بچپن کی نادانیاں, اسکول کا دور اور آپس میں ٹی وی ڈراموں
کے قصے کہانیوں پر تبصرے کرنا, موبائل اور نیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ڈراموں کی
کوئی ایک بھی قسط چھوٹنے پر تجسس اور ایک دوسرے سے اس قسط کے بارے میں پوری
تفصیل لینا, یہ سب یاداشت کے صفحے پر اس طرح محو ہیں جیسے کہ کل کی بات ہو.
ماضی میں پاکستان کے وہ ڈرامے جو بام عروج پر تھے اور ہماری روز مرہ کی
گفتگو کی وجہ ہوتے تھے, ان میں سر فہرست, ماروی, ہوائیں, گیسٹ ہاؤس,
اندھیرا اجالا, دھوپ کنارے, تنہائیاں, عروسہ, ان کہی وغیرہ شامل ہیں. مگر
زیادہ اہم بات یہ تھی کہ اس وقت جو ڈرامے بہت زیادہ پسند کیے جاتے تھے ان
کی اکثریت مصنفہ حسینہ معین کے ڈراموں کی ہوتی تھی. کسی بھی ڈرامے کی
کامیابی پر مہر ثبت کرنے کے لیے حسینہ معین کا نام ہی کافی ہوتا تھا کیونکہ
اپنے منفرد اسلوب کی وجہ سے ہی ان کا نام ان کے ڈراموں کی کامیابی کی ضمانت
ہوتا تھا. جس رات ان کا ڈرامہ آن ائیر ہوتا اس وقت باہر اتنی خاموشی ہوتی
تھی کہ جیسے کرفیو یا لاک ڈاؤن لگا ہو. ان کے ڈراموں کی خاص بات یہ ہے کہ
ہر صنف اور عہد کے لوگوں کے لیے ان کے ڈرامے پسندیدہ رہے. پسندیدگی کے اعلی
معیار کی وجہ سے انہیں ڈراموں کی شہزادی کہا جاتا تھا. ان کے قلم نے نہ صرف
انہیں بلکہ ان کے ڈراموں کے مختلف اداکاروں کو کامیابی کے اونچے مسند پر
بٹھا دیا. جن میں, مرینہ خان, شہناز شیخ, سلیم ناصر,ساجدحسن, بہروز سبزواری
اور قاضی واجد وغیرہ قابل ذکر ہیں. آج بھی ان شخصیات کو زیادہ تر ان کے
کرداروں کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا. جیسے کہ بہروز سبزواری آج بھی قباچہ
کے نام سے جانا جاتا ہے. ان کے ڈراموں کی اتنی زیادہ پذیرائی پر انہیں پی
ٹی وی ایوارڈ کے علاوہ 1986 کو گورنمنٹ کی جانب سے صدارتی اعزاز برائے حسن
کارکردگی سے بھی نوازا گیا.
مگر 26 مارچ 2021 کو جمعہ کے بابرکت دن ایک عہد تمام ہوا, ایک ادبی سفر تھم
گیا, ایک قلم ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا. وہ نام, وہ عہد, وہ قلم ہے ڈرامہ
نویس, مکالمہ نگار اور ہر دل عزیز مصنفہ حسینہ معین کا جو قریباً اسی سال
کی عمر میں حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے خالق حقیقی سے جا ملیں. ان کی
یادیں, ان کے ڈرامے, اور ڈراموں کے کردار سب کے ذہنوں میں امر ہوگئے.
حسینہ معین 20 نومبر 1941 کو بھارت کے شہر کانپور اتر پردیش میں پیدا
ہوئیں, قیام پاکستان کے بعد راولپنڈی میں ہجرت کرگئیں, وہاں سے لاہور اور
پھر 1950ء میں کراچی میں منتقل ہوئیں۔ گریجوئیشن 1960ء میں گورنمنٹ کالج
برائے خواتین سے کی اور 1963ء میں کراچی یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کی
ڈگری حاصل کی۔ دوران تعلیم ہی انہوں نے لکھنا شروع کیا. چھوٹی سی عمر سے
انہوں نے ''بھائی جان'' نامی ایک ماہانہ میگزین سے اپنے سفر کا آغاز کیا.
اس کے بعد ریڈیو سے مزاحیہ چٹکلوں کا پروگرام ''اسٹوڈیو نمبر 9'' کرنے کے
بعد ٹی وی پر ایک پر مزاح ڈرامہ ''عید مبارک'' لکھ کر اپنا سفر آگے کی جانب
جاری رکھا جس کی کاسٹ میں لیجنڈ اداکار شکیل اور نیلوفر علیم شامل تھے.
لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنا بہت بڑی نیکی ہے اور حسینہ معین صاحبہ نے
یہ کام بڑے خوبصورت انداز میں کیا. ادب اور اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر
لوگوں کو ہنسانے کے فن سے وہ بخوبی واقف تھیں. اس کا یہ مطلب نہیں کے ان کے
ڈراموں میں صرف ہنسی مذاق ہی رہتا تھا اس کے علاوہ بھی وہ کئی دوسرے سلگتے
موضوع ان کے زیر قلم رہے. ان کے ڈرامے ہمیشہ بامقصد رہے. ان کے ڈراموں کی
خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے عورت کے کردار کو اخلاقی حوالے کے ساتھ ہر لحاظ
سے مضبوط دکھایا. ایک اور اہم بات یہ تھی کہ ڈراموں میں زیادہ تر مثبت
کردار ہی رکھتی تھیں. ان کے ادبی ذہن نے متعدد لاجواب ڈرامے تخلیق کیے جن
میں شہزوری، زیر زبر پیش، انکل عرفی، ان کہی، تنہایاں، دھوپ کنارے، دھند،
آہٹ، کہر، پڑوسی، آنسو، بندش اور آئینہ قابل ذکر ہیں. ڈرامہ نگاری کے علاوہ
انہوں نے کئی فلموں کے لیے مکالمے بھی لکھے جن میں مشہور بھارتی فلم 'حنا'
کے مکالمات شامل ہیں جو انہوں راج کپور کے کہنے پر لکھے تھے۔ حنا کی کاسٹ
میں اس وقت کی مشہور پاکستانی اداکارہ زیبا بختیار کا مرکزی کردار رہا جن
کا تعلق بلوچستان سے تھا. اس کے علاوہ بھی کئی پاکستانی فملوں کے لیے بھی
مکالمے لکھے. جن میں سب سے اہم لیجنڈ اداکار وحید مراد کی فلم ''کہیں پیار
نہ ہوجائے'' شامل ہے. سب سے پہلے اسی فلم کے لیے ان سے مکالمے لکھنے کی
فرمائش بھی وحید مراد مرحوم نے ہی کی تھی.
وہ ایک ہنس مکھ شخصیت کی مالکہ تھیں, ہمیشہ چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکان
چڑھائے رکھتی تھیں. ادبی مصروفیات کے علاوہ وہ سوشل سرگرمیوں میں بھی
بھرپور حصہ لیتی تھیں. اس سلسلے میں تعلیم اور عوامی فلاح وبہبود کے لیے
جیو نیوز کی جانب سے چلائی گئی مہم میں بھی بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالا. اس
کے علاوہ وہ سیاست میں بھی خاصی متحرک رہی ہیں. سیاسی حوالے سے ان کا تعلق
تحریک انصاف سے رہا ہے.
بحر حال یہ دنیا فانی ہے اور موت ایک اٹل حقیقت ہے. ایک نہ ایک دن یہاں سے
سب نے جانا ہے مگر تاریخ میں امر کوئی ہی رہتا ہے جن کا کام ہی ان کی اصل
شناخت بن جاتا ہے. ایک جملہ مشہور ہے کہ نرینہ اولاد ہی آگے نام بڑھانے کا
ذریعہ ہوتی ہے مگر میرا کہنا یہ ہے کہ انسان کا کام ہی اس کا نام زندہ
رکھنے کا واحد ذریعہ ہے کیوں کہ اگر آج ہم قائد اعظم, سر سید احمد خان, یا
کسی بھی تاریخی شخصیت کے حوالے سے بات کریں تو شاذو نادر ہی ان کے والدیں
کا نام کسی کو معلوم ہوگا مگر وہ خود صرف اور صرف اپنے کام کی وجہ سے امر
ہیں. یہی حال محترمہ حسینہ معین مرحومہ کا بھی ہے جنہوں عمر بھر شادی نہیں
کی مگر وہ پاکستانی فنون لطیفہ کی تاریخ میں ہمیشہ اپنے کام کی نسبت امر
رہیں گی. اﷲ تعالی ان کی مغفرت کرے اور ان کا سفر آخرت آسان کرے آمین ثم
آمین
|