ممتاز فلمی و سماجی شخصیت اداکار محمد علی سے وابستہ یادیں

اداکارمحمد علی 19اپریل 1936ء کو ہندوستان کے شہر روہتک کے ایک سید گھرانے میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد مجدد الف ثانی رحمتہ اﷲ کے مریدین میں سے تھے جو افغانستان کے شہرغرنی سے ہندوستان تشریف لائے تھے ۔آپ کے والد مذہبی اور دیندار انسان تھے، وہ دین کی تبلیغ کے علاوہ پٹیا لہ کے طیبہ کالج میں پرنسپل بھی رہے۔جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو آپ کا خاندان ہجرت کرکے پہلے لاہور پھر حیدرآباد میں جاکر آباد ہوا۔ کچھ عرصہ ملتان میں بھی قیام پذیررہے۔جہاں ملت ہائی سکول ملتان سے آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔میٹرک پاس کرنے کے بعدآپ دوبارہ حیدرآباد چلے گئے جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ کلیم آفس میں ملازمت اختیار کرلی ۔ شام کو ریڈیو پاکستان پر نشرہونیوالے ڈراموں میں بطور اداکار کام شروع کردیا۔یہ 1955-56کا سال تھا۔ریڈیو پر اداکاری آپ کو فلم انڈسٹری کی طرف لے آئی ۔آپ کی پہلی فلم "چراغ جلتا رہا"تھی ۔اس فلم کی اوپنگ محترمہ فاطمہ جناح نے کی تھی ۔اس فلم میں آپ کا کردار ولن کا تھا۔جب مزید فلموں میں کام ملنے لگا توآپ 1961ء کے آخر میں مکمل طورپر لاہور منتقل ہوگئے۔بطورہیرو آپکی پہلی فلم "شرارت "تھی ۔فلمی دنیا میں رہتے ہوئے آپ نے زیبا بیگم سے محبت کا اظہار کیا۔ 29ستمبر 1966ء کو زیبا اور محمد علی دونوں رشتہ ازواج میں منسلک ہوگئے۔اگرکہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ زیبا بیگم ہی اداکار محمد علی کی پہلی اور آخری محبت تھی ۔اس مقدس رشتے کو انہوں نے اپنی زندگی کے آخری سانس تک خوب نبھایا ۔ 28سال تک آپ فلمی دنیا میں مصروف عمل رہے ۔اس دوران آپ کے رابطے میں نہ صرف فیض احمد فیض ، صوفی غلام مصطفے تبسم ،جگرمرادآبادی ، جوش جیسے شعرا رہے جبکہ ادب میں آپ کی دلچسپی کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی ۔منٹو کے افسانے ، بیدی ،ایم اسلم کی کتابیں اکثر آپ کے زیرمطالعہ رہیں ۔زیڈ اے بخاری کو آپ اپنا رہنما تصور کرتے تھے ۔آپ کا گھر صرف زیبا اور محمد علی کا نہیں تھا بلکہ فیض احمد فیض کی زندگی میں شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا تھا جب وہاں کوئی نہ کوئی مشاعرہ نہ ہورہا ہو۔فیض احمد فیض کی دنیا سے رخصتی کے بعد زیبا اور محمد علی نے اس جگہ کو ہی تالا لگا دیا جہاں شاعر لوگ بیٹھ کر اپنا کلام سنایا کرتے تھے ۔دلیپ کماراور سائرہ بانو لاہور تشریف لاتے تو ان کا گھر ہی میزبانی کے فرائض انجام دیتا ۔آپ کی رہائش گا ہ کو ایک اور اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1974ء لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں سعودی عرب کے شاہ فیصل بھی شریک ہوئے اوروہ زیبامحمد علی کی رہائش گاہ میں قیام پذیر رہے ۔آپ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ فلموں میں کام کو آپ کے والد ناپسند کرتے تھے۔اس لیے چھ ماہ تک آپ والد سے دور ہی رہے پھر جب بڑے بھائی آپ کو اپنے ساتھ لے کر والد گرامی کے پاس پہنچے تو والد صاحب اس وقت قرآن پڑھ رہے تھے ،آپ بتاتے ہیں کہ کچھ وقت میں ان کے پیچھے چپ چاپ بیٹھا رہا پھر جب وہ قرآن پڑھ کر فارغ ہوئے تومجھ سے مخاطب ہوکرکہنے لگے ۔ علی بیٹا میں اس وقت قرآن پڑھ رہا ہوں یہ کام جوتم کررہے ہو اس میں اگرتم میری عزت بڑھا نہیں سکتے تو گھٹانا بھی مت۔ محمد علی کہتے ہیں کہ والد گرامی کے ان الفاظ کا بھرم میں نے زندگی بھر رکھا اور کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے ان کی عزت میں کمی واقع ہوتی ہو۔ایک بار جنرل ضیاء الحق سے ملاقات ہوئی انہوں نے کہا محمد علی صاحب میں آپ کے والد گرامی کو جانتا ہوں وہ تو نہایت متقی اور پرہیزگار شخص تھے۔ آپ فلم انڈسٹری میں کیسے آ گئے ۔ میں نے جواب دیا جنرل صاحب میرے والد ممبر رسول پر بیٹھ کر لوگوں کو دین کی تبلیغ کرتے تھے اور میں بھی ایسے ہی مقام پر بیٹھا ہوں جہاں ہزاروں لوگ میری بات سنتے ہیں اور میری ہمنوائی کی جستجو کرتے ہیں ۔اگر تیس پینتیس سال کے میرے کیرئیر میں کوئی دھبہ نظرآتاہے تو مجھے بتادیجئے اگر نہیں تو میں اس ممبر کا حقدار ضرور ہوں ۔محمدعلی مزید بتاتے ہیں کہ میرے والد میرے پاس ہی رہتے تھے مجھے ان کی بے حد فکر رہتی تھی میں کام ختم کرکے فورا گھر پہنچتا تھا ۔نہ کبھی کلب گیا ،نہ ہوٹلوں میں جا کے شامیں گزاریں ۔شوٹنگ کے بعد جتنا وقت مجھے میسر آیا میں نے اپنے والد کے ساتھ ہی گزارا۔ایک سوال کے جواب میں کہ آپ کے والد نے آپ کی کوئی فلم نہیں دیکھی۔محمد علی نے بتایا جب فلمیں ٹی وی پر نشر ہونے لگیں میری ایک فلم "وطن کے سپاہی" انہوں نے دیکھی تھی لیکن اس فلم میں جب میرا کردار شہید ہوجاتا ہے تو اس مقام پر والد صاحب کو جانیں کیا احساس ہوا انہوں نے زور زور سے چلانا شروع کردیا بند کردو بند کردو۔دراصل وہ فلم میں بھی اپنے بیٹے کی موت کا منظر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔بہرکیف یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ محمد علی کی آواز میں بڑی خوبی تھی ۔مکالموں کی ادائیگی کے فن کو وہ خوب جانتے تھے ۔انہوں نے 325فلموں میں کام کیا اور 1980ء کے قریب فلم انڈسٹری سے ریٹائر ہوگئے ۔ان کو شوگر کی بیماری لاحق ہوئی ،پھر شوگرکی بیماری نے دل کے امراض کو بیدار کردیا ۔امریکہ سے دل کا آپریشن کروایا اور کچھ عرصہ ٹھیک رہے اور ایک بار پھر اپنے سماجی کاموں میں مصروف ہوگئے لیکن انہیں اس بات کی خبر نہ تھی کہ گردوں کی موذی بیماری بھی ان کے تعاقب میں چلی آرہی ہے ۔کہا یہ جاتا ہے کہ پیدائشی طورپر ان کا ایک ہی گردہ تھ وہ کہاں تک بیماریوں کا بوجھ برداشت کرتااور دل ناتواں کب تک جیتا رہتا ۔بالاخر 19مارچ 2006ء کو وہ منحوس گھڑی بھی آ پہنچی جب ان کی سانس اور روح کا رشتہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہوگیا ۔انا ﷲ و الاالیہ راجعون ۔انہیں ہزاروں سوگواران کی موجودگی میں شہنشاہوں کے شہنشاہ حضرت میاں میر رحمتہ اﷲ علیہ کے مزار سے ملحقہ قبرستان میں دفن کردیا گیا ۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 653074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.