مغربی بنگال میں بی جے پی کے منشور کا سب سے مضحکہ خیز
اعلان یہ ہے کہ بنگال میں شہریت ترمیمی ایکٹ نافذ کرنے کے لیے کابینہ کی
پہلی ہی نشست میں قانون منظور کیا جائے گا ۔ سابق مرکزی وزیر داخلہ پی
چدمبرم نے اس معاملے میں بی جے پی پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربی بنگال کے
انتخابی منشور میں بی جے پی نے اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا ہے۔ انتخابی منشور
میں حکومت بننے کے پہلے دن شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) نافذ کرنے کے
اعلان سے اس منشا ظاہر ہوتا ہے۔پی چدمبرم نے یہ بھی کہا کہ ’’سی اے اے ملک
کو تقسیم کرے گا، مسلمانوں کے خلاف تفریق پیدا کرے گا اور لاکھوں
ہندوستانیوں کو ان کی شہریت کے حق سے محروم کردے گا۔ان کے مطابق بی جے پی
کا ارادہ ڈرانے، دھمکانے اور لاکھوں غریبوں و قانون پر عمل کرنے والے
شہریوں، خصوصاً مسلمانوں کے ذہن میں ڈٹینشن کیمپ کے اندر بھیجے جانے کا خوف
بٹھانے کا ہے۔ اس لیے آسام اور بنگال کے لوگوں کو بی جے پی اور اس کے
’زہریلے ایجنڈے‘ کو ہرانے کے لیے نتیجہ خیز طریقے سے ووٹنگ کرنی چاہیے۔
بی جے پی کے منشور میں سی اے اے کی شمولیت سے ریاست کو نافذ کرنے کا وعدے
کے خلاف عوام کا بھی شدید رد عمل سامنے آیا۔ اس اعلان کے فوراً بعد جب ای
ٹی وی کے نمائندے نے عام لوگوں سے بات چیت کی تو وہ بولے سب سے پہلی بات یہ
ہے کہ مغربی بنگال میں بی جے پی کبھی بھی اقتدار میں نہیں آسکتی ہے۔ وہ
چاہے جتنی بھی کوشش کرلے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ ممتا بنرجی
کے رہتے بی جے پی کا یہ خواب کبھی بھی پورا نہیں ہو گا کیونکہ بنگال کے لوگ
اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف سب سے
بڑے پیمانے پر احتجاج مغربی بنگال میں ہوئے تھے ۔ بنگال کے باشندوں کو
انتخابی منشورمیں شہریت ترمیمی ایکٹ کے وعدے پر سخت اعتراض ہے۔ اقتدار میں
آنے کے بعد پہلے ہی اجلاس میں امیت شاہ نے سی اے اے نافذ کرنے کا وعدہ تو
کردیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ اجلاس کب ہوگا ؟ اس لیے انتخاب میں شکست کے
بعد وہ کہہ دیں گے جب بھی ہم اقتدار میں آئیں گے اپنا وعدہ نبھائیں گے۔
ویسے چار سال قبل اقتدار میں آنے کے بعد کسانوں کے قرض معاف کرنے کا وعدہ
اگر بی جے پی نے نبھایا ہوتا تو اس کا فی الحال مغربی اترپردیش میں داخلہ
بند نہیں ہوتا ۔ یہ تو ہاتھی کے دانت ہیں جو کھانے اور دکھانے کے الگ الگ
ہوتے ہیں۔
بی جے پی کی حالیہ انتخابی مہم کے آغاز میں 11 فروری کو امیت شاہ نے کہا
تھا کہ ٹیکہ کاری کا عمل مکمل ہونے اور کووڈ عالمی وباءختم ہونے کے بعد
شہریت دینے کا کام ہاتھ میں لیا جائے گا۔ مغربی بنگال کے شمالی 24 پرگنہ
ضلعے میں بونگاوں ٹھاکر نگر کے مقام پر ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے امیت
شاہ نے ، وہاں موجود مٹوا برادری کے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ انہیں
شہریت ت ضرور دی جائے گی ۔ انہوں نے ترنمول کانگریس کی رہنما ممتا بنرجی پر
مٹوا برادری کے لوگوں کو گمراہ کرنے کا الزام لگانے کے بعد کہا تھاکہ شہریت
ترمیمی قانون میں کسی کی بھی شہریت ختم کرنے کی کوئی شق موجود نہیں ہے بلکہ
اِس کے ذریعے ، اُن پناہ گزینوں کو شہریت دی جائے گی ، جو 70 سال گزر جانے
کے بعد بھی اِسے حاصل نہیں کرسکے ہیں۔انہوں نے مسلمانوں کو خاص طور یقین
دلایا تھا کہ سی اے اے کے ذریعہ ان کی شہریت ختم نہیں کی جائے گی ۔ اس کے
بعد سی اے اے کو بی جے پی پوری طرح بھول گئی اور وزیر اعظم نے پہلے تبدیلی
کا راگ چھیڑا۔ اس کے بعد پوری جماعت رام نام دھن گانے لگی اور یہ معاملہ
سرد بستے میں چلا گیا اس لیے بی جے پی نے دو باتیں محسوس کرلی تھیں اول تو
یہ کہ اس کے سبب فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا ۔ اب جبکہ اسے یقین ہوگیا
ہے کہ وہ تو اقتدار میں آنے سے رہی اس لیے اس نے اسے آگے کے لیے ایک خاص
انداز میں دوہرادیا ہے جس سے سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے
گی۔
2016 کے انتخاب میں بی جے پی کے پاس مغربی بنگال میں صرف 20 فیصد تھے جو
2019کے پارلیمانی انتخاب میں بڑھ کر 39 فیصد ہوگئے اور یہی وجہ ہے کہ بی جے
پی نے جنگل محل علاقہ کی کوچ بہار، علی پور دوار، جلپائی گڈی ، دارجلنگ ،
رائے گنج ، بالور گھاٹ ، شمالی مالدہ ، رانا گھاٹ ، بون گاوں ، براک پور ،
ہوگلی، جھارگرام ، مدنا پور ، پورولیا ، ناکورہ ، بشنو پور ، بردوان ، درگا
پور اور آسنسول کی جملہ 18نشستوں پر کامیابی درج کرای تھی ۔ان میں 10
مقامات ایسے تھے جہاں مٹوا برادی کا دبدبہ ہے اور ان کے نزدیک سی اے اے کی
بڑی اہمیت تھی ۔ ۔ مٹوا برادی اگر پھر سے بی جے پی کا ساتھ دیتی ہے تو اسے
294 میں 70 نشستیں تو اسی کی مہربانی سے مل جائیں گی ۔ اسی مٹوا سماج کو
جھانسے میں لینے کی خاطر انتخاب سے ایک دن پہلے مودی جی بنگلا دیش پہنچ گئے
اور شروع ہوگئی کہانی کہ وزیر اعظم مٹوا سماج کے مذہبی رہنماوں سے ملیں گے
۔ ان کے مندر جائیں گے ۔ اس سے قبل کئی مرتبہ مودی جی بنگلادیش جاچکے ہیں
لیکن کبھی ان کو مٹوا سماج کا خیال نہیں آیا ۔ اس بار آیا کیونکہ ووٹ
چاہیے۔ ابن الوقتی اور موقع پرستی اسی کو کہتے ہیں ۔
وزیر اعظم بنگلا دیش میں مٹوا سماج کو لبھا نے کی کوشش کررہے ہیں لیکن
منشور میں یہ اعلان ہوچکا ہے کہ دراندازی روکنے کیلئے سرحد کے ہر انٹری
پوائنٹ پر سی سی ٹی وی لگائے جائیں گےنیز سرحدوں کو مضبوط کرنے کی خاطر پر
خار دار تار بچھانےکے کام کو مستحکم کیا جائے گا۔ پہلی بات تو اس کا صوبائی
انتخاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملک کی سلامتی کے لیے یہ کام کرنا قومی حکومت
کی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے صوبائی حکومت کا بی جے پی کے ہاتھ میں ہونا
ضروری نہیں ہے کیونکہ اگر مسلم لیگ کی حکومت بن جائے تب بھی وہ اسے نہیں
روکے گی۔ دوسری بات یہہے کہ مٹوا سماج کے جو لوگ اپنے رشتے داروں سے ملنے
کی خاطر آنے کی کوشش کریں گے ان کو سختی سے روکا جائے گا ۔ اب مسئلہ ان کو
آنے سے روکنے کا نہیں بلکہ یہاں کے مٹوا سماج کو جانے سے روکنے کا ہے
کیونکہ بنگلا دیش ہندوستان سے زیادہ خوشحال ہوچکا ہے اور وہاں مذہب کے نام
پر تفریق و امتیاز نہیں برتا جاتا ۔
بنگلا دیش کے دورے پر وزیر اعظم کے خلاف مظاہرے ہوئے اور اس مخالفت کو
دبانے کے لیے گولی باری کےنتیجے میں چار لوگوں کی شہادت اس بات کا ثبوت ہے
کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں خون خرابے کا سبب بنتے ہیں ۔ بنگلا دیش میں وزیر
اعظم نے اپنی عادت کے مطابق ایک ایسا جھوٹ بولا جسے سن کر ہر کس و ناکس کو
ہنسی آگئی۔ انہوں نے کہا کہ’میں نے بنگلا دیش کی آزادی کے لیے ستیہ گرہ
کیا‘ ۔ سوال یہ ہے کہ جب اندرا گاندھی کی حکومت بنگلادیش کی آزادی کی حامی
تھی جس کا اعتراف خود انہوں نے کیا تو آخر ستیہ گرہ کی ضرورت کیوں پیش
آئی؟ اس سے آگے بڑھ کر انہوں نے یہ پھینک دیا کہ ان کو گرفتار بھی کیا
گیا ؟ اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ستیہ گرہ ہندوستان میں ہورہا تھا یا
پاکستان میں؟ اس لیے وہاں تو ایسا کرنے والوں کی گرفتاری کا امکان تھا لیکن
اندرا گاندھی بھلا اپنی حمایت کرنے والوں کو کیوں گرفتار کرتی ۔ بات در اصل
یہ ہے کہ انسان کو جھوٹ بھی سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے لیکن اگر اس کو ماننے
والے اندھے بھکتوں کی فوج موجود ہوتو اس کی فکر کرنے کی کیا ضرورت ؟سب چل
جاتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ انہیں کی مدد سے 2011 میں ممتا بنرجی نے اشتراکیوں کو 34سال
بعد شکست فاش سے دوچار کیا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اسی لیے مٹوا کے
علاقہ بون گاوں سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا ۔ ایک جائزے کے مطابق
تقسیم کے وقت کل ۶ کروڈ لوگ ہجرت کرکے ہندوستان آئے تھے اور ان میں ساڑھے
تین کروڈ مغربی بنگال میں اور بی جے پی ان کولبھانے کی کوشش کررہی ہے۔
پچھلے قومی انتخاب میں اس مسئلہ کو بھنانے کے بعد اس پر عملدرآمد میں مرکز
کی ناکامی نے انہیں بے چین کردیا ہے۔ بون گاوں کے رکن اسمبلی نے اس بابت
وزیر داخلہ سے وضاحت چاہی تو انہوں نے کہا کہ وہ اس پر عمل آوری کو لے کر
سنجیدہ ہیں مگر کورونا کی وباء اور ویکسین لگوانے کے سبب اس میں تاخیر
ہورہی ہے۔ یہ کہنے کے پچاس دن بعد جب دباو ناقابلِ برداشت ہوگیا تو بی جے
پی نے اس مسئلہ کو اپنے منشور میں شامل کرلیا ۔
امیت شاہ کی کرونولوجی کے مطابق سب سے پہلے سی اے اے اور پھر این آرسی کو
نافذ ہونا تھا اور این آر سی کی ابتداء آسام سے ہوئی تھی ۔ یہ حیرت کی
بات ہے کہ بنگال میں تو بی جے پی نے سی اے اے کا ذکر اپنے منشور میں کردیا
مگر آسام کے مینی فیسٹو سے اسے غائب کردیا۔ منشور میں لوگوں کو سیلاب سے
بچانے کے لئے "برہمپتر ویژن" کے تحت اضافی پانی کے تحفظ کے لئے برہم پتر کے
اطراف میں بڑے آبی ذخائر بنا کر سیلاب کی تباہ کاری کو کم کرنے کا وعدہ
کیا گیا ہے۔ساتھ ہی بی جے پی نے وعدہ کیا ہے کہ '30 لاکھ مستحق خاندانوں کو
اوروندوئی اسکیم کے تحت ہر ماہ 3،000 روپے کی مالی امداد دی جائے گی۔ اس کے
بعد کے بعد صحافیوں نے سی اے اے اور این آر سی پر سوالات کی بوچھار کردی
تو بھارتی جنتا پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا نے گول مول انداز میں 'حقیقی
ہندوستانی شہریوں' کو تحفظ دینے اور دراندازیوں کو باہر کرنے کا وعدہ کیا
ہے۔
این آر سی کے مسئلے پر آسام میں شدید بے چینی ہے کیونکہ بڑی تعداد میں
ہندو لوگ بھی لاکھ مصیبت اٹھانے کے باوجود رجسٹر کے اندر اپنا نام درج
کرانے میں ناکام رہے ہیں اور بی جے پی کی حلیف جماعت اے جے پی اس کے خلاف
عدالت عظمیٰ سے رجوع کرچکی ہے۔ جے پی نڈا کہتے ہیں کہ وہ ایک قومی مسئلہ ہے
وقت آنے پر اسے نافذ کیا جائے گا اس لیے منشور میں شامل کرنے کی چنداں
ضرورت نہیں ۔ یہ بات اگر درست ہے تو مغربی بنگال میں اسے شامل کرنے کی
ضرورت کیوں پیش آگئی؟ اس سے ظاہر ہے بی جے پی اس معاملے میں مخمصے کا شکار
ہے اور وہ نہ تو کھل کر مخالفت کرپارہی ہے اور نہ حمایت ہی کررہی ہے۔ اس
لیے آسام میں حقیقی دراندازوں کا سراغ لگا کر مقامی تہذیب کی حفاظت کا
مبہم نعرہ لگایا جارہا ہے۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|