خواب فروش، خواب گیر، ن م راشد

تحریک اور جمود کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جہاں جمود آئے گا وہاں تحریک اسے توڑنے کے لیے ضرور سامنے آئے گی۔ پس انسانی زندگی ایک ایسے مسلسل عمل کا نام ہے، جس کا میٹافزیکل یا طبعی تحرک کبھی اختتام پذیر نہیں ہوتا۔مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جسے کسی obstacle یا رکا وٹ سے روکا نہیں جا سکتا، شاید اسی بات کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے جرمن فلاسفر برگساں نے زندگی کو ایک ایسے تیز رفتار گھوڑے سے تشبہیہ دی ہے جو تلاشِ افق میں میں سرگرداں کسی مقام پر ٹھہرے بغیر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ تغیر و تبدل کی خواہش انسانی فطرت ہے چنانچہ انسان اپنی اسی فطری خواہش کی تکمیل کے لیے وقتاً فوقتاً، نئی نئی جہتیں اور اخترا ئیں تلاش کرتا رہتا ہے۔ جس طرح وقت کا گھوڑا ایک مقام پر نہیں ٹھہرتا اسی طرح انسانی ذہن ایک مقام سے گذر نے کے بعد اس کے تکمیلی مراحل سے انحراف کرتے ہوئے یا انضباط کرتے ہوئے ایک نئی منزل اور ایک نئے عمل کی طرف قدم بڑھا تا ہے۔
ہم ادبِ اردو کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں یہ عمل بدرجہ اتم مل جاتا ہے۔ مثلاً: اگر رومانی تحریک کو دیکھیں تو یہ علی گڑھ تحریک کے ردِ عمل کے طور پر منظرِ عام پر آئی۔ اسی طرح ترقی پسند تحریک، رومانی تحریک کا نتیجہ تھی۔ ایک تحریک حلقہ اربابِ ذوق کی تحریک کہلاتی ہے جو رومانی اور ترقی پسند تحریک کے سنگھم سے ابھری۔ اسے ہم پانچ ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں:
پہلا دور: اپریل1939ء تا1940ء تک (میرا جی کی شمولیت تک)
دوسرا دور: اگست1940ء تا دسمبر1940ء تک
تیسرا دور: دسمبر1940ء تا اگست 1947ء تک (قیامِ پاکستان تک)
چوتھا دور: اگست 1947ء تا مارچ 1972ء تک
پانچواں دور: مارچ 1972ء تا حال
اگر ہم حلقہ ارباب ِ ذوق کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ میرا جی کے علاوہ اس تحریک کا سب سے بڑا نام جو اس تحریک کے چار ادوار میں نمایاں نظر آتا ہے وہ نذر محمد راشد کا ہے جس نے ن۔م۔راشد کے نام سے شہرت حاصل کی۔ راشد یکم اگست 1910ء میں علی پور چٹھہ ضلع گو جر انوالہ میں پیدا ہوئے۔1928 ء میں بی۔ اے کا امتحان پاس کیا جب کہ1930ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے اقتصادیات میں ایم۔ اے کیا۔1935ء میں ڈپٹی کمشنر ملتان کے دفتر میں کلرک بھرتی ہو گئے؛لیکن خاک سار تحریک میں شمولیت کی وجہ سے ملازمت چھوڑنا پڑی۔ 1936ء میں اس تحریک سے بھی علیٰحدگی اختیار کرلی۔ 1939 ء میں نائب پروگرام کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہوگئے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران فوج میں کمیشن حاصل کیا اور فوجی افسر کی حیثیت سے ایران، عراق، مصراور سری لنکا میں خدمات سر انجام دیں۔ قیام ِ پاکستان کے بعد ریڈیو پشاور سے وابستہ ہو گئے۔ 1952ء میں اقوام متحدہ کے اطلاعات ونشریات کے شعبے میں شمولیت کرلی۔راشد نے /10 اکتوبر 1975ء کو انگلستان میں دنیا کو خیر باد کہا۔
جس دور میں راشد کی شاعری منظرِعام پر آئی اس دور میں ہر طرف ترقی پسندی کا شہرہ تھا اور یہ اس لیے تھا کیونکہ ہمارا قدیم معاشرہ جس کی بنیاد جاگیر داری پر قائم تھی، جدید دور میں دم توڑ رہی تھی اور اس کی جگہ سیاسی کشمکش، اقتصادی بہتری کے تصورات اور اجتماعی دفاع کی اقدار لے رہی تھی لیکن جب شاعر اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتا تھا تو اسے قدیم شاعری کی پابندیاں مانع آتی تھیں چنانچہ اس نے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے اس انداز کو وسیع پیمانے پر اور باقاعدگی سے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جسے آزاد اور حالی نے ایجاد کیا تھا تاہم اس میں بھی ردیف اور قافیے کی پابندیاں آڑے آنے لگیں تو آزاد نظم کی بنیاد پڑی حا لا نکہ آزادؔ اور حالی ؔ کا مطمع نظر خالصتاً ادبی تھا اور ان کے پیشِ نظر بنیادی اصول تھے۔ ایک موضوع کا تسلسل اور دوسرا حسن و عشق کے محدود کو چے سے نکل کر فطرت اور دوسرے مو ضوعات تک رسائی۔بہر حال ان بزرگوں کے بعد کے شعراء نے اپنے پیش روؤں کی بنیادوں پر فلک بوس عمارت تعمیر کی اور اپنی پسند کے مطابق مختلف میدان منتخب کرکے ان میں خصوصی رنگ پیدا کیا۔اس دور کے شعرا میں اکبر، نظم طباطبائی، شوق قدوائی، بے نظیر شاہ، سلیم سرور، چکبست، نادر کاکورو ی اہم ہیں۔ ان کے بعد شاعروں کا ایک گروہ ایسا آیا جس نے گردوپیش کی زندگی کے سارے دکھ درد سمیٹ کر انسان کے کرب و اضطراب کی داستان اور جہاں تک ہو سکا اس کے زخموں کا مرہم اور دکھوں کا مداوا تلاش کرنے کی کوشش کی۔شعرا کی اسی صف میں ن۔م۔راشد کا شمار ہوتا ہے۔ راشد نے اس کو کام کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ بامِ عروج تک پہنچایا جس کا آغاز محمد حسین آزادؔ اور مولانا حالیؔ نے کیا تھا۔ راشد نے ترقی پسند شاعروں کو بھی دیکھا ان کے کلام کا مطالعہ بھی کیا لیکن اپنے لیے ایک نیا راستہ منتخب کیا جس کی بدولت آج ہم اسے یاد کرتے ہیں وگرنہ مرنے سے پہلے مسلمان ہونے کے باوجود جو کام وہ کرگیا اس کی بنیاد پر شاید کو ئی مسلمان ادیب اسے خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا۔

راشد کا پہلا مجموعہ کلام ماورا 1942ء، دوسرا ایران میں اجنبی 1955ء اور تیسرا مجموعہ کلام لا=انسان 1969ء میں منصہ شہود پر آیا۔ راشد کی شاعری مادہ و ہیئت ہر اعتبار سے نئے تجربات کی شاعری ہے۔ انہوں نے اردو شاعری کی روایات سے بغاوت کی اور یہ بغاوت داخلی و خارجی اور فکری وفنی ہر لحاظ سے بغاوت ہے۔ اگرچہ راشد سے پہلے عبدالحلیم شرر اور اسما عیل میرٹھی نے بھی بے قافیہ نظمیں کہیں تھیں مگر راشد کی نظم آزاد اپنے اسلوب، فکر وبیان اور مخصوص آہنگ و تاثر کے اعتبار سے بالکل مختلف ہے۔ ملاحظہ کیجیے
نظم ”زنجیر“
گوشہئ زنجیر میں
اِک نئی جنبش ہویدا ہو چلی
سنگِ خارا ہی سہی، خارِ مغیلاں ہی سہی!
دشمنِ جاں، دشمنِ جاں ہی سہی
دوست سے دست و گریباں ہی سہی
یہ بھی تو شبنم نہیں
یہ بھی تو مخمل نہیں، دیبا نہیں، ریشم نہیں
ہر جگہ پھر سینہ نخچیرمیں
اک نیا ارماں، نئی امید پیدا ہو چلی
حجلہئ سیمیں سے تو بھی پیلہئ ریشم نکل
وہ خسیں اور دور افتادہ فرنگی عورتیں
توُ نے جن کے حسنِ روز افزوں کی زینت کے لیے
سالہا بے دست و پا ہو کر بُنے ہیں تار ہائے سیم و زر
اُن کے مردوں کے لیے بھی اِک سنگین جال
ہو سکے تو اپنے پیکر سے نکال!!
شکر ہے دنبالہئ زنجیر میں
اِک نئی جنبش، نئی لرزش ہویدا ہو چلی
کو ہساروں، ریگ زاروں سے صدا آنے لگی
ظلم پروردہ غلامو!بھاگ جاؤ۔۔
پردہئ شبگیر میں اپنے سلاسل توڑ کر
چار سو چھائے ہوئے ظلمات کو اب چیر جاؤ
اور اس ہنگام باد آورد کو
حیلہئ شب خوں بناؤ!
اور نظم”سباویراں“ میں ان کا انداز ملاحظہ ہو:
سلیماں سربزانو اور سبا ویراں
سبا ویراں، سبا آسیب کا مسکن
سبا آلام کا انبار بے پایاں
گیا و سبزہ و گل سے جہاں خالی
ہوائیں تشنہ ئ باراں
طیور اس دشت کے منقارِ زیر پر
تو سرمہ در گلو انساں
سلیماں سربزانو اور سبا ویراں
سلیماں سربزانو، تُر ش رو، غمگیں، پریشاں مُو
جہانگیری، جہاں بانی، فقط طرارہئ آہو
محبت شعلہئ پراں، ہاس بوئے گل بے بو
زرازِ دہر کمتر گو!
سبا ویراں کہ اب تک اس زمیں پر ہیں
کسی عیار کے غارتگروں کے نقشِ پا باقی
سبا باقی نہ ماہروے سبا باقی!!
سلیماں سر بزانو!
اب کہاں سے قاصد فرخندہ پے آئے؟
کہاں سے کس سبو سے کاسہ پیری میں مے آئے؟

راشد کی شاعری میں ردیف و قافیہ کا التزام کسی مسلمہ قاعدے کے مطابق نہیں۔ان کے ہاں زبان میں بھی جدت ملتی ہے۔انہوں نے نئے نئے الفاظ، تراکیب، تشبیہات اور استعارات استعما ل کیے ہیں نیز پرانے الفاظ کو نئے معنی بھی پہنانے کی کوشش کی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کی بعض نظمیں عام قاری کی دسترس سے باہر ہو جاتی ہیں۔ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے کرشن چندر کہتے ہیں:
فنی نقظہ نگاہ سے راشد ایک صحیح باغی شاعر ہے۔ اس کا تخیل ہمیشہ ہماری موروثی زبان، الفاظ، ان کے معانی، اسا لیب، بندشوں اور ترکیبوں کو توڑتا پگھلاتا، انہیں سانچوں میں ڈھالتا، نئی صورتیں دیتا اور ان میں سے نئے مطالب کشید کرنے کی کوشش کرتارہتا ہے۔اس کی شاعری میں نفسیاتی تحلیل اور جذباتی تسلسل ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور ان دونوں کے ہم آہنگ ہونے سے ایک آزاد تسلسل کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

راشد نے قدیم طرز سے بغاوت کی پہلے مغرب کی سیاسی غلامی کے خلاف اپنی شاعری میں بغاوت کی اور پھر ادبی اور فنی روایات سے بغاوت کی، اس کے بارے وہ خود کہتے ہیں:
بحروں اور قافیوں کی پابندی شاعر کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔جس شاعر کو قدرت نے آہنگ اور توازن کی حس عطا کی ہے۔ اسے قافیہ کے سامنے دریوزہ گری کرنے کی ضرورت نہیں۔ قافیہ اندھے کی لاٹھی کی مانندہے۔ شاعر اندھا ہے تو اسے یقیناً لاٹھی سے راستہ ٹٹولنے کے سوا چارہ نہیں لیکن اگر شاعر کو قدرت نے آنکھیں بخشی ہیں تو لاٹھی اس کی حفاظت تو کر سکتی ہے مگر راستہ نہیں دکھا سکتی۔

بعض نقادوں کے نزدیک ان کی بغاوت کے سوتے ان کی جنسی ناآسودگی سے پھوٹتے ہیں یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ ان کی انفرادی کیفیت تھی یا کہ مغربی تقلید کا نتیجہ کیونکہ فرائیڈ کے جس جنسی نظرئیے کو انہوں نے اپنایا وہ خیالی بھی ہو سکتا ہے اور انفرادی بھی۔بہر حال قطع نظر ان باتوں کے راشد بیسویں صدی کے جدید اور منفرد شاعر تھے۔ان کا شمار اردو میں آزاد نظم کے اولین اور اہم شعرا میں ہوتا ہے جن کے تخلیقی ذہن کی ساخت اپنے معاصر شعرا سے یکسر منفرد تھی اور انہوں نے اپنے اس خاص طرزِ احساس کو ہیئت و تکنیک اور رنگ وآہنگ کے نئے اسلوب میں پیش کرکے اردو نظم میں ارتقا ئے فکر کاایک نیا انداز پیدا کیااور شاعری کی تخلیق میں بالواسطہ طریق اپنا کر اردو نطم کی داخلی جہت کو مضبوط اور منظم بنا دیا۔

راشد کے انداز میں ایک اعتماد، لہجے میں تیقن، اظہار میں زور اور پھیلاؤ پایا جاتا ہے۔ ماورا کے بعد کی نظموں میں شدتِ جذبات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ ان کی یہ نظمیں موضوع کے لحاظ بڑی متنوع ہیں، ان میں مختلف ممالک اور خاص طور پر شرق الاسط کے سیاسی و سماجی مسائل کا ذکر ملتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ راشد نے ان میں اپنے تمام تجربات و مشاہدات، میل ملاقاتیں، عشق ومحبت، امیدیں اور خدشات پورے خلوص کے ساتھ منعکس کرنے کی کوشش کی ہے۔ایران میں اجنبی اور لا=انسان کی شاعری میں اس اجتماعی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے جو وقتی نہیں اور جو ایک لحاظ سے منفرد بھی ہے یعنی کسی کے بتائے اصول کے تابع نہیں۔ذیل میں ان کی چند معروف نظموں سے اقتباسات درج کیے جاتے ہیں جن کے مطالعہ سے ان کے انداز اور اظہارِ جذبات سے سے کسی قدر آگاہی حاصل ہو سکے گی:
”ظلم رنگ“
”یہ میں ہوں“
”اور یہ میں ہوں“
یہ دو میں ایک نسیم نیلگوں کے ساتھ آویزاں
ہمیں شرق و غرب کے مانند
لیکن مل نہیں سکتے!
صدائیں رنگ سے ناآشنا
اک تارا ن کے درمیاں حائل!
”جرا ئتِ پرواز“
بجھ گئی شمع ضیا پوش جوانی میری!
آج تک کی ہے کئی بار ”محبت“ میں نے
اشکوں اور آہوں سے لبریز ہیں روماں مرے
ہو گئی ختم کہانی میری!
”ظلسمِ جاوداں“
رہنے د ے اب کھو نہیں باتوں میں وقت،
اب رہنے دے!!
اپنی آنکھوں کے طلسمِ جاوداں میں بہنے دے
”پہلی کرن“
کوئی مجھ کو دورِ زمان و مکاں سے نکلنے کی صورت بتادو
کوئی یہ سمجھادو کہ حاصل ہے کیا ہستی رائیگاں سے؟
کہ غیروں کی تہذیب کی استواری کی خاطر
عبث بن رہاہے ہمارا لہو مومیائی!!
”رقص“
اے میری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں
ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو
رقص گر کہ چور دروازے سے آکر زندگی
ڈھونڈ لے مجھ کو نشاں پائے مرا
اور جرمِ عیش کرتے دیکھ لے!

راشد کی نظموں میں ایک اچھوتا انداز ہی نہیں بلکہ دل کو موہ لینے والی کیفیات کا اظہار بھی بڑے دلکش پیراے میں ملتا ہے۔ ان نظموں کے مطالعے سے ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ انہوں نے جس موضوع کو بھی منتخب کیا ہے اسے اس طرح اپنی نظموں میں بیان کیا ہے کہ اس پر حقیقت کا گمان گزرتا ہے۔ مثلاً: جب وہ اپنی نظم ”تعارف“ میں اجل سے ملاقات کراتے ہیں تو اس طرح کہ محسوس ہوتا کہ ہم خود موت سے مل رہے ہیں۔ وہ صاف صاف لفظوں میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ موت جب آتی ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتی کہ وہ جس پر نازل ہو رہی ہے اس کا تعلق اہلِ صلوٰۃ سے ہے یا کہ اہلِ شراب سے، اہلِ خلاسے ہے یا کہ اہلِ زمین سے، اہلِ ادب سے ہے یا کہ اہلِ حساب اور نہ یہ دیکھتی ہے کہ یہ انسان مثبت خیالات رکھتا ہے یا منفی خیالات کا مالک ہے۔ موت کا یہ تعارف ان کی نظم میں دیکھیے:
”تعارف“
اجل، ان سے مل
کہ یہ سادہ دل
نہ اہلِ صلوٰۃ اور نہ اہلِ شراب
نہ اہلِ ادب اور نہ اہلِ حساب
نہ اہلِ کتاب_____
نہ اہلِ کتاب اور اہل ِمشین
نہ اہلِ خلا اور نہ اہلِ زمین
فقط بے یقین
اجل، ان سے مت کر حجاب
اجل ان سے مل!
بڑھو، تم بھی آگے بڑھو،
اجل سے ملو،
بڑھو نو تونگر گداؤ
نہ کشکولِ دریوزہ گری چھپاؤ
تمہیں زندگی سے کوئی ربط باقی نہیں
اجل سے ہنسو اور اجل کو ہنساؤ!
بڑھو، بندگانِ زمانہ، بڑھو بندگانِ درم
اجل، یہ سب انسان منفی ہیں،
منفی زیادہ ہیں، انسان کم
ہو ان پر نگاہِ کرم!

راشد دوسری جنگِ عظیم میں جب فوج میں تھے تو انہیں کئی ممالک کی سیر کا موقع میسر آیا چنانچہ ایران میں قیام کے دوران وہاں کے حالات سے خوب واقف ہوئے اور انہوں نے ایران کو جس طرح اپنی نظم کا موضوع بنایا ہے وہ قابلِ تقلید ہے۔ ایران اور وسطی ایشیا کی دوسری ریاستوں کے وہ شہر جو کبھی مسلمانوں کے مرکز تھے ان کا ذکر ان کی نظموں میں ایک خاص رنگ اور پیرائے میں ملتا ہے۔ وہ کبھی سمر قند و بخارا کی بات کرتے ہیں تو کبھی تہران و مشہد کے قصے چھیڑ بیٹھتے ہیں۔ ان کی نظم ”تیل کے سوداگر“ میں ان کا یہ انداز ملاحظہ کیجیے:
بخارا سمرقند اک خالِ ہندو کے بدلے!
بجا ہے، بخارا سمرقند باقی کہاں ہیں؟
بخارا سمرقند نیندوں میں مدہوش،
اک نیلگوں خامشی کے حجابوں میں مستور
اور رہروؤں کے لیے ان کے در بند،
سوئی ہوئی مہ جبینوں کی پلکوں کی مانند،
روسی ”ہمہ اوست“ کے تازیانوں سے معزور
دو مہ جبینیں!
بخارا سمرقند کو بھول جاؤ
اب اپنے درخشندہ شہروں کی
طہران و مشہد کے سقف و در وبام کی فکر کر لو،
تم اپنے نئے دورِ ہوش و عمل کے دلآویز چشموں کو
اپنی نئی آرزؤں کے ان خوبصورت کنایوں کو
محفوظ کرلو!
ان اونچے درخشندہ شہروں کی
کو تہ فصیلوں کو مضبوط کرلو
ہر اک برج و بار پر اپنے نگہباں چڑھا دو،
گھروں میں ہوا کے سوا،
سب صداؤں کی شمعیں بجھادو!
کہ باہر فصیلوں کے نیچے
کئی دن سے رہزن ہیں خیمہ فگن،
تیل کے بوڑھے سوداگروں کے لبادے پہن کر،
وہ کل رات یا آج کی رات کی تیرگی میں،
چلے آئیں گے بن کے مہماں
تمہارے گھروں میں،
وہ دعوت کی شب جام و مینا لنڈھائیں گے،
ناچیں گے، گائیں گے،
بے ساختہ قہقہو ں ہمہموں سے
وہ گرمائیں گے خوں ِمحفل!
مگر پو پھٹے گی
تو پلکوں سے کھو دو گے خود اپنے مُردوں کی قبریں
بساطِ ضیا فت کی خاکستر سوختہ کے کنارے
بہاؤ گے آنسو!
بہائے ہیں ہم نے بھی آنسو!
گو اب خالہندو کی ارزش نہیں ہے
غدار ِ جہاں پر وہ رستا ہوا گہرا ناسور
افرنگ کی آز خون خوار سے بن چکا ہے
بہائے ہیں ہم نے بھی آنسو،
ہماری نگاہوں نے دیکھے ہیں
سیّال سایوں کے مانند گھلتے ہوئے شہر،
گرتے ہوئے بام و در
اور مینا ر و گبند،
مگر وقت محراب ہے
اور دشمن اب اس کی خمیدہ کمر سے گذرتا ہوا
اس کے نچلے افق پر لڑھکتا چلا جا رہا ہے!
ہمارے برہنہ و کاہیدہ جسموں نے
وہ قید و بنداور وہ تازیانے سے ہیں
کہ ان سے ہمارا ستمگر
خود اپنے الاؤ میں جلنے لگا ہے!
مرے ہاتھ میں ہاتھ دے دو!
مرے ہاتھ میں ہاتھ دے دو!
کہ دیکھی ہیں میں نے
ہمالہ والوند کی چوٹیوں پرانا کی شعاعیں،
نہیں سے وہ خورشید پھوٹے گا آخر
بخارا و سمرقند بھی سالہا سال سے
جس کی حسرت کے دریوزہ گر ہیں

راشد کے ہا ں ہیئت کے تجربات کی عمدہ مثالیں مل جاتی ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ہیئت کے جس قدر تجربات ن۔م۔راشد نے کیے اتنے کسی اور شاعر نے کرنے کی کوشش ہی نہیں کی اگرچہ راشد کے بعد اس میدان میں مجید امجد کا نام بجا طور پر لیا جاسکتا ہے بایں ہمہ اس میدان میں جو مقام و مرتبہ راشد کے حصے میں آیا ہے وہ کسی اور کے کھاتے میں ڈالا ہی نہیں جاسکتا۔ راشد کی نظم اندھا کباڑی میں ان کے یہ تجربات دیکھے جاسکتے ہیں:
میں پھر سے لگاتا ہوں صدا۔۔۔۔۔۔
”مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب۔۔۔۔۔۔۔“
”مفت“ سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ۔۔۔۔۔۔۔
”دیکھنا“ یہ ”مفت“ کہتا ہے
کوئی دھوکہ نہ ہو؟
رات ہو جاتی ہے
خوابوں کے پلندے سر پر رکھ کر
منہ بسورے لوٹتا ہوں
رات بھر پھر بڑبڑاتا ہوں
”یہ لے لو خواب۔۔۔۔۔۔
اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی۔۔۔۔۔۔۔
خواب لے لو، خواب۔۔۔۔۔۔۔
میرے خواب۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب۔۔۔۔۔۔میرے خواب۔۔۔۔۔۔۔۔
خوااااب۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے داااام بھی ی ی ی۔۔۔۔۔۔۔۔“

 

Shahid Aziz Anjum
About the Author: Shahid Aziz Anjum Read More Articles by Shahid Aziz Anjum: 6 Articles with 8968 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.