ڈیورنڈلائن کا قیدی۔ فیض اللہ خان

ڈیورنڈلائن کا قیدی۔ فیض اللہ خان
افغانستان کی ننگر ہار جیل میں گزارے پُر ابتلا ء ایام کی کہانی
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدنی
28مارچ2021 ء اتوارکی شب سوشل میڈیا گروپ’کراچی عروس البلاد‘کی ادبی بیٹھک زاہد علی خان صاحب کی رہائش گاہ واقع گلستان جوہر میں منعقد ہوئی۔ علم و ادب کے روشن ستاروں کی یہ تیسری ہنستی مسکراتی، خوشیاں بکھیرتی، ایک دوسرے پر خلوص و محبت کے پھول نچھاور کرتی محفل تھی۔ تقریب کا اختتامی کتابوں کے تحائف دینے کی رسم تھی جس میں مخصوص مہمانوں کو کتابوں کے تحائف بھی دئے گئے۔ تحائف وصول کرنے والوں میں خوش قسمت ہم بھی تھے۔اقبال اے رحمن مانڈیاکی کتاب ”اس دشت میں اِک شہر تھا: کراچی کے سنہرے دنوں کی داستان“ ہمیں پہلے ہی مل چکی تھی اور اس پر تفصیلی اظہاریہ بھی لکھا جاچکا تھا۔ دوسری کتاب شہر کراچی کی ایک معروف ادبی شخصیت اویس ادیب انصاری کی بیگم شگفتہ فرحت صاحبہ کی تصنیف ”تذکرہ شخصیاتِ بھوپال“ سے ہمیں نوازا گیا۔اس تذکرہ پر بھی ہم اپنی بساط بھر تحریر قارئین کی نذر کر چکے ہیں۔ تیسری کتاب ایک نوجوان صحافی فیض اللہ خان کی تھی جو زاہد علی خان ZAK Books کے تحت شائع کی۔ کتاب کا عنوان ہے”ڈیورنڈلائن کا قیدی“۔ یہ مصنف کے افغانستان کی ننگر ہار جیل میں گزارے پُر ابتلا ء ایام کی بپتا ہے۔اس صحافی کے قید کی بازگشت بہت پہلے 2014 ء میں میڈیا پر عام ہوچکی تھی۔ فیض اللہ نے اپنی قید کی کچھ باتیں ساتھیوں سے شیئر بھی کیں۔ اتفاق کہیے کہ اس محفل میں فیض اللہ خان میرے برابر والے صوفے پر ہی بیٹھے تھے۔ ان کی کچھ باتیں میں آسانی سے سن سکا، کچھ سوالات میں نے بھی ان سے کیے، جن کے جواب انہوں نے دئے۔
دورانِ قید ادب کی تخلیق کی روایت بہت قدیم ہے۔ ابتدائی دور میں قیدی خطوط تحریر کیا کرتے، وہ خطوط کتابی صورت میں منظر عام پر آچکے ہیں۔ ہر قیدی اپنے مزاج، دلچسپی، شوق اورصلاحیت کے مطابق جیل میں ادب تخلیق کرتا رہا ہے۔ اگر کسی کی دینی معاملات پر دسترس تھی تو اس نے دینی موضوعات پر لکھا، کسی نے اپنی قید وبند کی صعوبتوں کی کہانی قلم بند کی، قیدی اگر شاعرہوا تو اس نے شاعری میں اپنی بپتا بیان کی۔قیدیوں کی کچھ تحریریں جو کتابی صورت میں یا اشعار کی صورت میں منظر عام پر آئے چند ذہن میں آرہی ہیں۔ جیسے پانچ جلدوں پر مشتمل ”کونسیلیشن آف فلاسفی“روم کے بونیتھیس کا عظیم کارنامہ ہے جسے سزائے موت ہوگئی تھی، مارکوپولوکا نام بھی قید کی یادداشتوں کے حوالے سے تاریخ میں اہم ہے۔ ہسپانوی ناول نگار ’کیرونٹس‘ کی تصنیف ”ڈان کونگزوٹ“ بہت مشہور ہے۔سر نوالٹر سکاٹ ریلیگ، جان بنیان، آسکر وانلڈ و دیگر مغربی شخصیات ہیں کہ جنہوں نے قید کے دوران جو ادب تخلیق کیا وہ تاریخ میں اہم ہیں۔ اسلامی دنیا کی بعض عظیم شخصیات جیسے علامہ سرخسِی کی کتاب ’المبسوط‘ فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہے جو تیس جلدوں پر مشتمل ہے، ابن تیمیہ نے زیادہ تر تصانیف قید و بند کے دوران ہی لکھیں، شیخ البانی نے قید کے دوران دینی علوم پر بھر پور لکھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ”تفسیر ترجمان القرآن“،”تذکرہ“ اور”غبار خاطر“ اپنی نظر بندی کے دوران ہی مکمل کیں، مولانا سیدابو الا اعلیٰ مودودی نے تفہیم القرآن کی جلد اول جیل میں لکھی، مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کو بھی تین ماہ قید میں رہنا پڑا انہوں نے فارسی کی طویل نظم لکھی، مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے کلام میں قید و بند کی جھلک صاف ظاہر ہے۔جعفر تھانیسری نے ”نصائح جعفری‘ تحریر کی، ان کی معروف سوانح عمری ”کالا پانی“ معروف ہے۔ حسرت موہانی قید با مشقت میں رہے جیل میں کہا ہوا ایک شعر بہت مشہور ہے ؎
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اِک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
حسرت کے ساتھ جیل میں عام قیدی کی مانند سلوک کیا گیا، مولانا کی قید میں اور اخلاقی مجرموں کی قید میں کوئی فرق نہیں تھا۔ ان سے دس ماہ تک چکّی پسوائی گئی۔ اس دوران رمضان شریف کا مقدس مہینہ بھی آیا۔ آپ نے اس موقع پر یہ شعر کہا ؎
کٹ گیا قید میں ماہ رَمضان بھی حسرتؔ
گرچہ ساما ن سحر کا تھا نہ افطاری کا
حسرت کے علاوہ مولانا محمد علی جوہر، چوہدری افضل، ظفر علی خان، فیض احمد فیض، حبیب جالب، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، جاوید ہاشمی اور دیگر شامل ہیں جنہوں نے قید کے دنوں میں ادب تخلیق کیا۔ پیش نظر کتاب میں لفظ ’قیدی‘ کی وضاحت کی ضرورت نہیں البتہ یہ ڈیورنڈ لائن
کیا ہے؟ عام قاری اس لفظ ’ڈیورنڈ لائن‘ سے عام طور پر واقف نہیں۔ تو پہلے سمجھتے ہیں کہ یہ کس چیز کا نا م ہے۔ اس کی وضاحت کتاب کے ناشر نے
شروع ہی میں کر کے قاری کی اس مشکل کو آسان کردیا ہے۔ وضاحت کرتے ہوئے لکھا ”1849ء سے 1890ء کے درمیان افغانستان کے سرحدی قبائل اور سامراجی برطانوی حکومت ہند کے درمیان چالیس سے زیادہ خونریز جھڑپیں ہوئیں، جس میں باطانوی حکومت کو دو ہزار سے زیادہ سپاہیوں اور افسروں کا جانی نقصان برداشت کرن پڑا۔ چناں چہ ان سرحدی جھڑپوں اور شمال مغربی سرحد پر روس کااثر و رسوخ اور اقتداربڑھ جانے کے اندیشے سے نجات کے طویل المیعاد و معاہدے کی غرض سے برطانوی ہند کے اس وقت کے وائسرائے بہادر نے افغانستان کے والی امیر عبد الرحمن سے رابطہ قائم کیا اور اپنے سفارت کار اور امور خارجہ کے سیکریٹی سر مار ٹیمر ڈیورنڈ(Sir Martimar Durand)کو ستمبر 1893ء میں کابل بھیجا، 12نومبر 1893ء میں دونوں حکومتوں کے مابین ایک سرحدی سمجھوتہ طے پاگیا جو خط ڈیورنڈ(Durand Line)کے نام سے موسوم ہے“۔ڈیورنڈ ایک برطانوی انگریز کا نام ہے اور لائن اکثر علاقوں، جگہوں کو لائن بھی کہا جاتا ہے جیسے موسیٰ لائن، جیکب لائن، رنچھوڑ لائن وغیرہ وغیرہ۔
فیض اللہ خان کا تعلق تو خیبر پختونخواہ سے ہے لیکن اس کا لڑکپن اور جوانی کراچی میں گزری اور گزر رہی ہے۔ صحافت کے پیشہ سے وابستہ، پرنٹ میڈیا کے بعد برقی میڈیا سے وابستہ ہوئے۔ جب قیدی بنے تو ٹی وی چینل اے آر وائی سے وابستہ تھے۔ خوب رو، سرخ و سفید، شانوں کو چھوتے ہوئے بڑے بڑے گھنگریالے سیاہ چمکدار بال، کالی بہت چھوٹی داڑھی چھوٹی موچھوں کے ساتھ، گورے رنگ و روپ والے چہرہ پر گویا چاند کے گرد سیاہ بادلوں کا حالہ، روشن آنکھیں، فربہ جسم، کتابی چہرہ، کھڑے نقش۔ یہ خد و خال قیدی بنتے وقت کے ہیں جو ان کی تصویر سے اخذ کئے گئے۔ اب بال مختصر ہوچکے ہیں، باقی سب کچھ وہی ہے۔البتہ اب جاتی جوانی کے آثارنمایاں محسوس ہورہے ہیں۔ قیدی کیوں بنیں؟ خبر کی تلاش کسی بھی صحافی کا بنیادی مقصد ہوتا ہے، صحافی اور تجزیہ کار خبروں کو چھپا چھپا کر رکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کی خبر وہ ہی سب سے پہلے عام کریں۔ نئی نئی خبریں، اندر کی کہانی، ایسے لوگوں سے ملاقات، انٹر ویو جن سے ملنا عام لوگوں کے لیے نہ ممکن ہو ان سے مل کھوج لگانا صحافیانہ عمل تصور کیا جاتا ہے۔ فیض اللہ خان پر جوانی کا نشہ غالب تھا۔ وہ کوئی ایسا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا جو اس سے پہلے کسی نے نہ کیاہو، یا پھر مختلف ہو، ایسی خبر جسے سن کر لوگ چونک جائیں، چینل کی ریٹنگ میں اضافہ ہوجائے۔ ممکن ہے قیدی کی روداد پڑھ کر میری یہ سوچ ہو۔ قیدی کے ذہن میں ایسا کچھ نہ ہو وہ تو افغانستان میں موجود تحریک طالبان اورجماعت الا حرار کے سربراہان سے ملاقات کرنے، ان کے انٹر ویو کرنے کے ارادے سے پاک افغان سرحد ننگر ہار پہنچ گیا۔ یہ نڈر صحافی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یقینا کچھ تیاری ہوگی لیکن یہ بات انہوں نے خود بھی لکھی اور میرے پوچھنے پر بھی بتائی کہ افغانستان جانے کے لیے انہوں نے ویزا حاصل نہیں کیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ہم نے یہ تو سنا ہے کہ افغانی بغیر ویزے کے پاکستان میں آتے جاتے ہیں کیا پاکستانی بھی ایسا ہی کرتے ہیں، جواب ہاں میں تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حامد کرزئی افغانستان کے صدر (بادشاہ) تھے۔ افغانستان میں صدر مملکت بادشاہ کو بادشاہ کہا جاتا ہے۔ فیض اللہ خان صاحب کی طالبان لیڈر احسان اللہ احسان سے ملاقات طے تھی اور وہ ان کے مہمان بھی رہے۔ لیکن افغانستان کی ایجنسیز نے انہیں مشکوک سمجھ کر دھر لیا، پاکستانی فوج کی جانب سے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ پھر ان پر کیا بیتی، یہ سب کچھ انہوں نے اپنی اس کتاب میں عام اور سہل الفاظ میں بیان کیا ہے۔ انہیں افغان عدالت کی جانب سے چار سال سزاسنائی گئی، کال کوٹھڑی سے جیل کی بیرک، ہتھکڑیاں اور بیڑیوں کی تفصیل، تفتیش کے دوران سوال و جواب سب کچھ انہوں نے بہت سادہ انداز سے اس کتاب میں قلم بند کردیا ہے۔ اچھی بات انہوں نے یہ بتائی اور لکھی بھی کہ ان چھ ماہ کے دوران جب جب اور جس جس پولیس یا فوجی اہلکار نے ان سے تفتیش کی، کال کوٹھڑی میں رکھا، تمام کچھ زبانی کلامی ہوا، یعنی ان پر تشدد نہیں کیا گیا، یہ ایک اچھا عمل تھا افغان تحقیقاتی اہلکاروں کی جانب سے۔
فیض اللہ کے قید ہونے پر ان کے ہم پیشہ ساتھیوں نے ان کے لیے آواز بلند کی، ان کی گرفتاری عالمی خبر بن گئی۔ ان کی رہائی کے لیے جدوجہد کی، ان کے ٹی وی چینل نے ان کی ہر طرح مدد کی، صحافیوں میں سلیم صحافی ان کی رہائی میں پیش پیش رہے، فیض کی شریک حیات نے بھی بہادری سے کوششیں کیں۔ ملالہ یوسفزئی نے بھی افغانستان کے اس وقت کے صدر سے فیض اللہ کی رہائی کی درخواست کی۔ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے فیض اللہ خان کی رہائی کے احکامات جاری کیے۔ فیض اللہ نے لکھا کہ ان کی رہائی کے احکامات جاری کرنا حامد کرزئی کا بطور صدر آخری حکم نامہ تھا یعنی جس دن فیض اللہ کو رہائی ملی وہ دن حامد کرزئی کی بادشاہت کا آخری دن تھا۔ فیض اللہ جب افغانستان کی جیل سے رہا ہوئے تو ان سے کچھ افغانی صحافی ملاقات کے لیے دروازہ پر موجود تھے۔ جنہوں نے فیض اللہ خان کو رہائی کی مبارک باد دی ان صحافیوں کا یہ بھی کہنا تھا بقول فیض اللہ خان کہ ”صحافیوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے غیر قانونی طور پر بارڈر کراس نہیں کرنا چاہیے تھا“۔ یہی بات اس کتاب کا حاصل ہے۔ صحافی یا کوئی اور غیر قانونی عمل ہرگز نہ کریں۔ خاص طور پر اپنے ملک سے کسی بھی دوسرے ممالک میں کسی بھی مقصد سے غیر قانونی ہر گز نہ جائیں۔سچ بولیں، فیض اسیری کے دوران سچ پر قائم رہے، اللہ نے ان کی مدد کی۔ فیض اللہ کو چار سال قید کی سزا ہوچکی تھی، اگر ان کی رہائی کے لیے کی جانے والی کوششیں بار آور نہ ہوتیں یا حامد کرزئی اپنے اختیارات استعمال نہ کرتے تو سوچیں کہ فیض اللہ کو زندگی کے چار قیمتی سال کس مشکل میں گزارنا پڑتے۔ کتاب دلچسپ ہے۔ فیض اللہ کی قید و بند کی داستان، فیض کے چند ماہ کی آپ بیتی، ایک سبق آموز کہانی اور تاریخ بھی داستان بھی اور افغانستان کی ننگر ہار جیل میں گزارے پُر ابتلا ء ایام کی بپتا بھی۔ سادہ الفاظ میں قلم بند کی گئی ہے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ (5اپریل2021ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1276951 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More