غیر مسلموں کے نیک اعمال اور مومنین کے درجات

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

ویسے تو قرآن مجید میں بہت سی آیات ہیں جن میں جنت کی ٹھیکیداری صرف مسلمانوں سے منسوب نہیں بتائی گئی ہے یعنی ایسا نہیں کہ صرف بائیولوجیکل مسلمان ہی جنت میں جائیں گے بلکہ تقویٰ پرہیز گاری نیک امور کی انجام دہی وغیرہ کے ساتھ زندگی گذارنے والے افراد بھی بہشت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوں گے۔ انشاءاللہ۔

بہشت کے بھی درجات ہیں، اعمال کے بھی درجات ہیں، فضائل و مناقب کے بھی درجات ہیں غرض ہر شہ خداوند تعالیٰ نے درجات اور مراحل میں تخلیق کی ہے۔ لہذا بہشت میں جانے کا زعم اس احساس کے ساتھ بھی ہونا چاہیے کہ کون سا درجہ پانے کی آرزو ہے۔

اب ذرا زیر نظر آیت کو پڑھیے اور سر دُھنیے:
لَيْسُوا سَوَاءً ۗ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّـهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ ۔ يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُولَـٰئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ ۔ وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَن يُكْفَرُوهُ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ
یہ(یہودی اور نصرانی) لوگ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں .اہلِ کتاب ہی میں وہ جماعت بھی ہے جو دین پر قائم ہے راتوں کو آیات الٰہی کی تلاوت کرتی ہے اور سجدہ کرتی ہے ۔یہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں. نیکیوں کا حکم دیتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں اور نیکیوں کی طرف سبقت کرتے ہیں اور یہی لوگ صالحین اور نیک کرداروں میں ہیں ۔یہ جو بھی خیر کریں گے اس کا انکار نہ کیا جائے گا اور اللہ متّقین کے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

سورہ آل عمران 113 سے لیکر 115 آیات تک میں یہودیوں کے ان افراد کی بہشت میں رسائی کی نوید سنائی جارہی ہے جو ان الہٰی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں جس کو اُس زمانے کے پیغمبر ان گرامی لے کر آئے تھے۔ یہ راتوں کو سجدہ کرتے ہیں یعنی یہ غرور وتکبر والے نہیں ہوتے اور خاکساری ان کا شعار ہوتی ہے اوریہ خالق کائنات کے ساتھ کائنات کے اختتام اور اپنی آخرت کی بھی فکر کرتےہیں انکے ذہنوں میں عمل اور رد عمل کا قانون بھی موجود ہوتاہے۔ اسی بنیاد پر یہ تخلیقی، تعمیری اور مثبتتات کی نصیحت کرتےہیں خود اپنے آپ کو بھی اور اپنے سے مانوس افرادکو بھی۔ غیر تخلیقی، فساد آور، اور منفیات کی رد کرتے ہیں اور اس سے روکنے کی کوشش کرتےہیں نیز ہر طرح کی خیر انجام دیتےہیں اور ہر طرح کی نیکی انجام دیتے ہیں۔

آج کے جدیدتحقیقی دور میں یہ اصول بہت واضح اور روشن ہے کہ کائنات کی کوئی بھی کلی یا جزئی تخلیق بنا مرکزی کردار، مرکزی نقطہ کے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔ ہماری اس کہکشاں میں سورج اور چاند کا کردار، جسم میں قلب و دماغ کا کردار،گاڑی کا ڈرائیور، کمپیوٹر کی آئی سی یا مدر بورڈ، چکی کی کیل جس پر پوری چکی کا دارمدار ہوتا ہے، اشیاء میں موجود ایٹم اور پھر ایٹم میں نیوکلیس کا کردار۔ وغیرہ وغیرہ

کوئی شک نہیں ہے کہ کوئی بھی معاشرہ یاگروہ ایک ایسے اجتماعی نظام کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا ہے جس کی سر پرستی ایک توانا رہبر و امام کرتا ہو۔اسی لئے زمانہ قدیم سے آج تک تمام اقوام و ملل نے اپنے لئے ایک رہبر و امام کو منتخب کیا ہے۔ کبھی یہ رہبر صالح ہو تا تھا لیکن بہت سے مواقع پر ناصالح ہو تا تھا ۔اکثر مواقع پر امتوں کی ایک رہبر کی ضرورت اور احتیاج سے ناجائز فائدہ اٹھا تے ہو ئے ظالم بادشاہ اور سلاطین زورو زبر دستی سے لوگوں پر مسلط ہو کر اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے تھے۔۔۔یہ ایک طرف۔

دوسری طرف انسان کو اپنے معنوی کمال کے مقصد تک پہنچنے کے لئے اس راستہ کو اکیلے ہی نہیں بلکہ جماعت اور معاشرہ کے ہمراہ طے کر ناچاہئے ۔کیونکہ فکری ،جسمانی، مادی اور معنوی لحاظ سے انفرادی طاقت کمزور ہو تی ہے اور اس کے مقابلہ میں اجتماعی طاقت بہت قوی ہوتی ہے ۔

لیکن ایک معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں ایک ایسا صحیح نظام حکم فر ماہو،جو انسانی صلاحیتوں میں نکھار لائے ،انحرا فات اور گمراہیوں سے مقابلہ کرے،معاشرے کے تمام افراد کے حقوق کا تحفظ کرے،بلند مقاصد تک پہنچنے کے لئے پرو گراموں کو منصوبہ بند طریقے پر منظم کرے اور ایک آزاد ماحول میں پورے معاشرے کو حرکت میں لانے کے عوامل یکجا کرے۔

چونکہ ایک خطا کارانسان میں ایسی عظیم ذمہ داری سنبھالنے کی صلاحیت اور طاقت نہیں ہے ،جیسا کہ ہم ہمیشہ صحیح راستہ سے سیاسی حکمرانوں کے انحراف اور گمراہی کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں ،اس لئے ضروری ہے کہ خداوند متعال کی طرف سے ایک معصوم رہبران امور کی نگرانی ونظارت کرے اور لوگوں کی توانائیوں اور دانشوروں کے افکار سے استفادہ کرتے ہوئے انحرافات کی بھی روک تھام کرے۔یہ امام کے وجود کے فلسفوں میں سے ایک فلسفہ اور”قاعدہ لطف“کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے۔ہم عرض کر رہے ہیں کہ استثنائی زمانہ میں بھی ،جب امام معصوم کچھ وجوہات کی وجہ سے غائب ہوں تو لوگوں کی ذمہ داریاں واضح ہیں ۔ امام کے کاموں میں معاشرتی نظام کی حفاظت اور عدل و انصاف کا قیام. اس بنیاد بر مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی حفاظت ،معاشرے میں عدل و انصاف برقرار کرنا ، احکام اسلامی کو وجود بخشنا خاص طور پر جن احکام میں معاشرتی پہلو موجود ہوتا ہے،حدود الہی کو نافذ کرنا امامت کے اہداف میں سے ہیں۔امام کے بغیر دین کے قیام، آیات الہٰی کی تفسیر، سجدے، رکوع، توحید و معاد کا ایمان، نیکیوں میں سبقت وغیرہ ہو کیسے سکتی ہے جو ہم یہ کہیں کہ الہٰی رہبر کو مانے بغیر اور اسلامی نظام کی اطاعت کیے بغیر صرف نیکیاں انجام دے کر کوئی بہشت کے اعلیٰ درجوں پر فائز ہوجائے گا۔

لہذا اس شعور کے ساتھ کے امامت کائنات کی مخلوقات اور اشیاء کا ایک بنیادی قانون ہے یہ وہ مرکزی نقطہ ہوتا ہے جہاں سے کسی بھی شہ اپنا جنم شروع کرتی ہے اور آئندہ کی زندگی کا دارومدار اسی مرکزی نقطہ سے جڑے رہنے سے وابستہ ہوتا ہے۔ اگر کہ اس نقطہ سے جڑے رہے تو تمام سسٹم اور نظام درست چلتا رہے گا اور نہیں جڑے رہے تو یہ سب سسٹم و نظم ناکارہ ہوجاتا ہے۔

اس نکتہ آفرینی کے ساتھ ہم اب گفتہ بالا آیات کو اس تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جن میں چند اعمال کا خداوند تعالیٰ نے ذکر کیا ہے کہ جو یہ انجام دیتا ہے وہ بہشت میں پہنچ جائے گا۔ جیسے کہ دین پر قائم رہنا، راتوں کو آیات الہٰی کی تلاوت کرنا، سجدے کرنا، اللہ و آخرت پر ایمان لانا، نیکیوں کا حکم دینا، برائی سے روکنا، خیر انجام دینا اور نیک کردار ہونا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان آیات میں دین سے مراد کیا صرف نماز ، روزہ ، حج و زکواۃ وغیرہ ہے یا راتوں کو قرآنی آیات کو پڑھ کر خداوند کو سجدے کرنا ہے ، اللہ اور آخرت پر ایمان سے کیا مطلب ہے؟، نیکیوں سے کیا مراد ہے ؟ برائی سے کیا مراد ہے، خیر سے کیا مطلب اخذ کیا گیا ہے؟ نیک کردار کون ہوتا ہے؟

اگر انسان یہ سب اعمال اپنی فکرِ خالص و نیتِ خالص کے ساتھ سمجھ کر انجام دے اور جس کام کو بھی نیک سمجھتا ہے انجام دیتا ہے وہ سب اسی زمرے میں آئیں گے۔ لیکن یہ سب اعمال حاشیہ پر رہیں گے اگر ان کے مرکزی امر و عمل کو انجام نہ دیا گیا یعنی امام پر ایمان اور امام کی اطاعت۔امامت کے وجود اہمیت، اس پر ایمان کی اہمیت اور اس کی اطاعت اور امام کی حفاظت اور اس کی پشت پناہی کی اہمیت عقلی تناظر میں ہم نے واضح کیں۔نیز نیکیوں کا نظام بغیر امامت کے چل ہی نہیں سکتا لہذا امام اور ادارۂ امامت کے قیام کے بغیر کوئی بہت ہی توانا انسان نیکیاں انجام دیے سکتا ہوگا مگر مجموعی طور پر انسان اپنی کم مائیگی کے باعث نیکیوں سے آشنا ہی نہ ہوسکتا بہشت تک رسائی تو دور کی بات ۔

اسی لئے حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فر ماتے ہیں:
”اللّٰھم بلی ،لا تخلوا لارض من قائم للّٰہ بحجة،اماظاھراًمشھورا،اوخائفاًمغمورا لئلا تبطل حجج اللّٰہ وبینا تہ۔“
”جی ہاں ،زمین ہر گز قیام کر نے والے حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی ھے،خواہ(وہ حجت خدا)ظاہر وآشکار ہو یامخفی وپوشیدہ،تاکہ خدا کی واضح دلیلیں اور نشانیاں باطل نہ ہونے پائیں۔“

حقیقت میں قلب امام اس محفوظ صندوق کے مانند ہے جس میں ہمیشہ گراں قیمت اسنادرکھے جاتے ہیں تاکہ چوروں کی لوٹ مار اور دوسرے حوادث سے محفوظ رہیں یہ بھی وجود امام کے فلسفوں میں سے ایک فلسفہ ہے۔ (نہج البلاغہ،کلمات قصارنمبر۱۴۷)

ایک چھوٹی سی گلی کے کچے مکان میں پڑھی جانے والی فرادیٰ نماز اور اس سے بھی زیادہ بوسیدہ گلی اور گلے سڑے محلے کی مسجد میں امام کے پیچھے پڑھی جانے والی باجماعت نماز تک میں فرق ہے۔
بہت سی مشہور نقلی دلیلیں بھی ہیں جیسے آیہ بلغ، آیہ اولوالامر، آیہ ولایۃ، حدیث غدیر، حدیث منزلت، حدیث یوم الدار، حدیث ثقلین، حدیثِ سفینہ، حدیث ائمہ اثنا عشر وغیرہ

لہذا اس تناظر میں دیکھا جائےتو دین پر قائم ہونا امامت کے عقیدہ اور اطاعت پر قائم ہونا ہے، آیات الہٰی کی تلاوت سے مراد امامت کے امور پر گفت وشنید ہے، سجدہ سے مراد امام کی اطاعت اور سر خمیدہ کرنا ہے، اللہ اور آخرت پر ایمان امام کے بغیر نامکمل ہے، نیکیوں کا حکم امامت اور امام کی معرفت کو عام کرنا ہے، برائ سے روکنا امام کی مخالفت میں چلنے والے قدموں کو روکنا ہے، خیر سے مراد امام کا مکمل مطیع ہونا ہے، نیک کردار بھی وہی لوگ ہیں جو تمام نیکیاں امامت کے عقیدے کے ساتھ اور امام کی اطاعت کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ ورنہ نیکیاں کرنے والے تو فرعون، شداد، نمرود ، یزید بھی تھے مگر ایک عمل جس نے ابلیس کو بھی مطیع الہٰی کی حیثیت سے نکال کر راندہ درگاہ کردیا وہ ایک سجدہ ہی تھا جو خدا نے اپنے ولی کیلئے اس سے تقاضہ کیا تھا۔ ٹھیک ہے کہ اگریہ سب بھی خداکے حکم سے جنت میں جائیں گے لیکن بہشت کے کس درجے میں ہوں گے اس سے خداوند عالم ہی بہتر آشناہے۔ البتہ ہمیں کسی کو جنت یا دوزخ کے سرٹیفیکٹ تقسیم نہیں کرنے چاہییں یہ کام خداوند قدوس سے ہی وابستہ ہے اور ہماری ذمہ داری نیک اعمال خلوص نیت سے انجام دینا ہے۔ البتہ ہمیں اپنے اعمال کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے اور صرف اس پر قانع اور مطمئن نہ ہوجائیں گے بس اتنا بہت ہے اور کافی۔ ہم روز مرہ دعاؤں میں یہ تلقین خود اور دوسروں کیلئے کرتے رہتے ہیں کہ جوار ائمہ علیہم السلام میں جگہ عطا ہو،تو اس کیلئے ایسے ہی کٹھن مگرلذت آفرین اعمال انجام دینے ہیں جس سے اعلیٰ علیین میں جگہ مل سکے۔

 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 57685 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.