بابائے کراچی/ شبیر ابن عادل کی برقی تصنیف ایک نظر میں
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
بابائے کراچی/ شبیر ابن عادل کی برقی تصنیف ایک نظر میں ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ٭ شبیر ابن عال جو معروف لکھاری، بلاگر، اور ٹیلی ویژن صحافی بھی ہیں کی برقی تالیف ”بابائے کراچی“ کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔ بابائے کراچی انہوں نے عروس البلاد کراچی کے سابق ناظم (مئیر) نعمت اللہ خان مرحوم کے لیے استعمال کیا ہے۔ نعمت اللہ خان صاحب واقعی بابائے کراچی تھے۔ کراچی کی ترقی کے لیے کی گئی ان کی جدوجہد اور سماجی خدمات قابل ستائش ہیں۔ شہر کا میئر اس شہر کا سربراہ ہوتا ہے اوروہ اُس شہر کی ترقی اور وہاں کے عوام کی فلاح وبہبود کا ذمہ داربھی تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں مقامی حکومتوں یا بلدیاتی نظام رائج ہے وہاں ہر شہر کا ایک میئر ہوتا ہے، اس شہر کی ترقی کی کنجی اسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔پاکستان میں بلدیاتی نظام اور میئر کی موجودگی قیام پاکستان سے پہلے سے رائج ہے۔کراچی کا پہلا میئر جمشید نصر وانجی مہتا تھا۔ اس کے بعد کراچی کے جو میئر منتخب ہوئے ان میں تیکم داس ودھومل، قاضی خدا بخش، ارڈیشز ایچ حمزہ، درگا راس ایڈوانی، حاتم علی علوی، آر کے سڈوا، لال جی ملاھترا، محمد ہاشم گزدر، سہراب کے ایچ کٹہراک، شمبو ناتھ ملراح، یوسف عبد اللہ ہارون، مینول مسقیطہ، وشرم داس دیوان داس قیام پاکستان کے وقت بلدیہ کراچی کے میئر تھے۔ قیام پاکستان کے بعد9 مئی 1947ء کو حکیم محمد احسن بلدیہ کراچی کے اولین میئر منتخب ہوئے۔ ان کے بعد غلام علی الانہ، اللہ بخش گبول، ایچ ایم حبیب اللہ پراچہ، محمود ہارون، الحاج ملک حاتم علی، صدیق وہاب، ایس ایم توفیق، عبدا لستار افغانی(دوبارمیئر رہے)، نعمت اللہ خان (14اگست 2001ء جون2005 ء)، سید مصطفی کمال اور وسیم اخترشامل ہیں۔ نعمت اللہ خان صاحب کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا لیکن وہ کراچی کے تمام حلقوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔نعمت اللہ خان میئر کے علاوہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ فلاحی ادارے الخدمت کے امور کی نگرانی بھی کرتے رہے۔ نعمت اللہ خان صاحب سے پہلے جماعت اسلامی کے عبد الستار افغانی اس عہدہ پر دوبار متمکن رپ چکے تھے۔ وہ قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ عبد الستار افغانی کو بھی ”بابائے کراچی“ کے لقب سے یاد کیاجاتا ہے۔ عبد الستار افغانی کا تعلق کراچی کی قدیم بستی ’لیاری‘ سے تھا وہ لیاری کی علاقے ”موسیٰ لائن میں رہائش رکھتے تھے۔ اس اعتبار سے وہ میرے قریبی پڑوسی بھی تھے۔ نفیس، سادہ طبیعت اور خدمات خلق کے جذبہ سے سرشار۔ لائٹ ہاوس پر واقع ایک جوتوں کی دکان ”خان بوٹ ہاوس“ میں ملازم تھے۔ موسیٰ لائن میرے گھر اور میرے کالج عبد اللہ ہارورن گورنمنٹ کے کالج کے درمیان میں تھا۔ عبد الستار افغانی کے بعد نعمت اللہ خان صاحب جو پیشہ کے اعتبار سے وکیل تھے 14اگست 2001میں کراچی کے میئر منتخب ہوئے اور جون 2005ء تک کراچی کے میئر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ کراچی کے لیے نعمت اللہ خان صاحب کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ پیش نظرکتاب کے مؤ لف جناب شبیر ابن عادل معروف قلم کار ہیں،کئی کتابیں تصنیف کرچکے ہیں،سینکڑوں مضامین وکالم ان کے رشحات قلم سے قارئین کی علمی ضروریات کی تکمیل کی ہے، وہ ترجمہ کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں، اخبارات کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن میں نیوز پروڈیوسر کی حیثیت سے خدمات انجا م دے چکے ہیں۔کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ’نعمت اللہ خان صاحب سے برسوں سے نیاز مندی کا شرف حاصل تھا شاید نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے‘۔ نعمت اللہ مرحوم کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ”ان میں یہ خوبی تھی کہ جو ان سے ملتا، ان کا ہوکر رہ جاتا تھاُ‘۔ان کے لکھنے کے مطابق نعمت اللہ خان صاحب سے یہی عقیدت و محبت سبب بنی ان پر کتاب مرتب کرنے کی۔ سچ بات یہاں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شبیر ابن عادل صاحب بھی کم خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک نہیں۔ مَیں جب سے ان سے ملا افسوس اس با ت کا کرتا ہوں کہ مجھے ایسا نفیس انسان پہلے کیوں نہیں ملا۔یہاں احمد فرازؔکے ایک شعرپر اکتفاکرونگا ؎ زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے تو بڑی دیر سے ملا ہے مجھے دور حاضر کوکمپیوٹر اور انٹر نیٹ کا دور کہا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مطبوعہ کتب کے ساتھ ساتھ برقی کتب E Book کا رواج عام ہورہاہے۔ خوشی ہوئی یہ پڑھ کر کہ شبیر ابن عادل صاحب ہر قسم کی ویڈیو بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلاگر اور وی لاگر ہونے کے علاوہ ادارہ علم دوست پاکستان کے روح رواں بھی ہیں،پیش نظر کتاب کی کمپوزنگ، ڈیزائینگ، لے آوٹ تمام امورانہوں نے از خود سر نجام دیے۔ یہ بہت بڑی بات ہے، ہماری عمر کے اکثر احباب کمپیوٹر، انٹرنیٹ کے استعمال کواپنے لیے مشکل امر محسوس کرتے ہیں۔ ایسے احبا ب کے لیے شبیر ابن عادل کا عمل قابلِ تقلید مثال ہیں۔انسان کوشش کرے تو کچھ مشکل نہیں۔پیش نظر تصنیف مختلف مضامین کا مجموعہ ہے جس میں 16دیگر ا حباب کے مضامین ہیں سب کا موضوع ہی نعمت اللہ خان مرحوم کی شخصیت اور خدمات ہیں، ان کے علاوہ شبیر ابن عادل صاحب نے ’یادوں کے نقوش‘ کے عنوان سے ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے۔ جس میں نعمت اللہ خان مرحوم کی شخصیت اور خدمات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اس کے علاوہ تین مضامین ایسے بھی ہیں جن کے مصنف کا نام تحیریر نہیں، ممکن ہے کہ یہ بھی مؤ لف کی ہی تحریر ہوں۔ مختلف احباب جنہوں نے نعمت اللہ خان مرحوم کو اپنا موضوع بنایا اور ان کی شخصیت اور خدمات کو اپنا موضوع بنایا ان میں معروف صحافی عطا،محمد تبسم صاحب کے مضمون کا عنوان ’خدمت خلق کا پیکر‘ہے، شاہنواز فاروقی کی تحریر کا عنوان ’بابائے کراچی‘ ہے۔ ڈاکٹر حسین پراچہ کی تحریر کا عنوان ہے ’کامیابی کی حیرتناک داستان‘، اعجاز اللہ خان نے لکھا ’اسی کے نوجوان‘، حشمت اللہ صدیقی کے مضمون کا عنوان ہے ’آخری چراغ‘ جس میں انہوں نے لکھا ”وہ تاریک راہوں میں اللہ کا ایک روشن چراغ تھا جس کی زندگی کے سفر کا آغاز انہیں راہوں سے ہوا“۔ جاوید احمد خان کے مضمون کا عنوان ہے ’کہاں سے لاؤ گے ایسا رہنما دوستو‘، خرم عباسی نے لکھا ’کراچی کے ماتھے کا جھومر‘، محمد کلیم اکبر صدیقی کے مضمون کا عنوان ہے ’اللہ کی نعمت‘، میاں منیر احمد لکھتے ہیں ’مجھے یاد کرے گی دنیا‘، محمد اسلم خان نے لکھا ’بابائے کراچی کو سلام‘، سلیم اللہ شیخ نے لکھا ’معمار کراچی‘، سلیم اللہ صدیقی کے مضمون کا عنوان ہے ’کراچی کے بجٹ میں ریکارڈ اضافہ‘، زاہد عباس کا عنوان ہے ’بہت یاد آؤگے‘،اسد احمد کے مضمون کا عنوان ہے ’سیاست کا رخ بدلنے والا‘ اور افشاں نوید کے مضمون کا عنوان ہے ’عاشق کا جنازہ‘۔ ان کے علاوہ ”نعمت اللہ خان محسن کراچی کیوں تھے؟‘، خدمت اور دیانت کا باب‘ اور آخر میں سفر آخرت پر کتاب کا اختتام ہوتا ہے۔ یہ شبیر ابن عادل کی پہلی ’برقی کتاب‘ ہے جو کراچی کے میئر نعمت اللہ خان صاحب کی شخصیت اور فلاحی سرگرمیوں اور خدمات کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ نعمت اللہ خان جنہوں نے ہندوستان کی ریاست راجستھان کے شہر شاہجہانپور میں یکم اکتوبر1930ء میں جنم لیا، قیام پاکستان کے بعد 28اگست 1947ء کو پاکستان ہجرت کی۔ جماعت اسلامی میں رہتے ہوئے خلق خدا کی خدمت کو اپنا شعار بنایا۔ ایک سال قبل 25فروری 2020کو 90سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا۔شبیر ابن عادل نے ایک سال کے مختصر عرصے میں نعمت اللہ خان کی شخصیت اور خدمات پر معلوماتی اور عمدہ کتاب مرتب کر کے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔(17فروری2021ء) |