سن 2013 میں راجکمار سنتوشی نے شاہد کپور کو لے کر ایک
فلم بنائی تھی ’پھٹا پوسٹر نکلا ہیرو‘ فی الحال اترا کھنڈ کے وزیر اعلیٰ
تیرتھ سنگھ راوت پر ضرورت اس بات کی ہے کہ سنتوشی ایک نئی فلم بنائیں جس
کانام ہو’پھٹی جینس تو نکلا تیرتھ ‘۔ بعید نہیں کہ تنازعات کے شوقین تیرتھ
اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے اس میں ہیرو کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار
ہوجائیں ۔ انہوں نے بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا کے اصول پر عمل
کرتےہوئے ’پھٹی جینز‘ والے بیان سے بہت زیادہ مقبولیت سمیٹی بلکہ مودی جی
سے بھی آگے نکل گئے۔ ویسے بنگلادیش کے لیے ستیہ گرہ کا اعلان کرکے وزیر
اعظم نے انہیں مات دے دی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شئے اور مات کا کھیل کہاں تک
جاتا ہے؟ تیرتھ سنگھ راوت کو خواتین کی پھٹی ہوئی جینز دیکھ کر حیرانی ہوتی
ہے اور ان کے دل میں سوال اٹھتا ہے کہ اس سے سماج میں کیا پیغام جائے گا۔
وزیر اعلیٰ کا یہ بیان تو درست تھا لیکن اس کی سوشل میڈیا پر مذمت ہوئی تو
گھبرا کر انہوں نے کہہ کر معافی مانگ لی کہ میں دیہات سے تعلق رکھتا ہوں اس
لیے اگر کسی کی دلآزاری ہوئی ہو تو معذرت چاہتا ہوں ۔یہ ہے سنگھ پریوار کے
کاغذی شیروں کی دلیری ۔ اس معاملے میں حیرت انگیز طور پر ان کی زوجہ رشمی
تیاگی حمایت کے لیے میدان میں کود پڑیں۔
رشمی دہرا دون میں نفسیات پڑھاتی ہیں انہوں نے کہا کہ تیرتھ سنگھ نے جینس
پر مغربی تہذیب کی علامت کے طور پر تنقید کی ہے اور ان کا ایسا کرنا درست
ہے ۔ رشمی تیاگی ایک زمانے میں میرٹھ کی ملکۂ حسن رہی ہیں ۔ انہیں پہلے تو
یہ بتانا ہوگا کہ ملکہ حسن کے مقابلے میں حصہ لینا کیا ہندوستانی تہذیب کا
حصہ ہے ؟ اس طرح کے مقابلوں جو لباس زیب تن کرکے اپنے جسم نمائش کی جاتی ہے
کیا وہ پھٹی ہوئی جینس سے زیادہ مہذب ہوتے ہیں ۔ ان کے شوہر کو اگر سودیشی
تہذیب کا اتنا ہی خیال تھا تو انہوں نے شادی کرنے کے لیے کسی ستی ساوتری کا
انتخان کیوں نہیں کیا؟ آر ایس ایس کے لوگ جو خاکی نیکر پہنتے رہے ہیں وہ
ہندوستانی لباس ہے یا مغربی ؟ اور اس میں جو برہنہ ٹانگیں نظر آتی ہیں اس
پر کسی کو حیرانی کیوں نہیں ہوتی ؟ اس سے بھی آگے بڑھ ہندوستان کی قدیم
تہذیب کا عظیم نمونہ ناگا بابا بھی ہیں جو ہزارون کی تعداد میں ہری دوار کے
اندر موجود ہیں ۔ وہ تو نیکر اورقمیض وغیرہ پہننے کی زحمت بھی نہیں کرتے ۔
تیرتھ اور رشمی کو پتہ ہونا چاہیے کہ جن کے مکان شیشے کے ہوتے ہیں وہ پردہ
لگا کرکپڑے تبدیل کرتے ہیں ۔
اترکھنڈ کے وزیراعلیٰنے ایک تقریب میں کہہ دیا کہ حکومت ہر کنبہ کو
5کیلوگرام فی فرد کے حساب سے راشن دیتی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ 2لوگوں
فیملی کو 10 کیلوگرام اور 20 ممبر والے کنبہ کو 100 کیلوگرام راشن ملے گا۔
ایسے میں اگر ایک خاندان دوسرے سے حسد کرنے لگے کہ اس کو صرف 10 کیلوگرام
اور دوسرے کو ایک کوئنٹل راشن کیوں مل رہا ہے تو اس میں اسی کا قصور ہے ۔
اس نے صرف 2 بچوں پر اکتفا کیوں کیا 20بچے کیوں نہیں پیدا کیے ؟ تیرتھ سنگھ
نے اپنی بدزبانی سے مسلمانوں پر بلاواسطہ کیچڑ تو اچھا ل دیا اور یہ فرقہ
پرستوں کا پرانا راگ ہے لیکن ان میں سے اکثر شادی تک نہیں کرتے ۔ سنگھ میں
بھی برہما چریہ کا پالن کیا جاتا ہے پرچارک کو شادی کرنے کی اجازت نہیں دی
جاتی۔ اس لیے 1988 میں تیرتھ نے پرچارک کے جنجال سے جان چھڑاکر 11 سال کی
تگ و دو بعد بیاہ رچایا لیکن اپنی 23 سالہ ازدواجی میں 20 تو دو بچے بھی
پیدا نہیں کیے اور صرف ایک بیٹی پر اکتفاء کرلیا۔ دوسروں کو اوٹ پٹانگ
مشورہ دینے سے قبل انسان کو اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھ لینا چاہیے۔
تیرتھ سنگھ کے سامنے سب سے پہلا چیلنج ہری دوار میں منعقد ہونے والے کمبھ
میلے کا اہتما م ہے ۔ اس بابت 11 جنوری کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے کمبھ کے
معاملے میں اپنے اہم فیصلے کے تحت مرکز اور ریاستی حکومت کو سخت ہدایت دیتے
ہوئے کہا تھا کہ وہ اس بابت خصوصی ہدایات (ایس او پی) جاری کریں اور 13
جنوری سے پہلے اس کی مفصل رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔ عدالت نے ریاست کے
چیف سکریٹری، چیف ہیلتھ سکریٹری، میلہ افسر اور ضلع افسر ہری دوار کو بھی
ہدایات دی تھی کہ وہ کورونا وبا کے تناظر میں کمبھ میلےکی بابت خصوصی میٹنگ
کرکے اس کی تفصیل عدالت کے سامنے رکھے ۔ اس معاملے میں ترویندر سنگھ خاصے
سنجیدہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہری دوارکو ووہان یا مرکز نہیں بنانا
چاہتے لیکن تیرتھ نے ساری احتیاط گنگا برد کردی۔ تیرتھ نے جب کمبھ میلہ سب
کے لیے کھولنے پر اصرار کیاتوسرکاری افسران نے مرکزکی ہدایات کا حوالہ دیا۔
اس پر وہ بولے میں وزیر اعظم ، وزیر داخلہ اور پارٹی صدر کو منوا لوں لوں
گا ۔ تیرتھ بھول گئے کورونا ان میں سے کسی کی نہیں مانتا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق مارچ کی 11 تاریخ کو۳۲ لاکھ لوگ ڈبکی لگانے کے لیے
ہری دوار میں جمع ہوئے۔ اس وقت تک شہر میں کورونا سے متاثرین کی تعداد بڑھ
کر ۱۰۹۴ ہوچکی تھی جب کہ دو ہفتہ قبل وہ صرف ۱۴۱ تھییہ۷ گنا کا اضافہ
معمولی نہیں ہے لیکن اپنی سیاست چمکانے کے لیے وزیر اعلیٰ نے اپنے ہی عوام
کی جان سے کھلواڑ کیا ۔ وزیر اعلیٰ نے کہہ دیا کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی
البتہ مرکز کی ہدایت کے مطابق ماسک لگایا جائے گا اور سینیٹائزر کا استعمال
ہوگا ۔ یہ تو مکھی چھاننے اور اونٹ نگلنے والی بات ہے کیون کہ ا ماسک لگا
کر ڈبکی لگانا اور اس کے بعد سینیٹائز استعمال کرنے سے آخر کیا فائدہ ہوگا؟
وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ نے جوش میں آکر بذاتِ خود سادھو سنتوں سے ملاقات کی
اور پازیٹیو ہوگئے ۔ اس کے بعد قرنطینہمیں بند ہوکر ورچول کانفرنس کرنے لگے
۔ ان کے متاثر ہونے کا پتہ تو اس لیے چلا کہ ٹسٹ کیا گیامگر جن سادھو سنتوں
کا ٹسٹ ہی نہیں کیا گیا ان کیا حال ہوگا وہ کوئی نہیں جانتا؟ ویسے بھییہ
سادھو بی جے پی کو ووٹ دینے کے لیے پولنگ بوتھ پر جاتے نہیں ہوں گے اس لیے
سرکار کو ان کی فکر کم ہی ہوگی ہاں انہیں خوش رکھنا ضروری ہے تاکہ ان کے
عقیدتمندوں کا ووٹ ملتا ر ہے۔
چوٹ کھانے کے بعد تیرتھ سنگھ کا دماغ درست ہوا تو ساری دنیا سے کٹ کر ورچول
خطاب میں انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ کورونا جیسی بیماریاں مہلک ہیں ،اس
لیے کورونا کے اصولوں پر عمل کرنا چاہئے۔ کورونا کے ضوابط کی عدم تعمیل سے
لوگوں کو صحت کا نقصان خطرناک ثابت ہوگا۔ اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ ہوا
میں اڑنے والے تیرتھ کو کورونا کا قہر زمین پر لے آیا ہے۔ بنا روک ٹوک
کمبھ میلہ کی حمایت کرنے والے وزیر اعلی نے ریاست کی سرحدوں پر شدید چیکنگ
شروع کردی ہے تاکہ کورونا اور دیگر بدنظمی کو بڑھنے سے روکا جاسکے۔اب تو
انہیں ہائیکورٹ بھی یاد آگیا اور اس کے احکامات پر ہر ممکن عمل کرنے کا
مشورہ دیا جارہا ہے۔ یہ تو ایسا ہے کہ جب اپنے جوتے میں کیل لگتی ہے تو درد
کا احساس ہوتا ہے۔ کمبھ کی بابت وزیر اعلیٰ ایک مشکل تواز ن قائم رکھنے کی
کوشش میں ہیں ۔ انہوں نے پولیس اہلکاروں سے کہا کہ غیر ضروری طور پر عام
عقیدت مندوں کو پریشان نہ کیاجائے۔ اس طرح یہ ضروری اور غیر ضروری کا فیصلہ
انہوں نے پولس پر چھوڑ دیا کہ جو جس کو ضروری سمجھے کرے نہ سمجھے نہ کرے ۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک چیز پولس کے ضروری ہو اور کسی سادھو کے لیے غیر
ضروری ہو۔
تیرتھ سنگھ بہترین انتظامات مہیا کرکے ہریدوار کمبھ کوشاندار اور
عالیشانبنانا چاہتے ہیں تاکہ کسی کا مذہبی عقیدہ مجروح نہ ہو۔ کمبھ میلے کو
وہ سناتن روایت کا ایک اہم حصہ بتا کر بہتر سے بہتر بنانے کو سب کی ذمہ
داری سمجھتے ہیں ۔ اس بیان بازی سے قطع نظر وزیر اعلیٰ فی الحال اس قدر
خوفزدہ ہیں کہ انہوں نے کووڈ کی رہنمائی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہولی بھی
گھر میں منانے کے احکامات جاری کردیئے ہیں ۔ اس پورے منظر نامہ سے کورونا
جہاد کا نعرہ لگانے والا میڈیا گدھے کے سر سے سینگ کی مانند غائب ہے ۔ہولی
کے موقع پر سابق وزیر اعلیٰ ترویندر سنگھ نے ملک اور صوبے کے لوگوں کو
مبارکباد دے کر ڈھول تاشہ اور ناچ گانا کرکے خوشی منائی لیکن رنگ کھیلنے سے
گریز کیا ۔ اس موقع پر سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ کورونا وائرس دوبارہ تیزی
سے پھیل رہا ہے۔ اس لیے بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس وباء کو روکنے کے
لیے جاری کی جانے والی سرکاری رہنمائی پر خو د اپنی مرضی سے پوری طرح عمل
در آمد ہونا چاہیے۔ یہ ہماری سماجی اور اخلاقی ذمہ داری ہے اس سے ہم خود
بھی محفوظ رہیں گے اور دوسروں کی بھی حفاظت کرسکیں گے۔ ترویندر سنگھ نے یاد
دلایا کہ ماہرین کے مطابق کورونا کی وبا کا دوسرا حملہ کافی خطرناک ہوسکتا
ہے اوراعدادو شمار اس کی تائید کرتے ہیں۔
پچھلے 9 ماہ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے یکم فروری 2021کو ہندوستان میں سب
سے کم 8500 معاملات سامنے آئے لیکن اس کے بعد اضافہ شروع ہوگیا اور یکم
مارچ تک یہ تعداد بڑھ کر 11,500 ہوگئی ۔ اس کے بعد دس دن کے اندر متاثرین
کی تعداد تقریباً دوگنا ہوگئی یعنی 22800 پر پہنچ گئی۔ اب شروع ہوتا ہے
کمبھ کا میلہ اور دس دن بعد یہ پھر سے 100فیصد بڑھوتری دیکھنے میں آئی
یعنی کل تعداد43800 پرجا پہنچی۔ اس کے بعد پانچ دن کے اندر 25 مارچ کو
59,000 کورونا کے مصدقہ مریض ملک میں تھےجو2؍ اپریل تک 89,000ہوگئے ۔ یہ
40,000کا غیر معمولی اضافہ ہےاور پچھلی سب سے بڑی تعداد سے صرف 9000 کم ہے
کوئی بعید نہیں کہ آئندہ چند دنوں میں ملک اس سے آگے بڑھ جائے۔ مودی جی
تعریف کرنے والے تیرتھ سنگھ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ امریکہ اور برازیل
کے مقابلے ڈیڑھ گنا زیادہ تعداد ہے۔ اس میں کمبھ کا کتنا حصہ ہے اس کا
اندازہ لگانا مشکل ہے اور یہ اس کے سبب مزید کتنا پھیلے گا یہ بھی کوئی
نہیں بتائے گا کیونکہ ایسا کرنا قومی مفاد کے خلاف ہوگا ۔ انسانی تاریخ میں
شاید پہلی بار قومی مفاد کے نام پر سرکار کا فائدہ ہی سب کچھ ہوکر رہ گیا
ہے۔آج کے اس سفاک دور میں قوم پرستی نے انسانی جان کے احترام کو قومی مفاد
کے مرگھٹ پر بلی چڑھا دیا ہے ۔ اس قوم پرستانہ سیاست پر علامہ اقبال یہ شعر
ہو بہو صادق آتا ہے؎
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
|