جانِ پرسوز‘ کا شاعرڈاکٹر آرزوؔ

جانِ پرسوز‘ کا شاعرڈاکٹر آرزوؔ
(تقریظ)
٭
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
مجھ پر مہر بان میرے دوست پاکستانی آسٹریلین افضل رضوی صاحب کا میسیج ملا کہ آسڑیلیا میں مقیم ایک شاعر صاحب اپنے شعری مجموعے پر مجھ سے تقریظ لکھوانے کے خواہشمندہیں۔ افضل صاحب سے مراسم کی نوعیت جس نَوع کی ہے، انکار ممکن ہی نہیں تھا، البتہ اپنے ایک سابقہ تجربہ کی بنیاد پر اتنا ضرور پوچھا کہ شاعر صاحب خود چاہتے ہیں کہ میں ان کے مجموعے پر تقریظ لکھوں، جواب آیا کی جی ایسا ہی ہے، میں مطمئن ہوگیا اور لکھ دیا کہ مسودہ جس فارمیٹ میں چاہیں بھیج دیں۔ دوسرے دن ای میل پر مجموعے کی اِن پیج کاپی موصول ہوگئی۔ یہ تھا ڈاکٹر محمد محسن علی آرزوؔ کا شعری مجموعہ ”جان ِپرسوز“۔ انٹر نیٹ، واٹس اپ، ای میل، میسنجر، ذوم یا اسٹریم یارڈ قسم کی برقی سہولتیں اور برقی کتب کا رجحان عام ہوگیاہے، یعنی اب کتاب اسکرین پر بھی پڑھی جارہی ہے۔ مصنفین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی تخلیق پر پیش لفظ یا تقریظ لکھنے والا اِن پیج یا پی ڈی ایف فائل پر مسودہ پڑھ کر اس پر اظہاریہ تحریر کردے، یہ کوئی غلط بات بھی نہیں جو یہ کام کرسکتا ہے اس کے لیے مشکل نہیں جو کمپیوٹر، لیب ٹاپ یا اسمارٹ فون پر برقی کتاب نہیں پڑھ سکتا اس کے لیے مشکلات ہوتی ہیں۔میں جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہورہا ہوں اس لیے یہ کہا نہیں جاسکتا کہ جناب ہم اس ٹیکنالوجی سے نابلد ہیں۔ ایک تو ہیں نہیں، دوسرے جھوٹ وہ بھی علمی و ادبی کام کے لیے، کسی طور اچھا نہیں لگتا۔ اب احباب مصنفین یہیں پریکٹس اپنائے ہوئے ہیں کہ مسودہ نیٹ پر ارسال کر کے اس پر اظہار خیال کی فرمائش ہوتی ہے۔میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، بلکہ سہولت ہی ہوتی ہے۔
پیش نظر شعری مجموعے کے خالق کا نام محمد محسن علی، آرزو تخلص کرتے ہیں، پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کے شہر سیالکوٹ میں 18 جنوری 1979ء کو جنم لیا۔سیالکوٹ شہر ایک ایسی سرزمین ہے جس نے کئی بڑے اور نامور شاعروں اور ادیبوں کو جنم دیا۔ اقبال اور فیض کے علاوہ امجد اسلام امجد، بلدیو سنگھ ہمدم، جسٹس جاوید اقبال، جو گندر پال، راجندر سنگھ بیدی، ساحر سیالکوٹی، ظفر علی خان اور ن۔م۔راشد شامل ہیں۔اس طرح ڈاکٹر محمد محسن علی آرزو کو ایک ایسے شہر سے نسبت ہے جس نے نامور ادیبوں اور شاعر وں کو جنم دیا۔ وہ کمسنی میں والدین کے ساتھ کراچی آگئے، والد پی اے ایف میں ملازم تھے۔ تعلیم و تربیت کراچی میں ہوئی۔ ایف جی اسکول کے بعد ڈی جے سائنس کالج پھر ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ ادب سے لگاؤ اسکول کے زمانے سے ہی تھا، کہتے ہیں کہ شاعری تو اسکول کے زمانے سے کرنے لگاتھا لیکن اس میں باقاعدگی ایم بی بی ایس کی تعلیم کے دوران آئی۔ 2007ء میں پاکستان سے آسٹریلیا چلے گئے اور اب وہ پاکستانی آسٹریلین ہیں۔ آسٹریلیا میں قائم پاکستان آسٹریلیا لٹرری فورم میں فورم کے صدر جناب افضل رضوی صاحب کے ساتھ ادبی سرگرمیوں میں فعال ہیں۔ جان پرسوز ڈاکٹر آرزو کا پہلا شعر ی مجموعہ ہے۔میڈیکل کے پیشہ کے ساتھ ادبی سرگرمیوں کو وقت دینا اور شاعری و نثری سرگرمیاں جاری رکھنا یقینا قابل تحسین عمل ہے۔
ڈاکٹر آرزو کی شاعری جس کا مطالعہ میں نے اسکرین پرکیا۔ سچائی کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر آرزو کے سینے میں شاعری کا دیا ٹم ٹما رہا ہے جس کی چمک ان کے مجموعے ’جان پرسوز‘ میں واضح محسوس کی جاسکتی ہے، وہ شاعری کے جملہ رموز سے آگاہ ہیں۔ شاعری کے علاوہ انہیں لکھنے کا فن خوب آتا ہے عمدہ نثر بھی لکھتے ہیں۔ کتاب کے ابتدائیہ میں ان کی نثری تحریر کچھ اس طرح ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ ایک پختہ نثر نگار بھی ہیں۔لکھتے ہیں ”میری رائے میں شاعری سے لگاؤ، انسان کی حساسیت پر دلیل ہے۔ دورِجدید کی مادیت پسندانہ زندگی میں ادب سے دلچسپی رکھنے والا ہر شخص یقیناََ مبارک باد کا مستحق ہے۔ میں یہ نہیں جانتا کہ تخلیق کے کرب کو بیان کرنے کے لیے مناسب ترین الفاظ کون سے ہیں مگر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جب روح کا کرب، قلم کے ذریعے صفحہَ قرطاس پر منتقل ہوتا ہے تو خونِ آرزوؔ، دل سے کشید ہو کر آنکھوں سے چھلک جاتا ہے۔ہستی کی اس پیہم و پنہاں کشمکش کی داستاں، ” جان پرسوز“ آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔اس کتاب میں غزلوں اور نظموں کے ساتھ ساتھ، نثرِلطیف کے عنوان سے کچھ تحریریں بھی موجود ہیں۔ میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ اس کتاب میں موجود دو نظمیں ”ماں“ اور ”اے وادیئ کشمیر“ کو موسیقیت کا لبادہ پہنایاجاچکا ہے اور ان کی ویڈیوز، یوٹیوب پر دیکھی جاسکتی ہیں“۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کی اس مختصر سے تحریر سے ان کی نثر نگاری کا اندازہ بھی ہوتا ہے دوسرے یہ بھی علم ہوگیا کہ پیش نظر کتاب صرف غزلیات کا مجموعہ نہیں بلکہ اس میں نثرِ لطیف کے عنوان سے بیچ بیچ میں نثری تحریریں بھی ہیں، پھر یہ علم ہوا کہ وہ غزل گو ہی نہیں بلکہ نظم کے بھی شاعر ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی دو نظمیں ”ماں“ اور ”اے وادیئ کشمیر“ کو موسیقیت کا لبادہ پہنایاجاچکا ہے اور ان کی ویڈیوز، یوٹیوب پر دیکھی جاسکتی ہیں۔
ویسے تو ہر انسان ہی حساس طبیعت کا مالک ہوتا ہے لیکن شاعرانہ طبیعت رکھنے والا صاحب ِ فراست اور سریع الحس ہوتا ہے۔ حِس
نا م ہے ارتعاش کا اور ارتعاش فطری عواطف و میلانات سے متاثر ہونے کے عمل کانام ہے۔ شعری مجموعے ”جان پرسوز“کے شاعر ڈاکٹر محمد محسن علی آرزوؔ کی شاعری سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کی طبع موزوں، اور تخلیقی طبیعت کے مالک ہیں۔ شاعری جذبات و تخیئل کی زبان ہے اور کسی بھی شاعر کے لیے تخلیقی اظہار کی خوبیوں کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے،ڈاکٹر محمد محسن علی آرزوؔکی شاعری تمام تر تخلیقی اظہار کی خصوصیات سے آراستہ اور مزین ہے۔ ان میں الفاظ کو خوبصورتی سے مرصع کرنے کا ہنر پایا جاتا ہے۔پیش نظر مجموعے میں غزلیں، نظمیں اور قطعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شاعر شعر کی اہمیت سے آگاہ، الفاظ و معنی سے واقف ہیں، دیکھیے ان کا ایک شعر۔
سرخرو ہو گئی مخلوق کی ہر نوع لیکن !
سب خطاؤں کی وجہ خاک کا پتلا نکلا
ڈاکٹر آرزو نے شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ انہوں نے حمد کہی، ان کی حمد کا ایک شعر۔
اس قدر پیار ہے دنیا کی اداؤں سے مجھے
روزِمحشر کے تقاضوں کو بھلا دیتا ہوں !
حمد باری تعالیٰ کے ساتھ ساتھ نعت ِ رسولِ مقبول ﷺ بھی ڈاکٹر آرزو نے کہیں، ان کے مجموعہ میں شامل ایک نعت ِ رسول مقبول ﷺ کا ایک شعر۔
سراپا رحمتِ باری وجودِ ذاتِ عالی ہے
شفیعِ روزِ محشر، شاد تیرا ہر سوالی ہے
ڈاکٹر آرزواحساسات کے سمندر میں جذبات و خیالات کے مختلف رنگ لے کر کینوس پر ایسی تصویر کشی کرتے ہیں جس میں صرف شاداں و فرحاں کے شوخ رنگ صاف عیاں ہوتے ہیں۔بعض جگہ دکھ و تکلیف کا درد بھی دکھائی دیتا ہے۔دیکھئے ڈاکٹر آرزو کا ایک شعر۔
گھٹا ئے ظلمتِ دوراں جو چھانے لگتی ہے
تیرے خیال کی لو جگ مگانے لگتی ہے
ڈاکٹر آرزو سنجیدگی اور محنت سے اپنی غزلوں اور نظموں میں ذات اور کائینات کے مختلف موضوعات پر قلم اٹھاتے نظر آتے ہیں، دیکھئے ان کی ایک غزل کا شعر۔
نیرنگیئ دنیا میں محبت کی کمی ہے
نہ درد کی قیمت ہے، نہ آنکھوں میں نمی ہے
شاعری کی اصل قوت اس کی سچائی ہے، سادگی ہے، اس کا کھرا پن ہے، شاعر کے لفظ اس کے سچا ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔
زندگی کا لہو پئیں گے ہم
آخری سانس تک جئیں گے ہم
مجموعہ میں شامل ڈاکٹر آرزو کی نظم ”ماں“ میں انہوں نے نظم کا حق ادا کردیا ہے۔ ماں جیسی ہستی کے بارے میں شاعر نے اپنے جذبات کو حسین انداز میں قرطاس پہ منتقل کیا ہے۔ جی تو چاہتا ہے کہ مکمل نظم یہاں نقل کردوں لیکن وقت اور جگہ آڑے آرہی ہے۔ قارئین کو خصوصی طور پر دعوت ہے کہ نظم’ماں‘ کو ضرور پڑھیں۔
جس کو خالق نے محبت کی اجازت دی ہے
جس کے رشتے نے تعلق کو عقیدت دی ہے
جس کی ممتا نے گھرانوں کو سجاوٹ دی ہے
جس کی تعلیم نے قوموں کو قیادت دی ہے
جس کے قد موں میں ہے جنّت وہ حقیقت ماں ہے
جس سے ملتا ہے خدا ہاں وہ عبادت ماں ہے
ان کی ایک نظم اے وادیئ کشمیربھی دل دہلادینے والی اور کشمیر سے محبت کا حسین اظہار ہے۔
تاریخ کے پردے پہ لرزتی ہوئی تصویر
احساس کے چہرے پہ سلگتی ہوئی تحریر
ظلمت کے اندھیروں میں ابھرتی ہوئی تحریر
آفاق کے قدموں میں دہکتی ہوئی زنجیر
آذادیئ انسان کے ہر لمس کی تحقیر
اے وادیئ کشمیر اے وادیئ کشمیر
اک سوگ میں ڈوبی تیری گلیوں کی فضا
بارود کی بو ہے کہیں آہ بکا ہے!
ہر سمت شہیدوں کے جنازے کی صدا ہے
تیری نہیں یہ ملت مسلم کی فضا ہے
ابھرے گی اسی راکھ سے آزادی کی تصویر
اے وادیئ کشمیر اے وادیئ کشمیر
ڈاکٹر آرزو کے کلام میں سادگی، خلوص اور صداقت کا عنصر نمایاں ہے، دیکھئے ایک شعر۔
وہ میرے گھر میں جو آئے تو ٹِھٹھک کر بولے
کیسی ویرانی ہے کیا کوئی یہاں رہتا ہے
ایک غزل شہید صحافیوں کے نام کے ابتدائی دو اشعار
ظلمت کے اندھیروں میں چمکتا ہوا شاہد
ہر سچا صحافی ہے کفن پوش مجاہد
اے مرد صحافت صداقت و شجاعت
کردار میں، افکار میں، گفتار میں واحد
چند اشعار دیکھئے
میری آنکھوں کی اُداسی کا مجھے کیا معلوم
جانے کیا بات ہے یہ روز برستی کیوں ہے
بہتر ہے اُس کے واسطے آغوشِ قبر ہی
وہ زندگی جو جہد سے آراستہ نہیں
آرزوؔ دورِ احتساب سے اب
کوئی حاکم نکل نہیں سکتا
مجموعے میں غزلوں کے بیچ بیچ میں نثرلطیف کے عنوان سے نثری جوہر بھی دکھائے ہیں۔ان میں کسی نہ کسی موضوع پر نصیحت آمیز باتیں کی ہیں۔ اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف شاعری کے ساتھ ساتھ نثر نگاربھی ہیں۔ نثر کے ایک شَہ پارَہ میں لکھتے ہیں ”بڑے کہتے ہیں کہ تجربے کے لیے عمر کا ہونا شرط ہے۔گویا عمر کا زیادہ ہونا، تجربے کی زیادتی پر دلیل ہے۔شاید غور و فکر صِرف بڑھاپے میں ممکن ہے۔میرا دل چاہتا ہے کہ لوگ عمر کے ساتھ ساتھ بزرگی کو بھی اہمیت دیں اور بزرگی وہ نعمت ہے جو عمر سے نہیں غور و فکر سے حاصل ہوتی ہے“۔ ایک اور نثر پارہ میں لکھتے ہیں ”کسی مسافر کے اُٹھتے ہوئے قدم کا تعین اس سمت کا محتاج ہے جہاں اس کی منزل موجود ہے۔ قابل غور وہ مسافر ہے جس کی فہم منزل سے آشنا نہیں۔ جب منزل کا علم نہیں تو اب سمت کا تعین کیسے ممکن ہو۔ ایسا مسافر اس بات سے واقف نہیں کہ اس کا ہر اٹھنے والا قدم اسے منزل سے دور کررہا ہے یا قریب۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کی منزل اس سے کس سمت میں اور کتنے فاصلے پر موجود ہے۔ایسے مسافر کے لیے بہترین حل یہ ہے کہ وہ خیالات کو قوّتِ یقین پر مرکوز کرتے ہوئے اُمید کی سمت میں اِس اعتماد سے قدم اُٹھائے کہ منزل خود اُس کی راہ دیکھ رہی ہے“۔ اس قسم کی نثری تحریر مختلف جگہ پائی جاتی ہے۔ گویا شاعر ِ موصوف نثر میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں ان کا نثر کا مجموعہ بھی آسکتا ہے۔ پہلے شعری مجموعے پر دلی مبارک باد۔ عمدہ کاوش ہے، اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
صدر: ہماری ویب رائیٹرز کلب
سرپرست : سلسلہ ادبی فورم
25جولائی2020ء
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1274495 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More