علاج با لمثل یعنی ہومیوپیتھک کا
جب بھی ذکر ہوگا تواس طریقہ علاج کے بانی ہانیمن کا تذکرہ بھی یقیناً
ہوگا۔انہوں نے سالہا سال کی تحقیق و جستجو کے بعد بنی نوع اانسان کی فلاح
وبہبود کیلئے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ آج
ساری دنیا میں یہ طریقہ علاج مقبول ہے۔
خاندان کی غربت نے ہانیمن کی تعلیم پر خاصہ برا اثر ڈالا۔ اس کے باوجود
ہانیمن کے والد نے اس کی تعلیم و تربیت میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ ۔اس کے
والد نے ہانیمن کے دماغ کو اچھے اور قیمتی خیالات اور نظریات کی آماجگاہ
بنایا۔
ہانیمن نے لڑکپن سے ہی اپنی تعلیم کی طرف مکمل توجہ دینی شروع کی اور
ابتدائی تعلیمی زندگی میں ہی کافی غیر ملکی زبانوں میں مہارت حاصل کرنا
شروع کر دی۔
1781ءمیں ہانیمن ڈاکٹر آف میڈیسن بن گیا اور اس نے روایتی ایلوپیتھک ادویات
پر کام شروع کر دیا۔ ساتھ ہی سائنسی اور طبی کتب کا ترجمہ بھی کرتا رہا۔
جلد ہی ہانیمن کا اس زمانے کے طبی طریقے کار سے اعتقاد ختم ہو گیا اور آپ
1783ءمیں ڈریسڈن چلے گئے جہاں آپ نے فرانزک میڈیسن forensic medicine کے
شعبے کیلئے خود کو وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔
ہانیمن کی ایلوپیتھک پریکٹس کا دورانیہ تقریباً 10 سالوں پر محیط تھا۔
لہٰذا ہانیمن نے سنکونا کے اثرات کا خود پر تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ
دریافت کیا کو سنکونا کھانے سے جو اثرات یا علامات اس کے اندر پیدا ہوئیں
وہ ملیریا جیسی تھیں۔ دوائی چھوڑنے کے چار روز بعد یہ علامات خود بخود ختم
ہو گئیں یہ پہلا ہومیوپیتھی ثبوت تھا اور یہ ہومیوپیتھی کے پہلے قانون کی
دریافت Similia Similibus Curentur یا Like Cure like علاج بالمثل ہانیمن
نے اپنی اس نئی دریافت کو ہومیوپیتھی کا نام دیا ۔
1801ءمیں ہانیمن نے اپنے ادویات کی مقدار کو کم کرنے کے نظریے کو وسعت دی
کہ ادویات کی طاقت کو کم کرنے سے ایک طاقت کے طور پر کام کرتی ہیں۔جیسے
اٹیم کاذرہ جتنا زیادہ چھوٹا ہوتا جاتا ہے اتنا زیادہ طاقت ور بن جاتا ہے۔
1805ءمیں ہانیمن نے 27 ادویہ کے اپنے اوپر تجربات ایک لاطینی کتاب میں بیان
کئے۔ اس کے نظریے کے مطابق ان ادویات کی آزمائش ایک صحت مند جسم پر کی
جاسکتی ہے۔ اس نے سارے تجربات خو پر کئے اور 1807ءمیں اس نے اپنے طبی نظام
کو ہومیوپیتھی کا نام دیا۔
1808ءمیں ہانیمن نے ایک مشہور معالج کرسٹوف ولیلم ہوف لینڈ Christoph
Wilhelm Hufeland کو ایک خط لکھا کہ میں طب کے عام طریقہ علاج پر 18 سال سے
عمل پیرا رہا ہوں اور یہ بہت سی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے کیونکہ یہ طریقہ
علاج نئی بیماری کو پیچیدہ کر سکتا ہے اس کے علاوہ یہ انتہائی بے ترتیب ہے۔
ہانیمن کے انسان کو مکمل طور پر فوقیت دی اور اس کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی پر
زور دیا۔ اسی سال جب نپولین نے لیپزگ پر حملہ کیا تو تقریباً 80,000 لوگ
مارے گئے ہانیمن نے جنگ میں بچ جانے والے اور ٹائیفائیڈ کی وباءسے متاثر
ہونے والوں کا علاج کیا جو ہومیوپیتھی کو پھیلانے میں معاون ثابت ہوا۔
1831ءمیں ہانیمن نے ایک کتاب ”ایلوپیتھی ہر قسم کے بیمار لوگوں کےلئے
انتباہ“ شائع کی ۔ 1831-32ءمیں جب پورے یورپ کے ایک بڑے حصہ میں ہیضے کی
وباءپھوٹ پڑی تو روایتی ادویات بے کار ثابت ہو رہی تھیں تو ہانیمن نے
ہومیوپیتھی کے طریقہ علاج اوراحتیاطی تدابیرسے بہت سے مریضوں کوشفاءملی۔ جس
کی شرح علاج میں 96% تھا۔ بہ نسبت ایلوپیتھی کے 41% شرح کے اس کامیابی کی
وجہ سے 1832ءمیں لیپزگ میں پہلے ہومیوپیتھک ہسپتال کا قیام عمل میں آیا۔ جس
نے ایک جستجوکا دروازہ کھول دیا۔
ہومیوپیتھی کی ابتداء1790ءکی دہائی میں جرمنی میں ہوئی پھر فرانس اور متحدہ
برطانیہ پہنچی جہاں سے یہ پچاس سال کے اندر برطانوی متحدہ ،ہندوستان کے
علاوہ دنیا کے سارے براعظموں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ متحدہ
ہندوستان میں لاہور کو سب سے پہلے ہومیو پیتھی کا استقبال کرنے کا شرف حاصل
ہے۔
Dr. Freeburn اور میجر ڈاکٹر صادق علی نے 1920ءمیں ہندوستان کا سب سے پہلا
ہومیو پیتھک میڈیکل کالج لاہور میں ہی بنایا۔قیام پاکستان کے بعد مسعود
قریشی اور دیگر ہومیوپیتھک ڈاکٹروں نے ہومیوپیتھی کو بام عروج بخشا۔مسعود
قریشی کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
ہومیو پیتھی ایک Holistic اپروچ والا سسٹم ہے جس میں مکمل مریض کو لیا جاتا
ہے۔ برطانیہ کا ایک غیر جانبدار ہفتہ روزہ میڈیکل جرنلBritish Medicine
Journal نے اپنی 7جون1986ءکی اشاعت میں ڈاکٹر رچرڈ وارٹنRichard Wharten
اور ڈاکٹر جارج لیوتھ George Lewithکے کئے گئے ایک سروے رپورٹ میں مختلف
برطانوی ایلوپیتھک ڈاکٹرز کے ہومیوپیتھی کے بارے میں خیالات پیش کئے گئے
ہیں کہ ہر 100میں سے 42 ایلوپیتھک ڈاکٹرز یعنی 42% ڈاکٹر، اپنے مشکل مریضوں
کو ایلوپیتھی اسپیشلسٹ کے بجائے ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کی طرف refer کرتے ہیں۔
یہ ہے آج کی ہومیو پیتھی کا مقام، ہومیو پیتھک کو یہ مقام خیرات میں نہیں
ملا، ہومیو پیتھی بذات خود ایمرجنسی کا نظام ایلو پیتھی سے کسی طرح بھی کم
نہیں بلکہ خود مختار Independent اپروچ رکھنے والا سسٹم ہے۔
فرانس میں 1990ءکی ہومیوپیتھی کو میڈیکل کا بہترین نظام قرار دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ2000ء جنیوا میں دنیا بھر سے سروے رپورٹ کے بعد whoنے
ہومیوپیتھک کو”امراض کی روک تھام “کا دوسرا بڑا طریقہ علاج قرار دیا ہے ۔
2000ءہی میں ہاﺅس آف لارڈز UKمیں اور وائٹ ہاﺅس کمیشن نے واشنگٹن ڈی سی میں
22مارچ 2002ءکو ہومیوپیتھی کی حیثیت کو تسلیم کیا۔
فرانس میں تقریباً 20 ہزار کے قریب ہومیو پیتھک فارمیسیز کام کر رہی ہیں۔
یہ فرانس ہی ہے جب ہانیمن کو جرمنی سے ملک بدر کیا گیا تو پناہ دی اور
ہومیوپیتھک پریکٹس کرنےکی اجازت دی ۔ برٹش میڈیکل جرنل ہی کی ایک سروے
رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر 100گریجوایٹس برٹش فزیشن میں سے 80%
ہومیوپیتھی میں ٹریننگ لینا چاہتے ہیں۔ یورپ میں پہلے ایلوپیتھک ڈاکٹر بننا
پڑتا ہے پھر ہومیوپیتھک، کیونکہ ہومیو پیتھی، ایلوپیتھی ڈاکٹر کو ایک
اسپیشلٹی کے طور پر پڑھائی جاتی ہے اس لئے اسے Post Graduate Specialty کا
درجہ حاصل ہے اور یورپ میں ایک ہومیوپیتھ کو HMD ہومیو میڈیکل ڈاکٹر کہا
جاتا ہے۔
بانی ہومیو پیتھک ڈاکٹر سیموئیل ہانیمن بذات خود ایک ایلوپیتھک ڈاکٹر MDتھے
پھر ہومیو پیتھ بن گئے۔
پاکستان میں بھی اس وقت ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہومیوپیتھک پریکٹس کی طرف آ
رہے ہیں۔ اور کامیابی سے ہومیوپیتھک پریکٹس کر رہے ہیں۔
پاکستان ‘ انڈیا اور دنیا کے اکثر ممالک میں ہومیو پیتھی کو ایک جداگانہ
میڈیکل سسٹم کی حیثیت حاصل ہے اور یہ حیثیت اسے قانون ساز اسمبلیوں نے
ہومیوپیتھک پریکٹیشنر ایکٹ1965کے تحت دی ہے۔
انڈیا کا ہومیوپیتھی کی دنیا میں ایک اہم کردار یہ بھی ہے کہ انڈیا میں
ہومیو پیتھک ڈاکٹر کی قانونی حیثیت اور مقام ایک میڈیکل پریکٹیشنز کے برابر
ہو گیا ہے۔
ہمارے ملک میں شعبہ طب اور ہومیوپےتھک کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیاجاتا
ہے۔
جبکہ اگر ہم نے اپنے پڑوسی ملک بھارت پر ایک نظرڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ
وہاں متبادل طریقہ ہائے علاج کو ترویج دینے کے لئے وزارت صحت میں علیحدہ سے
ایک ڈیارٹمنٹ موجود ہے جسے ڈیپارٹمنٹ آف ”AYUSH“ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ
ڈیپارٹمنٹ ان طریقہ ہائے علاج کی ترقی وترویج کے لئے ہرممکن مدد فراہم کرتا
ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت میں صرف ہومیو پیتھک طریقہ علاج کی 5634
ڈسپنسریاں 223 ہسپتال جن میں 11205 بستروں کی سہولت موجود ہے۔ 178کالج جو
ڈپلومہ کروا رہے ہیں اور 31کالج جو پوسٹ گریجویشن کروا رہے ہیں موجود ہیں
اس کے برعکس اگر ہم اپنے ملک کا اس حوالے سے جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ
ہم اس حوالے سے بہت پیچھے ہیں ۔
آج ہومیو پیتھک کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ 1970ءسے 1980ءکے
دوران امریکہ میں ہومیوپیتھی کی پریکٹس کرنے والوں کی تعداد ودگنی ہو گئی۔
امریکہ کے میگزین FDA کنزیومر کی رپورٹ کے مطابق 1970ءسے 1980ءکے دوران
ہومیو پیتھک دواﺅں کی فروخت 100فیصد بڑھ گئی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے
مطابق 1980ءسے 1982ءکے دوران امریکہ میں ہومیو پیتھ کی تعداد میں دوگنا
اضافہ ہوا۔ ذرا سوچو! آج ہومیو پیتھی دنیا میں کہاں کھڑی ہے۔ ہزاروں سال
پرانے دواﺅں کے سسٹم مثلاً یونائی، چائنیز، ہربل میڈیسن وغیرہ صرف دنیا کے
چند علاقوں تک ہی محدود ہیں جبکہ ہومیوپیتھی صرف دو سو سالوں میں دنیا کے
پانچوں آباد براعظموں، ایشیا، یورپ، امریکہ، افریقہ اور آسٹریلیا میں اپنے
کامیاب قدم گاڑھ چکی ہے۔
صدیاں بیت گئیں لیکن افسوس ایلوپیتھی کے دل سے تعصب کی گرہ نہ کھلی جب آخری
عمر میں سرجری ناقابل عمل ہو جائے یا حاملہ عورتوں میں ایلوپیتھی ناقابل
برداشت ہو جائے یا جب نوزائیدہ اور شیر خوار بچوں کے لئے ایلوپیتھی شجر
ممنوعہ بن جائے یا گردے فیل کے مریض ڈائیلسس سے منکر ہو جائیں یا مریض
ایلوپیتھک دواﺅں سے الرجی ہو یا مریض کی قوت مدافعت انتہائی کمزور ہونے کی
وجہ سے ایلوپیتھک دوائیں ٹمٹماتے ہوئے چراغ کے لیے آخری جھونکا ثابت ہونے
کا خطرہ ہو یا مریض کی بیماری بار بار حملہ آور ہو کر ایمرجنسی نافذ کر
دیتی ہو تو ایسے نازک وقت میں وہ ہومیوپیتھک کو Alternative System مان
لیتے ہیں۔ بتاﺅ جو سسٹم نازک صورت حال میں کام آئے وہ زیادہ قابل اعتبار،
مکمل اور بہتر ہے یا وہ سسٹم جو مشکل وقت میں کنارہ کر جائے وہ بہتر ہے۔
بعض اوقات معالج مریض کے خون میں Troponin-T یا دوسرے پروٹین کے پازیٹو
ہونے یا عمر زیادہ کی وجہ سے ہارٹ اٹیک کے خوف سے ڈائیلسس اور ہر قسم کے
آپریشن سے انکار کر دیتے ہیں اور بعض اوقات مریض اور معالج دونوں ڈائیلسس
اور آپریشن سے انکار کر دیتے ہیں۔ اگر ایسا ہی کوئی ڈیڈ لاک پیدا ہو جائے
اور ہر طرف سے انکار ہو جائے تو ہومیو پیتھی مریض کو مرنے کے لئے نہیں چھوڑ
سکتی۔ ہومیوپیتھک ادویات کے ایجاد سے لے کر آج تک مضر اثرات انسانی صحت پر
مرتب نہیں ہوئے۔دوسرے طریقہ ہائے علاج کی بہت سی ادویات محض اس لیے بند
کردی جاتی ہیں کہ انہوں سے انسانی زندگی پر بے حد مضر صحت اثرات مرتب کرنے
والی ثابت ہوئیں‘مشہور ایلوپیتھک ڈاکٹرDr.Ronalled Livingston,MBBS
Lond.M.F.Hon ایک انتہائی سادہ اور عام استعمال ہونے والی دوائی اسپرین کے
سائیڈ ایفیکٹ بتاتے ہیں جنہیں پڑھ کر انسان دہل جاتا ہے۔ یہی وجہ ایک کہ آج
آپ کو ملنے والی ایلوپیتھک ادویات ایک دو سال کے بعد دوبارہ نہیں ملتی اس
کی ایک خاص وجہ ان ادویات کی پروننگ جانوروں‘گنی پگ‘مینڈک‘ خرگوش اور دوسرے
جانوروں پر کی جاتی ہے۔ جانوروں پر پروننگ کی ہوئی ادویات کو انسانوں پر
استعمال کرنے سے صاف اور سیدھی سی بات ہے کہ بہت ساری پیچیدگیاں ضرور پیدا
ہوں گی۔ اس کے برعکس ہومیوپیتھک واحد میڈیکل سائنس ہے جس کی ادویات کی
پروننگ براہ راست انسانوں پر کی جاتی ہے یہاں ایک غور طلب بات ہے کہ جب
ہومیوپیتھک ادویات کی انسانوں پر پرووننگ کی گئیں تو انہوں نے خود بتایا کہ
ہمیں یہ دوائی کھانے سے یہ محسوس ہو رہا ہے‘ سر کے بائیں طرف درد شروع ہو
گیا ہے ‘دل میں گھبراہٹ ہے‘آنکھوں کے آگے چکر آنے شروع ہو گئے ہیں‘پیٹ میں
شدید درد ہے۔پھر ان کے لیبارٹری ٹیسٹ لیے جاتے ہیں‘ ذی شعور انسان اس بات
کو سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائے گا کہ ہومیوپیتھک ہی حقیقت پر مبنی
سائنس ہے۔کیونکہ دوسرے طریقہ علاج کے پروور یعنی گنی پگ‘ خرگوش‘ مینڈک
وغیرہ وہ آپ کو نہیں بتا سکتے ہیں کہ یہ کھانے کے بعد انہیں شدید چکر آیا
اورگر گئے۔ لہذا صرف لیبارٹری ٹیسٹ سے ہی نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ یہی
جہ ہے کہ ہومیوپیتھک ایک محفوظ طریقہ علاج ہے۔جس کی ادویات بیماری کے دوران
قوت مدافعت کو متاثر نہیں کرتی ہیں۔ |