پاکستان کے دفاع اوراستحکام کیلئے افواج پاکستان کی
استقامت اوردشمن کیخلاف بھرپور مزاحمت قابل رشک ہے۔جولوگ پاک فوج سے وابستہ
رہے یاآج بھی اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ اس کاہراول دستہ ہیں ،ان کی
پاکستانیت اورفطری صلاحیت سے کوئی انکارنہیں کرسکتا۔پاک فوج سے ملی تربیت
اورپیشہ ورانہ مہارت ہمارے فوجی بھائیوں کے زندگی بھر کام آتی ہے اوروہ پاک
فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد جس بھی شعبہ میں جاتے ہیں وہاں بھی ان کی قابلیت
کوخوب سراہا جاتا ہے۔پاک فوج کے کئی ریٹائرڈ آفیسرز قومی سیاست میں بھی ایک
منفرد اورممتاز مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں،انہیں جو بھی کام کرنا
ہووہ اسے بااحسن پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں ۔کوئی معاشرہ اس طرح کے منجھے
ہوئے اورپروفیشنل افراد کی صلاحیتوں کے ضیاع کامتحمل نہیں ہوسکتا، متمدن
معاشرے ان سے مستفید ہوتے ہیں۔پاک فوج سے ریٹائرہونیوالے افراد جس بھی شعبہ
میں جاتے ہیں وہاں سلیقہ اور ڈسپلن آجاتا ہے۔وہ کسی بااثریاطاقتور کے
دباؤمیں نہیں آتے اورانصاف کرتے ہوئے ڈنڈی نہیں مارتے۔قومی سیاست میں
مزیدسابقہ فوجی حکام کی ضرورت ہے ،انگوٹھاچھاپ عوامی نمائندوں سے فوجی چھاپ
والے امیدوارہزارگنا بہتر ہیں۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ،پاکستان میں آج تک
کسی فوجی پس منظروالے سیاستدان پربدعنوان ہونے کی چارج شیٹ نہیں لگائی گئی
۔
مادروطن پاکستان کی حفاظت کیلئے سردھڑ کی بازی لگانے اورکشمیر کاز کے ساتھ
زندگی بھر جرأتمندانہ اورآبرومندانہ کمٹمنٹ کامظاہرہ کرنے پر میجر(ر) مشتاق
احمد خان کانام آج بھی احترام سے لیاجاتا ہے،وہ آج بھی وطن عزیز کی حفاظت
کیلئے سربکف جبکہ اورہم وطنوں کی انتھک خدمت کیلئے سرگرم ہیں۔ میجر(ر)
مشتاق احمد خان کا تعلق غازیوں اور شہیدوں کے مقدس لہو سے سیراب سرزمین
بلوچ ضلع سدہنوتی کی خوب صورت وادی دہمن پکھوناڑ کے مشہور سدوزئی خاندان سے
ہے ،مجھے میجر(ر)" مشتاق "احمدخان سے ملنے کا بہت"اشتیاق "تھا ،پھرہم ملے
توانہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی مشاہدات سنائے ،مجھ سے طفل مکتب کیلئے ان
میں سے سیکھنے کیلئے بہت کچھ تھا۔ میجر (ر)مشتاق احمدخان ان دنوں صحافت
اورسیاست میں کافی سرگرم ہیں،ان کے ساتھ رسمی اورقلمی رابطہ قلبی تعلق میں
تبدیل ہوگیا ۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پوسٹ گریجوایشن اور قانون
کی ڈگری حاصل کی،بعدازاں پاک فوج سے وابستہ ہوئے اور 2015 ء میں بطور میجر
ریٹائر ہوئے۔مادروطن کیلئے دفاعی خدمات کے بعد انہوں نے ادب کو اپنا پیشہ
بنایا ،وہ ملک کے ممتاز کالم نگار اور مشہور مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ
آزادکشمیر کی ہردلعزیز سیاسی و سماجی شخصیت بھی ہیں،ایک زمانہ ان کی طر ف
سے انسانیت کی "فلاح" کے دوررس اقدامات کا"مداح "ہے۔میجر (ر)مشتاق احمدخان
اپنی" نمائش" اور" ستائش" کے حامی نہیں ،موصوف بیانات اوراشتہارات والے
سیاستدان نہیں کیونکہ ان کاکام بولتا ہے ۔ دکھی انسانیت کا دردان کی رگ رگ
میں سرائیت کرگیا ہے ۔ان کی پانچ عدد تصانیف پاکستانی اردو ادب میں ایک
درخشاں باب کی حیثیت رکھتی ہیں،ان کا ہر کالم منفرد اسلوب کا حامل
ہوتاہے،ان کی تحریریں مختلف قومی اخبارات اور بیرون ملک رسائل میں بہت
اہتمام کے ساتھ شائع کی جا تی ہیں۔سیاسی وسماجی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ان
کا تعلق آزاد کشمیر کی بڑی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس سے ہے جبکہ آمدہ عام
انتخابات کے سلسلہ میں شنید ہے میجر (ر)مشتاق حلقہ بلوچ ضلع سدہنوتی سے ایک
مضبوط امیدوار کی حیثیت سے انتخابی میدان میں اتریں اورکامیابی کے جھنڈے
گاڑیں گے۔
دہیروپ ویلفیئر ٹرسٹ کے نام سے ان کاایک فلاحی ادارہ بھی رجسٹرڈ ہے جو مفلس
ومستحق انسانوں کی انتھک خدمت میں پیش پیش ہے۔میجر(ر) مشتاق احمد خان ایک
خوش پوش، خوش اخلاق ،متحرک اور خاص وعام سے پوری بشاشت سے ملنے والے انسان
ہیں۔وہ فرزند کشمیر ہیں اور انکا تعلق ریاست جموں و کشمیر کے ایک ایسے
بازوئے شمشیر زن خاندان سے ہے جس کے افراد نے کشمیر کی آزادی کی 2 صدیوں
پرمحیط کٹھن جدوجہد کے دوران زندہ حالت میں اپنی چمڑی تک کھینچوانے سے بھی
گریز نہیں کیا تھا۔1832ء میں ان کے قبیلے ہی کے سردار سبز علی خان اور
سردار ملی خان کی مہاراجہ گلاب سنگھ نے زندہ چمڑی کھینچوائی تھی، یہ مادر
وطن کی آزادی کیلئے قربانی کی منفرد مثال ہے ۔
میجر(ر) مشتاق ایک دانشور،کالم نگار ، زیرک اور انسان دوست شخصیت ہیں،ان کی
تحریریں شستہ اور شائستہ ہوتی ہیں۔ جذبہ حب الوطنی، وطن کی آزادی اور جذبہ
آزادی سے ان کا دل ودماغ پوری طرح لبریز ہے۔کشمیر میں مسلمانوں پر بھارتی
ظلم و ستم اور بھارت میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کئے جانے پران کوبیحد
ملال ہے۔ وہ ہر وقت کشمیر کی آزادی اورکشمیریوں کی آسودگی کیلئے اپنی
تحریروں اور تقریروں میں اپنی قلبی وقلمی وابستگی کا بھرپور اظہار کرتے
رہتے ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں تنازع کشمیر کا
پائیدار حل تلاش کرنے کے حامی ہیں۔انہوں نے سیاست کی شروعات آل جموں کشمیر
مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے کی ہے۔ مسلم کانفرنس کو آزاد کشمیر کی خالق
اور سواد اعظم جماعت ہونے کابیش قیمت اعزازحاصل ہے، جو " کشمیر بنے گا
پاکستان" کے مجاہد اوّل سردار عبدالقیوم خان اور غازی ملت سردار محمد
ابراہیم خان کے نظریہ پر پوری استقامت سے آج بھی سردار عتیق احمد خان کی
قیادت میں ڈٹ کراپناکرداراداکررہی ہے۔مسلم کانفرنس دنیا کے مقابل اس نظریہ
کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑی ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کشمیریوں کو
ان کا فطری حق، حق خود ارادیت دیا جائے اور جب تک یہ حق کشمیریوں کو مل
نہیں جاتا کشمیری اور مسلم کانفرنس کے عمائدین اپنے اس نظریے ،ارادے اور
جدوجہد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ میجر(ر) مشتاق حلقہ بلوچ سدہنوتی سے
اسلئے مضبوط امیدوار ہیں کیو نکہ انہیں مقامی مسائل کاادراک اورووٹرزکی
محرومیوں کابھرپوراحساس ہے۔اس حلقہ کی ملک برادری اپنے ممتازافراد ملک
مشتاق، ملک فاروق انقلابی، ملک حیات ایڈووکیٹ اور ملک سجاد کی قیادت میں
مسلم کانفرنس سے وابستہ ہو چکی ہے ۔ دوسری طرف آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی نو
مولود ہے۔
مسلم کانفرنس کی حمایت یا اتحاد کے بغیر پی ٹی آئی آزاد کشمیر میں سولو
فلائٹ کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)
دو مضبوط پارٹیاں موجود ہیں اگر پی ڈی ایم مل جائے تو حکمرانی کا خواب الٹ
ہو سکتا ہے۔ حلقہ میں دوردورتک ترقیاتی منصوبوں کاکوئی نام ونشان نہیں،کوئی
میگا پروجیکٹ شروع نہیں ہوا۔ حلقہ بلوچ کی شاہراہیں کھنڈرات کا منظر پیش کر
رہی ہیں۔ عوام بیروزگاری اور مہنگائی سے ستائے ہوئے ہیں اور مقامی رہنماؤں
کے درمیان رسہ کشی والی سیاست سے بیزارکسی نیک نام اورتازہ دم قیادت کی
تلاش میں تھے، اسلئے حلقہ بلوچ کے عوام کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں میجر(ر)
مشتاق کی صورت میں ایک ایسا رہنماء منتخب کرنے کو ملے گا جو غریب پرور ہونے
کے ساتھ ساتھ درد دل بھی رکھتا ہے۔ جس کا دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتا ہے
اور اس کے اندر جذبہ ہمدردی اور جذبہ آزادی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔پاکستانیت
سے بھرپور انسان منتخب ایوان میں اپنا صحتمند کرداراداکریں گے ۔
|