کشمیر کی جنگ بندی لائن پر پاک بھارت افواج کے درمیان سیز
فائر پر مکمل عمل ، دونوں ممالک کے ڈائریکٹرجنرلز ملٹری آپریشنز کے مابین
رابطوں کے بعد پونچھ راولاکوٹ کراسنگ پوائینٹ پر بریگیڈئر سطح کی فلیگ
میٹنگ بھی ہو چکی ہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں 750کلو میٹر سے طویل سیز فائر لائن
اور ورکنگ باؤنڈری یا لداخ میں نام نہاد لائن آف ایکچول کنٹرول پر ایک گولی
بھی نہیں چلی ہے۔ پاک بھارت انڈس واٹر کمشنرز کے درمیان بھی دہلی میں
مذاکرات ہو چکے ہیں۔نامعلوم ٹریک ڈپلومیسی کے تناظر میں عمران خان اور
نریندر مودی کے درمیان خطوط کے تبادلے بھی ہوئے۔پاکستان میں رواں سال کے
آخر پر شنگھائی تعاون تنظیم ایس سی او کے زیر اہتمام انساد دہشتگردی کی
فوجی مشقیں ہو رہی ہیں۔ جس میں چین، روس سمیت بھارت کی فوج بھی شرکت کر رہی
ہے۔ وسط ایشیا کے تین ممالک قزاقستان، کرغزستان اور ازبکستان بھی ان میں
حصہ لیں گے۔ 18مارچ کو تاشقند ازبکستان میں منعقدہ ان ممالک کے نمائیندگان
کے اجلاس کے دوران پاکستان میں ان مشقوں کا فیصلہ ہوا ہے۔2019میں بھی
پاکستان، بھارت اور چین ان مشترکہ مشقوں میں حصہ لے چکے ہیں۔مگر اب لداخ
میں چین اور بھارت کے درمیان سیز فائر کے بعد یہ صورتحال سامنے آئی۔ ایسے
میں پاکستان نے بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کا اعلان کر دیا مگر
شدید نکتہ چینی پر اس فیصلے کو واپس لیا گیا۔
تیزی سے بدلتی اس صورتحال میں پاکستان یہ موقف اپنا سکتا تھا کہ جب تک دہلی
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے متنازعہ قرار دیئے گئے مسلہ کشمیر
پر یک طرفہ جارحانہ اقدامات واپس لے کر کشمیریوں کو رائے شماری کا حق دینے
کا علان نہیں کرتا ، بھارت کے ساتھ کوئی بات نہیں ہو گی ، مگر ایسا نہ
ہوا۔مگر ایسا لگ رہا ہے کہ کشمیر کی قیمت پر بھارت کے ساتھ خفیہ مذاکرات
جاری رکھے گئے۔ بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی کے تنازع میں پاکستان میں
دفتر خارجہ نے یہ منطق پیش کی ہے کہ قومی سلامتی کا جائزہ لیا جارہا
ہے۔قومی سلامتی کا جائزہ لینے کا یہ ایک منفرد اور دلچسپ منظر ہے۔ ترجمان
دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہپاکستان کی قومی سلامتی کے مفادات کا
تحفظ کرنے کا بھرپور عزم رکھتے ہوئے ہمارا زور جیو پولیٹکس سے جیو اکنامکس
میں تبدیل ہورہا ہے۔اگر جیو پولیٹکس سے جیو اکنامکس پر زور ہے تو پھر بھارت
کو مزید اسلحہ اور گولہ بارود، جنگھی ساز و سامان کی خریداری کے لئے معاشی
فائدہ پہنچانے کی یہ کوشش کیسے کی جا سکتی ہے۔کون ہے جو اپنے دشمن کو بندوق
حوالے کرے۔ یا خرید کر اسے گولی فراہم کرے۔ پاکستان اگر سمجھتا ہے کہ قومی
سلامتی کا تصور بھی ایک جائزے کے عمل سے گزر رہا ہے جس کا مرکز معاشی تحفظ
ہے۔توبھارت کو معاشی فائدہ پہنچانے کا کیا مقصد ہے۔اس سب کے باوجود اگر
پاکستان یہ کہے کہ جموں کشمیر کے تنازع پر پاکستان کے اصولی مؤقف میں کوئی
تبدیلی نہیں آئی ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں موجود
ہے، تو یہ شعوری یا غیر شعوری طور پر حقائق مسخ کرنے کی کوشش ہے۔ متحدہ عرب
امارات کی پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت میں پس پردہ سہولت کاری کی
رپورٹس پر تبصرہ کرنے کا کہا گیا اور پوچھا گیا کہ کیا یہ سچ ہے کہ نئی
امریکی حکومت اور دیگر ممالک پاکستان پر بھارت کے ساتھ رابطوں کے لیے زور
ڈال رہے ہیں؟اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات
سے کبھی نہیں کترایا اور ہمیشہ 'بامعنی مذاکرات' کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر
سمیت تمام تنازعات کے پر امن حل پر زور دیا ہے۔ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں
کہ خطے میں پائیدار امن، سیکیورٹی اور ترقی دیرینہ مسئلہ کشمیر کے حل پر
منحصر ہے۔پاکستانی قیادت کے حالیہ بیانات پاکستان کی خطے میں امن و سلامتی
کی خواہش کے عکاس ہیں تاہم اب معنی خیز اور نتیجہ خیز بات چیت کے لئیے
سازگار ماحول پیدا کرنا بھارت پر منحصر ہے۔ان کے پاس کوئی جواب نہیں کہ کیا
ای سی سی کی جانب بھارت سے اشیا کی درآمد کی اجازت کے فیصلے میں دفر خارجہ
شامل تھا اور اس کے بجائے وفاقی کابینہ کی جانب سے مذکورہ فیصلے کو مؤخر
کرنے کا حوالہ دیا۔یہ پہلے ہی پیغام دیا جاتا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی
بحالی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک بھارت 5 اگست 2019 کے یک طرفہ اقدامات
واپس نہ لے لے۔اب وزیراعظم عمران خان بھی بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی کا
امکان رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب تک کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں
ملتا اس وقت تک بھارت کے ساتھ تعلقات بحال نہیں ہوسکتے۔وہ اب وزارت خارجہ
کے عہدیداروں سے بھارت کے ساتھ عمومی اور تجارتی تعلقات کے حوالے سے بریفنگ
لے رہے ہیں۔وہ پہلے ہی سے اعلان کر دیتے کہ ہمارا اصولی مؤقف یہی ہے کہ
کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر تجارت نہیں کرسکتے۔ وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر
نے 31 مارچ کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
چینی کی قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر ہم نے پوری دنیا سے درآمدات کی اجازت
دی لیکن باقی دنیا میں بھی چینی کی قیمتیں زیادہ ہیں جس کی وجہ سے درآمدات
ممکن نہیں ہے لیکن ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں چینی کی قیمت پاکستان کے
مقابلے میں کافی کم ہے تو اس لیے ہم نے نجی شعبے کے لیے بھارت سے 5 لاکھ ٹن
تک چینی کی تجارت کھولنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ یہاں ہماری سپلائی کی
صورتحال بہتر ہو سکے اور جو معمولی کمی ہے وہ پوری ہو جائے۔انہوں نے کہا
تھا کہ پاکستان میں اس وقت کپاس کی بہت زیادہ مانگ ہے، ہماری ٹیکسٹائل کی
برآمدات میں اضافہ ہوا اور پچھلے سال کپاس کی فصل اچھی نہیں ہوئی تھی تو ہم
نے ساری دنیا سے کپاس کی درآمدات کی اجازت دی ہوئی ہے لیکن بھارت سے اجازت
نہیں دی کیونکہ اس کا براہ راست اثر چھوٹی صنعت پر پڑتا ہے کیونکہ بڑی صنعت
تو مصر سمیت دیگر ممالک سے بھی منگا لیتی ہے لیکن چھوٹی صنعتوں کے لیے یہ
ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج وزارت کامرس کی تجویز پر ہم نے اقتصادی
رابطہ کمیٹی میں فیصلہ کیا ہے کہ ہم بھارت سے کپاس کی درآمدات کی بھی اجازت
دیں گے۔تاہم وفاقی کابینہ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے
تک بھارت سے تجارت سمیت دیگر امور میں تعلقات بحال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔جو
کہ درست ہے۔ وزیر اعظم سمجھتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019 کو
مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات واپس لیے جانے تک
اس سے تعلقات بحال نہیں ہوسکتے۔کابینہ میں اس حوالے سے ای سی سی کی سمری کو
مسترد یا منسوخ کرنے کے بجائے صرف مؤخر کر دیا گیا ہے۔یہ سب تشویش کن
تبدیلیاں ہیں کہ جیو پولیٹکس سے جیو اکنامکس پر جانے کا یہ کیا انداز ہے۔جس
سے قومی سلامتی ہی خطرے میں پڑ سکتی ہے یا خارجہ پالیسی میں حکمت عملی کا
کوئی فقدان ہے ۔
برطانوی حکومت نے پاکستان، بنگلہ دیش، کینیا اور فلپائن کو ریڈ لسٹ میں
شامل کرتے ہوئے ان ممالک سے برطانوی یا آئرش شہریوں کے سوا دیگر مسافروں کی
آمد پر پابندی عائد کردی ہے۔ سفری پابندی عائد ہونے کی قیاس آرائیاں بہت
پہلے سامنے آنا شروع ہوگئی تھیں جب پنجاب اور اسلام آباد میں کورونا وائرس
کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔مگر حکومت کوئی اقدامات نہ کئے۔ برطانوی
رکن پارلیمنٹ ناز شاہ نے برطانوی سیکریٹری اسٹیٹ برائے خارجہ، کامن ویلتھ
اینڈ ڈیولپمنٹ افیئرز کو 30 مارچ کو لکھے ایک خط میں کہا کہ پاکستان ریڈ
لسٹ میں شامل ہونے والا ہے اور میرے حلقے میں بڑی تعداد میں پاکستانی
کمیونٹی رہتی ہے اس لیے میرا سادہ سا سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کس سائنسی
ڈیٹا کی بنیاد پر لیا۔مگر یہ فیصلہ کسی سائینسی اعداد و شمار کے بغیر ہی
لیا گیا اس لئے کہا گیا کہ ان سوالات کا جواب دینے کے لیے مزید وقت درکار
ہے۔ناز شاہ نے اس وقت 7 روز کے تازہ ترین اعداد و شمار پیش کئے جن کے مطابق
فرانس، جرمنی اور بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں فی لاکھ افراد میں
انفیکشن کی تعداد خاصی بلند تھی۔مگر پھر بھی پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل
کیا گیا۔ جب کہ پاکستان میں وائرس کی جنوبی افریقی قسم بھی مسئلہ نہیں بنی
جیسا کہ فرانس اور دیگر ممالک کے لیے ہے۔تو یہ سوال درست تھا کہ حکومت
برطانیہ نے فرانس، جرمنی اور بھارت کو ریڈ لسٹ میں کیوں شامل نہیں کیا۔ یہ
واضح ہوا کہ فیصلے سائنسی اعداد و شمار کی بنیاد پر نہیں لیے جارہے۔بلکہ یہ
جان بوجھ کر پاکستان اور پاکستانی کمیونٹی کے خلاف امتیازی سلوک ہے۔
پاکستان میں برطانوی ہائی کشمنر نے کن بنیادوں پر یہ اعلان کیا کہ برطانوی
حکومت نے کووڈ-19 کیسز پر متعلق نظرثانی کے بعد پاکستان کو سفری پابندیوں
کی ریڈ لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس لئے اب بھی وقت ہے کہ حکومت
قومی سلامتی سمیت خارجہ پالیسی پر از سر نو غور کرے اور اس میں حالات سے
مطابقت رکھنے والی اصلاحات متعارف کرے۔ جیو پولیٹکس سے جیو اکنامکس پر
منتقل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ملکی سلامتی اور مفاد ہی داؤ پر لگا دیا
جائے۔
|