زندگی سے پیار٬ منشیات سے انکار

زندگی اﷲ تعالٰی کی ایک عظیم نعمت ہے ‘اس کی قدر ہر ایک پر فرض ہے جس کو یہ زندگی ملی ہے کیونکہ وہ زندگی ایک بار ملتی ہے‘ انسانی زندگی صحت عامہ کے حوالے سے آج پوری دنیا خصوصا ترقی پذیر اور غریب ممالک کو جن بڑے خطرات اور چیلنجوں کا سامناہے ۔اس میں منشیات اس لخاظ سے سرفہرست ہے ۔منشیات کی استعمال کی وجہ سے سالانہ لاکھوں افراد موت کے منہ میں چلتے رہے ہیں اور تیزی سے ہزاروں انسانوں کو اپنی علت کا غلام بناتی جارہی ہے ،جس میں خواتین ،نوجوان اور بچے بری طرح پھنستے جارہے ہیں اور اپنی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ و برباد کرتے جارہے ہیں، َ"زندگی واپس نہیں مل سکتی " دنیا بھر میں اس بار انسداد منشیات کا عالمی دن اس موضوع کے ساتھ منایا جارہاہے۔ 26 جون کو ہرسال پوری دنیا میں اس عہد کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ منشیات کے نقصانات اور تابکاریوں کے کے بارے میں عوام و الناس کو آگہی دینا ہے اور اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہے ،عالمی سطح پر اس دن کو منانا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت منشیات پوری دنیا کا ایک سنگین مسئلہ ہے ،ہمارے ہاں ضلع لسبیلہ میں منشیات کا مسئلہ اپنے عروج پر ہے ،انسداد منشیات کے لیے لسبیلہ کے اندر بہت ساری سیکورٹی فورسز ،حکومتی ادارے اور غیرسرکاری ادارے عمل پیرا ہیں ،جو کہ ماہانہ اور سالانہ طورپر رپورٹس کے لیے کاغذوں کے پیٹ بھرتے رہتے ہیں۔مگر حالات روز بہ روز خراب ہوتے جارہے ہیں ،بچے ،نوجوان ،خواتین اور بزرگ بری طرح منشیات کی علت کا شکار ہیں،ضلع لسبیلہ میں ایک دور ایسا تھا جب یہاں کے لوگ پان کے بچاری ہوا کرتے تھے ۔ہر چھوٹے بڑے گوٹھ،گاؤں اور شہر میں کبین ہوا کرتی تھی جس میں پان کا کاروبار چلتا ہے ۔لوگ پان کو بادشاہوں کی طرح شوقیہ طور پر پان استعمال کرنے کے بجائے نشہ کے طور پر استعمال کرنے لگے ،کیا ہوا کہ لسبیلہ کے عوام کو یہ نشان عبرت مل گیا کہ دنیا کا سب سے زیاد ہ پان لس میں ہی کھایا جاتاہے ۔مجھ جیسے سماجی تبدیلی کا شوق رکھنے والے دوستوں نے معاشرے میں پان کی لعنت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے معاشرے میں Change maker بننے کی کوشش کی مگر پان کی نشہ ختم ہونے کے بجائے اس نشہ نے ایک خطرناک شکل کی اختیار کردی جو ابھی لسبیلہ کے ہر گھر کو اپنا نشانہ بنا گیا اور اب تیزی کے ساتھ ہرفرد کو نشانہ بنا رہاہے۔یہ نشہ ہے گٹکے کا نشہ ، اس نشے نے اس وقت لسبیلہ کے ہرگھر کو اپنے رحم و کرم پر رکھا ہے لس میں ایسے بہت کم گھرانے ہونگے جہاں گٹکا کو نہیں کھایا جاتاہوگا۔

کہتے ہیں کہ اکثرلوگ لاعلمی و جہالت کی وجہ سے مختلف برائیوں کا شکار ہوجاتے ہیں ،اور اپنی زندگی کو خود مسائل کے دلدل میں دھکیل دیتے ہیںمگرہمارے ہاں جہالت کے ماروں کے ساتھ ساتھ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی اس برائی کا شکار ہوا ہے ،ہم سب نے ایسے بہت سارے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں گٹکاخوری کرتے ہوے دیکھا ہے ،اور بہت سارے بااثر لوگوں کو گٹکاخوری کی دانستہ اور غیر دانستہ سپورٹ کرتے دیکھاہے
،دوسری طرف کٹگا کے کاروبار کرنے والوں جس کو ہم گٹکا مافیا کہتے ہیں۔انہوںنے بھی لسبیلہ کو گٹکے کے قہرمیں ڈبونے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔چند ٹکوں کی خاطر لسبیلہ کے نوجوانوں کی زندگی کو موت سے کھیلا رہے ہیں،ہر گاؤں ،ہر محلہ ،ہر شہر میں ہمیں گٹکے کے یہ کھوکے زہر بیچتے نظر آتے ہیں مگر ہماری حکومت کو آنکھیں رکھتے ہوئے بھی کچھ دیکھائی نہیں دیتا ۔ہمارے ہاں سماجی تنظمیں گٹکے کے خلاف آوازیں بلند کر کر کے بیٹھ گئی مگر یہ گٹکا ہے کہ گھٹا ہی نہیں۔

اس وقت بہت سارے نوجوان گٹکے کی نشے میں مبتلا ہوکر تیزی کے ساتھ منہ و گلے کے کنیسر ،سرطان جیسے بیماریوں کا شکار ہو کر صحت جیسی عظیم نعمت کی ناشکری کررہے ہیں۔لسبیلہ میں اس وقت بہت سارے لوگ جن میں بچے ،نوجوان ،بزرگ اور خواتین شامل ہیں ،گٹکے کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے ہیں اور باقی ان منہ کی بیماریوں میں مبتلا ہوکر سسک سسک کر جی رہے ہیں ،ہمارے ہاں صحت کے مسائل پر سوچھنے و سمجھنے کے عمل کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی ، معاشرے میں رشتوں کے اندر تمیز ختم ہوتی جارہی ہے ایک باپ،ماں یا استاد بچوں کو گٹکے کھانے سے کیسے کر منا کرسکتاہے جبکہ اسکے خود کے منہ میں 24 گھنٹہ گٹکا ہوتاہے ،یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں پورے گھر کا گھر گٹکے کے نشہ کا شکار ہے ۔اور یہ عمل بہت خطرناک نتائج کو جنم دے گا جس کا شاہد ہم نے تصور نہ کیا ہو اور آنے والی نسلیں گٹکے خوروں کی نسلوں سے جانی جائیں ہمیں سوچنا اور سمجھنا ہوگا کہ ہم کس سمت جارہے ہیں۔

اس تمام تر صورتحال میں سوائے آخری امید کے کچھ نظر نہیں آتا کہ ہم لوگوں میں یا شعور دینے میں کامیاب ہوجائیں کہ گٹکا کا استعمال ایک برائی ہے اور اس کے لیے ہمیں اپنے عزم کے ذریعے لوگوں میں شعور کی سطح کو بلند کرنے میں کامیاب ہوجائیں،اگر دیکھا جائے تو اس سلسلے میں رویوں کی تبدیلی پر کام کرنے کی ضرورت ہے کہ گٹکے خلاف ایک موثر فورم تشکیل دے کر بھرپور لوگوں کے ساتھ کمیونٹی موبلائزیشن اور اور حکومتی احکام کے ساتھ ا یڈوکیسی کی جائے اور اس مسئلے کی سنگینی کے بارے میں ان کو جانکاری دی جائے اور اس حوالے سے قانون سازی کا راہ ہموار کی جائے تاکہ لسبیلہ جیسے ترقی پذیراور کم شرح خواندگی کے حامل ضلع لسبیلہ میں صحت عامہ خصوصا گٹکاکے تباہ کن اثرات سے متعلق شعور پیدا کرنے اور اس زہر قاتل پر موثر کنٹرول کے لیے سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر مزید اور ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Khalil Roonjah
About the Author: Khalil Roonjah Read More Articles by Khalil Roonjah: 12 Articles with 19157 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.