جمہوریت ایک بدصورت، ناکام اوربدنام نظام ہے۔یہ نظام
نوازشریف، آصف زرداری ، ڈونلڈ ٹرمپ ،نریندرمودی ، عمران خان، جوبائیڈن ،
بورس جانسن سے" بزداروں "کی ایوان اقتدار تک رسائی کاراستہ ہموار کرتا رہے
گا ۔آج ایک معمولی کورونا نے دنیا کوآگے لگالیا کیونکہ دنیا بردبار
،باکردار اورباضمیر قیادت سے محروم ہے۔چندمقتدرملک مہم جوئی کی آڑ میں
مقروض ملکوں سے ان کے وسائل چھین رہے ہیں ۔ ہرریاست نے انفرادی حیثیت میں
کورونا سے نجات کاراستہ تلاش کیا لیکن کامیابی نہیں ملی لیکن اگر دنیا نے
اجتماعی طورپراس وبا سے چھٹکارے کیلئے کوئی راہ حل تلاش کیا ہوتا تویقینا
اس وبا کو دبا یادفنادیا جا تا ۔اب بھی وقت ہے عالمی برادری اﷲ تعالیٰ کی
بارگاہ میں ہاتھ اورآپس میں سرجوڑے ،کورونا رنگ ونسل سے بے نیاز ہرانسان
کیلئے زہرقاتل ہے لہٰذاء انسانوں کوانسانیت کی بقاء کیلئے تفرقات اورتعصبات
کوپس پشت ڈالنا ہوگا۔اجتماعی کاوش میں کامیابی وکامرانی کے امکانات بڑھ
جاتے ہیں۔
جہاں نادان،بدزبان اوربزدار اقتدار میں آجاتے ہیں وہ ملک اورمعاشرے جہنم بن
جاتے ہیں جبکہ محروم طبقات کے ہاں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔جس وقت بھارت میں
مودی سرکار کی شروعات ہوئی ،راقم نے اس وقت اپنے کالم میں لکھا تھا "بھارت
کی نابودی کیلئے ایک مودی کافی ہے"،یہ بھی لکھا تھا"مودی اوربھارت کازوال
ایک ساتھ شروع ہوگا" ۔بھارت کا یہ انجام مودی سرکار کی بدانتظامی
اورانتقامی روش کاشاخسانہ ہے۔مودی دوسری بار بھی اقتدارمیں آجائے گا،اس وقت
یہ بات کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی۔دنیا نے دیکھ لیا ،مودی نے بھارت
کی نابودی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔انتہاپسند مودی نے بھارت کابینڈ بجادیا
،بھارت کا اپنا اتحادی امریکا بھی مودی مائنڈ سیٹ پرکافی"اپ سیٹ" ہے۔مودی
درحقیقت بھارت کا"بزدار" ہے ، جس طرح بھارت اپنے تربیت سے محروم مودی بزدار
کی حماقتوں کاخمیازہ بھگت رہا ہے اس طرح تبدیلی سرکار بھی عثمان بزدار
کوتبدیل نہ کرنے کی بھاری قیمت چکائے گی اورعنقریب قومی سیاست میں کپتان
کانام ونشان قصہ ماضی بن جائے گا۔عمران خان کے پاس ابھی کچھ وقت ہے ، وہ
اپنے سیاسی مستقبل اورعثمان بزدار میں سے کسی ایک کوبچاسکتا ہے۔ انتہا پسند
مودی کے اقتدار میں آنے سے بھارتی بربریت کا سورج سوا نیزے پر آگیا اورمودی
نے جس انداز سے مسلمانوں کا انتظامی بلکہ انتقامی احتساب شروع کیا وہ سیلاب
بھارت کوبے نقاب کرگیا ۔مودی سرکار کی بربریت کے نتیجہ میں بھارت سے صرف
انسانیت نہیں بلکہ نام نہادسیکولرازم کاجنازہ بھی اٹھ گیا اورآج انتہاپسندی
بھارت کی شناخت اورشہرت بن گئی ہے ۔ وہ ہندو جو کئی دہائیوں تک مسلمانوں
کاوجودکسی نہ کسی طرح برداشت کر رہے تھے وہ مودی کے" آشیرباد" سے" آدم خور
شیر"بن گئے اور مسلمانوں پرٹوٹ پڑے ۔بیگناہ مسلمانوں کے" خون" سے بھی
انتہاپسندہندوؤں کا"جنون" ماند نہ پڑا۔ایک طرف دریندرمودی کے حامی درندے
آزادانہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں ، دوسری طرف بزدل مودی بزدار
نے بھارتی آئین میں نقب لگاتے اور جنت نظیرکشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرتے
ہوئے اسے جہنم نما زندان جبکہ آٹھ ملین کشمیریوں کو قیدی بنادیا۔ مودی کے
انتہاپسندانہ اور عاقبت نااندیشانہ اقدامات سے بھارت داخلی مسائل میں
الجھتا گیا اور وہاں مسلمانوں اور سکھوں سمیت دوسری اقلیت کے لوگ بھی اپنی
اپنی آزادی کی تحریک کو مزید منظم اور مودی سرکار کیخلاف علم بغاوت بلند
کرتے ہوئے میدان میں اترآئے ہیں۔ بھارت میں مودی کیخلاف نفرت دن بدن شدت
اختیار کرتی چلی جائے گی اور بھارتی کسان اپناچارٹرآف ڈیمانڈ منوانے تک
دھرنے سے نہیں اٹھیں گے ۔ بھارت میں شدت پسند مودی کو پسند کرنیوالے ہندوؤں
کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ، منتقم مزاج مودی اپنی ہٹ دھرمی کامظاہرہ
کرتے ہوئے پاکستان اورچین سمیت اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات بگاڑتا
رہا اوریہ " تنہائی" اس کی "رسوائی اور پسپائی "کانکتہ آغاز ہے۔
نواز شریف نے اپنے دوراقتدار میں سفارتی روایات اور آداب کی دھجیاں بکھیرتے
ہوئے مودی کو اپنی نواسی کے نکاح میں مدعو کیا تو پاکستانیوں کی طرف سے
شدید غم وغصہ کا اظہار کیا گیا۔ پاکستان کے عوام جوفطری طورپرمہمان نواز
ہیں لیکن مودی کے معاملے میں ان کارویہ مختلف اورسخت تھا، انہوں نے گجرات
کے مسلمانوں سمیت کشمیریوں کے قاتل مودی کو نہ صرف مسترد بلکہ اس کے ساتھ
شدید نفرت کا اظہار کیا۔ مودی کا یہ دورہ پاکستان درحقیقت اہل پاکستان
کیلئے ایک سرپرائزوزٹ اور ڈراؤنا خواب تھا اسلئے وہ اس کیخلاف کوئی باضابطہ
احتجاجی مظاہرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے ورنہ واجپائی کی طرح مودی کی
لاہور یاترا کیخلاف بھی شہر لاہور سمیت شہر شہر پرتشدد احتجاجی مظاہرے
دیکھنے میں آتے۔
مودی نے ہمیشہ نفرت اورنفاق کی فصل بوئی، اس نے دوسروں کی راہوں میں جو
نفرت کے کانٹے بچھائے تھے آج وہ ا نہیں اپنی آنکھوں چن رہا ہے۔ مودی کو
بھارت میں صرف جہالت کے مارے ہندو پسند کرتے ہیں باقی ہندوستان اس سے پوری
طرح بیزار ہے۔ جس شخص کو اس کے اپنے لوگ پسند نہیں کرتے اسے کسی دوسری
ریاست کے عوام کس طرح برداشت کرسکتے ہیں۔ برادر اسلامی ملک بنگلہ دیش سمیت
دنیا کا ایسا کوئی ملک نہیں جہاں مودی کو مٹھی بھر لوگ پسند کرتے ہوں
کیونکہ امن اور انسانیت کی " نابودی" کا دوسرا نام " مودی '' ہے ، اس نے
ہندوستان کو مسلمانوں کیلئے قبرستان بنادیا ۔ ماضی قریب میں جس بھارت کو
سیکولر ریاست کہا جاتا تھا آج وہاں کوئی اقلیت محفوظ نہیں اور وہاں ہرطرف
شدت پسندی کی آگ بھڑک رہی ہے۔بھارت کے وہ انتھک کسان جو اپنے ملک کی غذائی
ضروریات پوری کرتے ہیں انہیں بھی مودی سرکار کی طرف سے بدترین تشدد ،تعصب
اوراستحصال کاسامنا ہے۔ بھارتی کسان بھی مودی مائنڈ سیٹ کے ہاتھوں ہلکان
اور اپنے جائز مطالبات کیلئے سراپا احتجاج ہیں۔ مودی کو اپنے پڑوسی ملک
بنگلہ دیش کے حالیہ دورہ کے دوران مقامی شہریوں کی طرف سے شدید احتجاج اور
پرتشدد مظاہروں کا سامناکرناپڑا، مودی کی آمد پر بنگلہ دیش "مودی دہشت گرد"
کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔ اس دوران پولیس سمیت سکیورٹی فورسز کے
ساتھ جھڑپوں کے نتیجہ میں دس مظاہرین کے ہلاک اور بیسیوں کے زخمی ہونے کی
اطلاعات ہیں۔ مودی کے دو روزہ دورہ پر بنگالی مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر
احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا انعقاد کیا۔نماز جمعہ کے بعد مودی کی آمد کے
پہلے روز ہی احتجاجی مظاہروں اورہنگاموں کا آغاز ہوگیاتھا جو بعدمیں
مزیدشدت اختیار کرگیا۔مشتعل مظاہرین کی مودی سے نفرت ، احتجاجی مظاہروں کی
شدت اور بنگلہ دیشی پولیس کے اوور ری ایکشن نے بدقسمتی سے جامعہ مسجد کو
میدان جنگ بنا دیا۔
مودی کو لگا وہ بنگلہ دیش کے قیام کی سازش میں براہ راست شریک تھا اسلئے
بنگالی اس کا کسی نجات دہندہ کی طرح والہانہ استقبال کریں گے لیکن بنگلہ
دیش کے عوام کسی زخمی شیر کی طرح اس پر جھپٹ پڑے۔ مودی کے حالیہ دورہ بنگلہ
دیش کے دوران مضطرب اورمشتعل مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں "مودی دہشت گرد
ہے" ، "مودی کا استقبال نہیں ہے" ، گو مودی گو " اور" امت ایک جسم ہے " کے
پلے کارڈزاٹھائے ہوئے تھے۔26 مارچ2021ء کوبرادراسلامی ملک بنگلہ دیش کا
پچاسواں قومی دن منایا گیا،جس میں کسی مسلمان ملک کی بجائے بھارت
کاانتہاپسندوزیراعظم نریندر مودی مہمان خصوصی تھا۔ مودی نے اپنی تقریر کے
دوران ببانگ دہل 1971ء میں پاکستان کابٹوارہ کرنے اوربنگلہ دیش بنانے
کاکریڈٹ لیا ،مودی کی زبان سے نکلی سچائی یقینا بھارت کی گردن کیلئے رسوائی
کاطوق بنے گی۔ مودی کے مطابق بنگلہ دیش کے قیام کے وقت وہ 21 یا 22 سال کا
تھا جب اس نے بنگلہ دیش کے قیام کی جدوجہد میں براہ راست حصہ لیا اور اس
مقصد کیلئے اسے جیل بھی جاناپڑا ۔مودی کے مطابق اس وقت ہندوستان کے عوام
بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے مقامی شہریوں سے زیادہ بے چین ،بیقراراورسرگرم
تھے ۔متعصب مودی نے بنگلہ دیش کی نام نہاد "جنگ ِآزادی " میں شریک جنگجوؤں
کیلئے والہانہ عقیدت ومحبت کااظہار کیا اور اس جدوجہد کے "شہداء " کی یاد
میں بیگناہوں کے خون سے تر اپنے ہاتھوں سے وہاں ایک پودا بھی لگایا جوکسی
قیمت پرثمرآورنہیں ہوسکتا۔ میں سمجھتا ہوں جس طرح ماضی میں نوازشریف کااجمل
قصاب کے بارے میں بیان بھارت کی طرف سے عالمی عدالت انصاف میں پاکستان
کیخلاف استعمال کیا گیا تھا اس طرح نریندرمودی کابنگلہ دیش بنانے میں کلیدی
کرداراداکرنے کا"قبول نامہ" بھارت کیخلاف چارج شیٹ میں ضرور ایڈکیاجائے
۔گھمنڈی مودی نے اپنے اس بھاشن کے دوران 1971ء کے سانحہ میں بھارتی مداخلت
اورجارحیت کے بارے میں پاکستان کے اصولی موقف پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔اب
گیند عالمی ضمیر کے کورٹ میں ہے ، دیکھتے ہیں دنیا کاہر آزاد "منصف"
اورغیرجانبدار"مصنف "اب اپنے اپنے ضمیر کی عدالت کا کیا فیصلہ سناتا ہے ۔
|