔ نہ ہی منتخب ایوانوں سے مستعفی ہونا چاہتی تھی۔ جب بھی استعفے دینے کی بات ہوتی پی پی کسی بھی طرح پی ڈی ایم کی جماعتوں کو ادھر ادھر کی باتوں میں لگا دیا کرتی تھی۔ یہ کریڈٹ پی پی کو جاتا ہے کہ اس نے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو ضمنی انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کیا، اسی نے سینٹ میں حصہ لینے پر آمادہ کیا ورنہ تو پی ڈی ایم کی بڑے جماعتیں نون لیگ اور مولانا تو اس کے حق میں تھے ہی نہیں۔ پی پی بڑی جماعت تھی اس لیے پی ڈی ایم کی جماعتیں پی پی کی رائے کر ترجیح دیتی رہی۔ پی پی کے کئی رہنما صاف الفاظ میں ایوانوں سے مستعفی ہونے کے حق میں نہیں تھے یہاں تک کہ پی پی کی سی ای سی نے یہ فیصلہ کر بھی دیا تھا۔ اس کے باوجود نون لیگ، مولانا کو نہ معلوم کیسے یقین تھا کہ پی پی استعفے دینے میں ان کا ساتھ ہوگی۔ سارے مراحل سے گزرتے ہوئے، جلسے، جلوس، ریلیوں کے بعد مرحلہ اسلام آباد میں دھرنے کا آن پہنچا یعنی 26مارچ۔ اس دوران سینٹ کے انتخابات کا معرکہ بھی لڑا گیا، پہلے سینٹ کے رکن کی حیثیت سے یوسف رضا گیلانی کی فتح، جو یقینا نون لیگ کے ووٹوں کے بغیر ممکن نہیں تھی، حکومت کو اس سیٹ پر شکست کا سامنا کرنا پڑا، اسلام آباد سے ہی خاتون سینٹر پی ٹی آئی کی جیت گئیں۔ اب مرحلہ چیرئمین کا آیا اس میں یوسف رضا گیلانی کو شکست ہوئی، کیسے اس کی تفصیل سب کے علم میں ہے۔ اسی طرح جے یو آئی کے امیدوار ڈپٹی چیرئمین کے لیے مولانا عبدالغفور حیدری صاحب کو شکست ہوئی۔ ابھی یہ واویلاجاری تھا کہ سینٹ میں قائد حزب اختلاف کا انتخاب عمل میں آنا تھا، نون لیگ اور مولانا کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم میں یہ طے ہوا تھا کہ چیر ئمین سینٹ پی پی کا ہوگا، ڈپٹی چیرئ مین جے یو آئی کا اور قائد حزب اختلاف نون لیگ کا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اس قسم کی کوئی بات نہیں ہوئی۔چنانچہ قائد اختلاف کے لیے پی پی نے یوسف رضا گیلانی کو امیدوار بنایا، پی پی کے 21ووٹ تھے، جماعت اسلامی، اے این پی، آزاد امیدوار اور باپ پارٹی کے ووٹوں سے یوسف رضا گیلانی لیڈر آف اپوزیشن منتخب ہوگئے۔ نون لیگ اور مولانا دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے بلکہ سکتے میں آگئے۔اب کیا ہوسکتا تھا، بازی ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ نون لیگ کی جانب سے پی پی پر گولا باری شروع گئی، دوسری جانب سے بلاول کے علاوہ دیگر نے بھی جواب دیے۔ بلاول نے مریم کو ٹھنڈا پانی پینے کا مشورہ دیا۔مولانا سے کہا کہ لاڑکانہ سے مولونا نے اسٹیبلشمنٹ سے مل کر الیکشن لڑا پھر بھی ان کے دھرنے کی حمایت کی، وہ مجھ سے ناراض نہیں ہوسکتے۔ بلاول کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت اپوزیشن کو تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اپوزیشن حکومت کو گرانا چاہتی تھی۔ یہاں توحکومت کو اپویشن کو گرانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی آپس میں ہی تقسیم ہونے جارہے ہیں۔ یہاں بھی اقتدار ہی بنیاد ہے۔ ایک وجہ پی پی کی جانب سے یہ بھی بتائی گئی کہ نون لیگ نے اعظم نذیر تارڑ کو سینٹ میں قائد حزب اختلاف کے لیے نامذد کیا تھا پی پی کے لیے یہ شخص کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ کچھ بھی ہو پی ڈی ایم میں دراڑیں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔ پی ڈی ایم کا اجلاس پی پی، پی این پی کے بغیر منعقد ہوا جس میں نون لیگ سمیت پانچ جماعتوں کے27 سینیٹرزکا آزاد اپوزیشن گروپ بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ گویا پی ڈی ایم نے اپنے اجلاسوں میں پی پی کو غائب کردیا ہے۔ البتہ اے این پی سے خفیہ ملاقاتیں ہورہی ہیں۔ اس گروپ میں پیپلز پارٹی اور اے این پی شامل نہیں۔ سینٹ میں نون لیگ کے پارلیمانی لیڈر اعظم نذیر تارڑ کے پارٹی ترجمان کی طرف سے جاری بیان کے مطابق مسلم لیگ (ن)،جمعیت علماء السلام (ف)،پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور بی این پی (مینگل) نے سینٹ میں الگ اپوزیشن بلاک بنانے کے فیصلے کااعلان کیا ہے۔ 5جماعتوں کے اجلاس میں پی پی اور اے این پی سے وضاحت طلب کرنے کے لیے صدر پی ڈی ایم سے رجوع کرنے بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔دوسری جانب سنیٹ کے اجلاس کی تیاری کے طور پر یوسف رضا گیلانی نے بھی اپنے سینیٹرز سے رابطے شروع کردیے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کل ہونے والی پارٹی کی سی ای سی کا اجلاس بھی ملتوی کردیا ہے۔ اس سارے عمل میں پیپلز پارٹی کی جانب سے کون اس قسم کی پالیسیاں بنا رہا تھا۔ پی ڈی ایم اجلاس میں دھرنے کو استعفوں سے مشروط کرنا اور پیپلز پارٹی کا اس معاملے پر سخت اسٹینڈ لینا، بلاول کا تو کہنا تھا کہ 26مارچ کے دھرنے کو استعفوں سے مشروط کرنے کامقصد مارچ کو سبوتاژ کرنا تھا۔ مختصر یہ کہ حکومت گرانے جو نکلے تھے وہ باڈر پر پہنچ کر خود ہی دست و گریباں ہوگئے، آپس میں اختلافات ہوگئے، ویسے بھی نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ماضی کی تلخیاں شدید قسم کی رہیں ہیں، اس وقت صاف محسوس ہورہا تھا کہ کہ صرف اور صرف بغض عمران خان میں یہ ازل ازل کے مخالفین وقتی طور پر ساتھ مل گئے ہیں، جیسے ہی مفادات کا ٹکراؤ ہوا، راہیں جدا ہوجائیں گی اور وہی ہوا۔ کچھ بھی ہو اپوزیشن کا ہونا بہت ضروری ہے، بلکہ مضبوط اپوزیشن ملک اور قوم کے مفاد میں ہے۔ عمران خان کی حکومت نے اپنے آدھے دور حکمرانی میں اچھے کام ضرور کیے ہوں گے لیکن مہنگائی ایک ایسا ناسور ہے کہ عمران اور اس کے بیرون ملک سے درآمد کردہ ماہرین بھی اس کا علاج نہ کر سکے۔ عمران خان کے پاس اب بھی وقت ہے ڈھائی سال ہیں اسے اپنی گورننس پر بھر پور توجہ دینی چاہیے۔ وزیروں، معاونین خصوصی سب کو اب ملک اور عوام کی بہتری کے کاموں پر لگادینا چاہیے۔ کام کریں، محنت کریں، کچھ کر کے دکھائیں، عوام اپنے مسائل کا، مشکلات کا حل چاہتی ہے۔مہنگائی سب سے اہم اور سب سے بڑا مرض ہے اس کا علاج جس قدر جلد ہوسکے کرنا چاہیے۔ لوگ ابھی سے خوف میں مبتلا ہورہے ہیں کہ رمضان آیا ہی چاہتا ہے، مہنگائی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے رمضان میں اس نے عوام کا کیا حال کرنا ہے اللہ ہی جانتا ہے۔ (4اپریل 2021)
|