تبلیغی اجتماع اور کمبھ کا میلا

کورونا کی وباء زور شور سے واپس آرہی ہے۔ مہاراشٹر کی حکومت نے تالہ بندی کے لیے ماحول بنانا شروع کردیا ہے بعید نہیں کہ مرکزی حکومت بھی آگے چل کر اس سے اتفاق کرلے۔ پچھلے سال بھی یہی ہوا تھا کہ تالی اور تھالی جیسی نوٹنکی کے علاوہ ادھو ٹھاکرے نے کورونا سے نمٹنے کے لیے جو اقدام پہلے کیے نریندر مودی نےآگے چل کر اس کی اتباع کی ۔ گزشتہ سال اسی ماہ کورونا کی وباء نے ساری دنیا کو تالہ بند کردیا تھا ۔ بظاہر یہ تالہ بندی رضا کارانہ تھی لیکن انتظامیہ کو اسے نافذ کرنے میں جو پاپڑ بیلنے پڑے اس سے ساری دنیا واقف ہے۔ اس معاملے میں ماضی کی جانب مڑ کر دیکھیں تو بنگلہ والی مسجد یعنی مرکزنظام الدین کا معاملہ سب منفرد اور مختلف انداز میں ابھر کر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ جوکچھ ہوا کم ازکم ہندوستان کی حد تک تو کسی کے ساتھ نہیں ہوا اور شاید دنیا بھر میں اس کی کوئی مثال نہ ملے ۔ اس کے برعکس فی الحال ہری دوار میں زور و شور کے ساتھ کمبھ کا میلہ چل رہا ہے ۔ اس کے پہلے شاہی اسنان میں ۱۱ مارچ کے دن 23 لاکھ لوگوں نے گنگا میں ڈبکی لگائی اور اب 50لوگوں نے یہ سعادت حاصل کی ۔اس کے باوجود ملک بھر میں پھیلنے والے کورونا سے اس کا تعلق نہیں بن سکا۔ یہ سرکار اور میڈیا کا کمال ہے

تبلیغی جماعت کے ساتھ یہ ہوا کہ اس کے مرکز کو بزورِ قوت بند کردیا گیا ۔ کمبھ میلا پر بحث کرنے سے قبل وہ مذموم حرکت کس طرح کی گئی اس پر ایک غائر نظر ڈال لینا ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ مودی جی کے جنتا کرفیو سے ایک دن قبل یعنی 21 مارچ کو وزارت داخلہ نے یہ شوشہ چھوڑا کہ تبلیغی جماعت کے مرکز میں824 غیر ملکی مقیم ہیں ۔ دہلی کی صوبائی پولس چونکہ وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے اس لیے اسے حکم دیا گیا کہ ان کی شناخت کرکے اور طبی تفتیش کے بعد انہیں قرنطینہ میں بھیج دے ۔ اس وقت کورونا چونکہ بر ونی ممالک سے درآمد ہورہا تھا اور باہر سے آنے والوں کی جانچ پڑتال ہورہی تھی اس لیے کسی تشویش کا اظہار نہیں ہوا۔ تبلیغی جماعت کا حکومت سے کوئی پنگا نہیں تھا اور مسجد کو بزور قوت خالی کرانے کی بات بھی نہیں ہوئی تھی اس لیے اسے نظر انداز کردیا گیا ۔ اس کے بعد پولس نے بتایا کہ مرکز میں کل1746 لوگ مقیم ہیں ان میں غیر ملکیوں کی تعداد صرف216 ہے جبکہ 1530ہندوستانی شہری ہیں ۔ اس طرح گویا پہلے دعویٰ کی تردید ہوگئی تو بات بنانے کے لیے یہ کہا گیا کہ تبلیغی جماعت سے متعلق مذکورہ غیر ملکی ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ۔

ملک بھر میں 24 مارچ کولاک ڈاون لگ گیا ۔ مقامی پولس نے مرکز خالی کرکے اسے بند کرنے کا نوٹس جاری کیا۔ اس کے جواب میں تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں نے وہاں مقیم مختلف صوبوں کے 1000لوگوں کی آمدورفت کے لیے سواری کے انتظام کی درخواست کی ۔25 مارچ کو طبی ٹیم مرکز آئی اور26کو ایس ڈی ایم بھی پہنچ گئے ۔28 کو اے سی پی نے قانونی کارروائی کی دھمکی دی اور ملک بھر میں 2137ایسے لوگوں کی تشخیص کرلی گئی جو مرکز میں آئے تھے ۔ 31 مارچ کو 6افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی اور مرکز کے جملہ97 افراد کورونا پوزیٹیو پایا گیا ۔ یکم اپریل کو جب مرکز خالی کرایا گیا تو ان میں صرف 600 افراد کے اندر کورونا کی علامات موجود تھیں اس کے باوجود انہیں قرنطینہ میں بھیج دیا گیا ۔ فی الحال ملک کے اندر کورونا کے اعدادوشمار سے ان کا موازنہ کیا جائے تو بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ حکومت نے اپنی کوتاہی کی پردہ پوشی کرنے لیے اپنے پالتو ذرائع ابلاغ کے ذریعہ کورونا جہاد کا ہواّ کھڑا کیا اور رائی کا پہاڑ بنادیا ۔ ملک میں تالہ بندی کے ختم ہوجانے کے کئی ماہ مختلف احمقانہ شرائط کے ساتھ تبلیغی جماعت کو کھولنے اجازت دی گئی۔

تبلیغی جماعت کے خلاف کیے جانے والے ہنگامہ کے دوران ملک میں کورونا کی جو صورتحال تھی اس کا کمبھ میلے کے زمانے سے موازنہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے ۔ ہندوستان میں کورونا کے اعدادو شمار پندرہ فروری 2020 سےمدون کیے گئے ہیں ۔ پندرہ فروری سے لے کر یکم مارچ تک مریضوں کی تعداد صرف 3تھی ۔ اس کے بعد14 مارچ تک وہ بڑھ کر97 ہوگئی اور 28مارچ تک987 پر پہنچی یہی وہ زمانہ تھا جب کورونا جہاد کا بونڈر کھڑا کیا گیا تھا۔ اب آئیے اس سال انہیں تاریخوں کی صورتحال دیکھیں ۔15فروری کو ملک کورونا مریضوں کی تعداد10925311 تھی ۔ اس کے بعد یکم مارچ تک یہ بڑھ کر 11123619پر پہنچ گئی یعنی 198303اضافہ ہوگیا جبکہ پچھلے سال کوئی اضافہ نہیں تھا ۔ اس کے باوجود کمبھ میلے کو منسوخ نہیں کیا گیا ۔

14مارچ کو پہلے شاہی اسنان کے تین دن بعد ملک بھر میں کورونا سے متاثرین کی تعداد 11385158پر پہنچ گئی یعنی تقریباً پچاس فیصد261539کا اضافہ ہوگیا ۔28 مارچ تک کو یہ بڑھ کر12039210 پر پہنچ گئی مزید ڈھائی گنا اضافہ ہوگیا جبکہ اس دوران پچھلے سال سرف 983نئے کیس آئے تھے۔ دنیا بھر میں کورونا سے متاثرین اور مرنے والوں میں ، امریکہ اور برازیل کے مقابلےہندوستان تیسرے نمبر پر ضرور ہے لیکن کل کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ اضافہ ہندوستان میں امریکہ سے ڈیڑھ گنا ہے زیادہ اور سنگین معاملات جن میں وینٹی لیٹر وغیرہ کی ضرورت پیش آتی ہے ہندوستان پہلے نمبر پر ہے۔اس کے باوجود ملک بھر میں پچھلے سال تو کورونا جہاد ہورہا تھا لیکن اب کورونا اسنان نہیں ہورہا ہے ۔ میڈیا سو رہا ہے وہ نہ تو ہری دوار جاتا ہے اور وہاں کی خبریں نشر کرتا۔ سادھو سنتوں کی حکومت کو فکر نہیں ہے اس لیے کہ وہ بیچارے نہ صرف بی جے پی بلکہ کسی کو ووٹ ہی نہیں دیتے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450343 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.