قُرآن کی ایمانی تاثیر اور رُوحانی تسخیر !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُ،الاَسرٰی ، اٰیت 105 تا 111 ازقلممولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
قراٰنا فرقنٰہ
لتقراہٗ علی الناس
علٰی مکث ونزلنٰہ تنزیلا
106 قل اٰمنوابہٖ اولاتؤمنوا
ان الذین اوتواالعلم من قبلہٖ اذا
یتلٰی علیھم یخرون للاذقان سجدا
107 ویقولون سبحٰن ربنا ان کان وعد
ربنا لمفعولا 108 ویخرون للاذقان ویزید
ھم خشوعا 109 قل ادعوااللہ اوادعواالرحمٰن
ایاما تدعوا فلہ الاسماءالحسنٰی ولاتجھر بصلاتک
ولا تخافت بھا وابتغ بین ذٰلک سبیلا 110 وقل الحمد
للہ الذی لم یتخذ ولدا ولم یکن لہ شریک فی الملک ولم
یکن لہ ولی من الذل وکبرہ تکبیرا 111
اے ھمارے رسول ! ھم نے زمان و مکان سے گزرنے والی جُملہ اَقوام کے بدلتے موسموں کے ساتھ بدلتے اور بدلنے والے مزاج کو سامنے رکھ کر قُرآن کو ایک مُستقل اور دائمی صداقت کے طور پر ایک مُکمل اور دائمی صداقت کے ساتھ اُتارا ھے اور آپ کو بھی حق و صداقت کی ایک دائمی خوش خبری سُنانے اور حق و صداقت کی طرف بُلانے والے ایک ھادی کے طور پر مامُور کیا ھے اور ھم نے اپنے جس کلامِ ھدایت کو عالَم میں انسانی فوز و فلاح کا نُقطہِ آغاز بنایا ھے اُس کے مرحلہِ اَنجام کا نام قُرآن ھے ، قُرآن کے نزول سے ھمارا مقصد یہ ھے کہ اِس میں درج کیۓ گۓ ھمارے اَحکام کو ایک تدریج کے ساتھ انسانی سماعتوں سے گزارکر انسان کے قلب و رُوح میں اُتارا جاۓ ، اسی لیۓ آپ کی سماعت تک بھی ھم نے اِس کے اَحکام کو دھیرے دھیرے پُہنچایا ھے اور آپ کو آہستہ آہستہ یاد کرایا ھے اور پھر ایک زمانی تدریج کے ساتھ آپ کے نقشِ دل پر نقش کیا ھے ، اِس لیۓ آپ بھی اِس کے اَحکام کو دھیرے دھیرے ہی انسانی دل و دماغ تک پُہنچائیں تاکہ ہر انسان کو اِس کلام کے یاد کرنے اور یاد رکھنے کے لیۓ مُناسب موقع مل سکے ، اے ھمارے پیغام رساں ! آپ قُرآن سُننے والوں سے کہدیں کہ تُم اسے مانو تو خیر ایک بات ھے اور نہ مانو تو پھر بھی کوئی بات نہیں ھے کیونکہ تُمہارے نہ ماننے سے اِس کی صحت و صداقت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ، ھم جانتے ہیں کہ جن اَقوامِ رَفتہ کے مزاج وحی آشنا ہیں اُن اَقوام کے اَفراد جب قُرآن سُنتے ہیں تو وہ اَز خود رفتگی کے عالَم میں روتے ہوۓ اِس کلام کے سامنے اِس طرح جُھک جاتے ہیں کہ اُن کے چہرے زمین سے جالگتے ہیں اور اَقوامِ رَفتہ کے جو لوگ قُرآن کو سُن کر اَز خود رَفتہ ہو جاتے ہیں تو وہ درد بھرے لہجے میں کہتے ہیں کہ ھماری ہر ایک حرکت اور ھمارا ہر ایک عمل ھمارے اُسی پروردگار کے اَحکام کے تابع ھے جس کے سارے وعدے سچے ہیں اور جس کے ہر وعدے نے اپنے اپنے وقت پر پُورا ہونا ہی ہونا ھے اور پھر وہ اپنی اسی جذب و مستی کی کیفیت میں جب انتہائی عاجزی کے ساتھ روتے ہوۓ ھمارے سامنے جُھک جاتے ہیں تو ھم اُن کی اِس رقت بھری سر خوشی میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں جس سے اُن کو تسکین ملتی ھے ، اے میرے پیغام رساں ! آپ میرے اِن صاحبِ دل بندوں کو بتادیں کہ جب وہ میری محبت میں ڈُوب کر اپنے لَب پر میرا کوئی نام لانا چاہتے ہیں تو اُس وقت وہ مُجھے اللہ کہیں یا رحمٰن کہیں یا کسی بھی اَچھے نام سے پُکارنا چاہیں تو پُکار لیں کیونکہ ہر اَچھے کام اور اَچھے نام کا مرجع میری ہی ذات ھے اور جب آپ اُن کو میرے اَحکام کی تلقین کریں تو آپ کی آواز نہ ہی ضروت سے زیادہ ہو اور نہ ہی اتنی کم ہو کہ کسی کو سُنائی ہی نہ دے بلکہ آپ کی آواز بُلند و پست کے درمیان ایک ایسی متوازن آواز ہو جو آپ کے دل سے اُبھر کر سُننے والوں کے دل میں اُتر جاۓ اور اے میرے پیغام رساں ! آپ میرے بندوں کو یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کرادیں کہ ہر جان و جہان کے تعارف کا حق دار صرف اللہ ھے اور اُس کے جہان میں اُس کی پہچان یہ ھے کہ اُس کی کوئی اَولاد نہیں ھے جو اُس کی وراثت کی دعوے دار ہو یا اُس کی مملکت میں حصہ دار ہو اور یا اُس کی بادشاہت میں شریکِ کار ہو اور نہ ہی وہ کم زور ھے کہ اُس کو کسی کی حمایت درکار ہو ، اُس برتر ذات کا یہی تعارف ھے اور آپ کا کام اُس کے بندوں کو اُس کے اسی تعارف کے ساتھ مُتعارف کرانا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی اِن آخری سات اٰیات سے پہلے ھم نے ایک سے زائد بار اِس اَمر کا اعادہ و تکرار کیا ھے کہ اِس سُورت کا مرکزی مضمون سیدنا محمد علیہ السلام کا وہ سفرِ ہجرت ھے جس سفرِ ہجرت کو اللہ تعالٰی نے اِس سُورت کا آغازِ کلام بنایا ھے اور پھر ہجرت کے اِس مرکزی موضوع کے یمین و یسار میں اِس مضمون کے جو ضمنی مضامین لاۓ گۓ ہیں اُن میں سب سے پہلا مضمون توحید کا مضمون ھے جو قُرآن کا مقصدِ اُولٰی ھے اور توحید کے اِس مقصدِ اُولٰی کے بعد اِس سُورت میں وہ معروف اَحکام لاۓ گۓ ہیں جو دُنیا کی بیشتر اَقوام کے درمیان ہمیشہ ہی ایک صدقِ مُشترک کے طور پر معروف رھے ہیں اور یہ وہ بین الانسانی اُصول ہیں کہ جن پر جو انسان جتنا زیادہ غور و فکر کرتا ھے وہ اتنا ہی زیادہ شرک سے دُور اور توحید سے قریب ہوتا چلا جاتا ھے ، انسان اور انسانیت کے اِن عظیم فطری اصولوں اور ضابطوں کے بعد اِس سُورت میں اَبناۓ اسرائیل کی اُس پہلی جماعت کا ذکر کیا گیا ھے جو کہنے کی حد تک کتابِ مُوسٰی کی تابع دار رہی ھے لیکن عملی طور پر وہ ہمیشہ ہی اپنے اُن اَحبار و رُھبان کی اتباع کرتی رہی ھے جنہوں نے پہلے توراتِ مُوسٰی میں تحریف کی ھے اور پھر اِس تحریف کے بعد اُن کو تورات کی تعلیم دی ھے جو ظاہر ھے کہ تورات کی وہ تعلیم نہیں تھی جو انسان کو رحمٰن سے مُتعارف کراتی تھی بلکہ یہ اُن اَحبار و رُھبان کی وہ خود ساختہ تعلیم تھی جو صرف اُن کے پیٹ کے جہنم کی آگ بُجھاتی تھی ، قُرآن نے اپنی اِس سُورت کی اِن اٰیات میں اِس قوم کا ذکر اِس لیۓ کیا ھے کہ سیدنا محمد علیہ السلام نے مکے سے ہجرت کے بعد مدینے میں سب سے پہلے اسی قوم کا سامنا کرنا تھا جو مدینہ و اَطرافِ مدینہ میں سب سے زیادہ تعداد میں تھی اور سب سے زیادہ اثر رسوخ بھی رکھتی تھی اور اسلام کی اِس نو خیز نقلابی تحریک کو سب سے زیادہ مزاحمت کا خطرہ بھی اسی سے تھا اور اَب اِس سُورت کے خاتمہِ کلام کے اِس خاص مرحلے میں قُرآن کے اُسی مقصدی مضمون توحید کا دوبارہ ذکر کیا گیا ھے اور سیدنا محمد علیہ السلام کو اَبناۓ اسرائیل کی اُس دُوسری جماعت سے مُتعارف کرایا گیا ھے جو خود کو انجیلِ مسیح کی اتباع کار قرار دیتی ھے لیکن جس شرک کا وہ پہلی جماعت ارتکاب کرتی رہی ھے اُسی شرک کی یہ دُوسری جماعت بھی ارتکاب کرتی چلی آ رہی ھے تاہَم اِن دونوں جماعتوں کے مزاج میں بُنیادی فرق یہ ھے کہ وہ پہلی جماعت مِن حیث القوم حق کو حق جان کر حق کا انکار کرتی رہی ھے اور کرتی ھے لیکن اِس دُوسری جماعت میں کُچھ ایسے پاک دل و پاک نظر لوگ بھی موجُود ہیں جن کے دلوں پر اللہ تعالٰی کا کلام کُچھ اِس طرح سے اَثر اَنداز ہوتا ھے کہ اُن کے دِل بھی اللہ تعالٰی کے اِس کلام کے سامنے جُھک جاتے ہیں اور اُن کے سر بھی اللہ تعالٰی کے اِس کلام م کے سامنے جُھک جاتے ہیں اور وہ لوگ روتے اور تڑپتے ہوۓ دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اللہ تعالٰی کے اِس کلام کی صحت و صداقت کا اقرار کرتے ہیں ، اَبناۓ اسرائیل کی اِس دُوسری جماعت کے بارے میں اِس سے قبل یہی مضمون سُورہِ اٰلِ عمران کی اٰیات 113 ، 114 اور 115 میں بھی گزر چکا ھے جس میں اللہ تعالٰی نے یہ ارشاد فرمایا ھے کہ اہل کتاب کے سارے لوگ ہی سازشی کردار کے حامل نہیں ہیں بلکہ اِن میں وہ حق پرست لوگ بھی موجُود ہیں جو اللہ تعالٰی کے اَحکام کی اتباع کرتے ہیں اور اللہ تعالٰی کے اَحکام کے سامنے سر نگوں رہتے ہیں ، یہ وہی پاک دل و پاک نظر لوگ ہیں جو اللہ تعالٰی پر ایمان و یقین رکھنے کے علاوہ اِس بات پر بھی ایمان و یقین رکھتے ہیں کہ اُنہوں نے اِس زندگی کے بعد اُس دُوسری زندگی میں قدم رکھنا ھے جس زندگی کی خوشی کا دار و مدار اِن کی موجُودہ زندگی کے اعمالِ خیر و شر پر ہو گا ، یہی وجہ ھے کہ یہ لوگ انسانوں کو نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور بُرے کاموں سے روکتے ہیں اور انسانی بَھلائی کے کاموں میں ایک دُوسرے پر سبقت پانے کی کوشش کرتے ہیں ، قُرآنِ کریم نے اِسی دُوسری جماعت کے اِن نیک دل اَفراد کے بارے میں اسی مضمون کا سُورةُالمائدة کی اٰیات 83 و 84 اور 85 میں اعادہ کرتے ہوۓ کہا گیا ھے کہ آپ نے اِن لوگوں کی آنکھوں میں دیکھ ہی لیا ھے کہ جب اِن لوگوں نے اللہ تعالٰی کے رسولِ خاص پر نازل ہونے والا ایک کلامِ خاص ایک عھدِ خاص میں سُنا ھے تو اِن کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک جِھڑی برسنے لگی ھے اور یہ لوگ پُکار اُٹھے ہیں کہ اے ھمارے ربَ ! تُو ہمیں بھی اِس کلام پر ایمان لانے والے لوگوں میں شامل اور شمار فرما ، کیونکہ ھدایت کی جو روشنی اَب تک ھمارے خانہِ دل میں نہاں رہی ھے اَب وہ روشنی ھماری آنکھوں پر عیاں ہو چکی ھے اور اَب جب ھم ھدایت کے اُس نُور کا مُشاھدہ کر کے اُس کے عینی شاھد بھی بن چکے ہیں تو کوئی وجہ نہیں ھے کہ ھم کوئی پس و پیش کیۓ بغیر ہی حق کی ایک تصدیق کار جماعت میں شامل ہو کر خود بھی حق کے تصدیق کار نہ بن جائیں اور موجُودہ سُورت کی اٰیت 109 میں اِسی جماعت کے اِنہی اَفراد کے بارے میں اللہ تعالٰی نے یہ ارشاد فرمایا ھے کہ یہ اَقوامِ رَفتہ کے وہ نیک دل لوگ ہیں جو قُرآن سُن کر اَز خود رَفتہ ہو جاتے ہیں تو ایک درد بھرے لہجے میں کہتے ہیں کہ ھماری ہر ایک حرکت اور ھمارا ہر ایک عمل ھمارے اُسی پروردگار کے اَحکام کے تابع ھے جس کے سارے وعدے سَچے ہیں اور جس کے ہر ایک وعدے نے اپنے اپنے وقت پر پُورا ہونا ہی ہونا ھے اور پھر جب یہ لوگ اسی جذب و مَستی کی کیفیت میں عاجزی کے ساتھ روتے ہوۓ ھمارے سامنے جُھک جاتے ہیں تو ھم اِن کی رقت و سر خوشی میں اضافہ کر دیتے ہیں جس سے اِن کو تسکین ملتی ھے ، قُرآنِ کریم نے اِس سُورت میں اِس جماعت کے نیک دل اَفراد کا ذکر اِس لیۓ کیا ھے کہ اگر محمد علیہ السلام مدینے میں یہودِ مدینہ کی ھدایت سے مایُوس ہوجائیں تو آپ اِس جماعت کے نیک دل اَفراد کے دلوں پر دَستک دیں اور اپنی ہجرت کو اُن عظیم مقاصد سے ہم آہنگ بنائیں جن عظیم مقاصد کے لیۓ یہ ہجرت کی گئی ھے اور اِس جماعت میں شرک کے جو جراثیم سرایت کر چکے ہیں اُن مُہلک جراثیم سے اِس جماعت کو نجات دلانے کے لیۓ اِس سُورت کی آخری اٰیت میں اللہ تعالٰی نے وہ نُسخہِ شفا بھی تجویز کر دیا ھے جو اِن کو شرک کے اندھیروں سے نکال کر توحید کی روشنی میں لاسکتا ھے اور اِس سُورت کے بعد اَگلی سُورت کے آغاز میں بھی توحید کے اسی نُسخہِ شفا کی مزید تفصیلات بیان کی گئی ہیں تا کہ توحید کا یہ مضمون کسی پہلو سے بھی اَدھورا نہ رہ جاۓ بلکہ ہر ایک پہلو سے اِس طرح پُورا ہو جاۓ کہ اِس جماعت کے اِن نیک دل اَفراد کی کامل ھدایت کا باعث بن جاۓ !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559329 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More